شال بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم احتجاجی کیمپ کو 5485 دن ہو گئے۔
اظہار یکجتی کرنے والوں میں بلوچ وومن فورم کے آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ اور دیگر خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین تمام کٹھن و سخت حالات کو طے کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کے عظیم مقصد کی جانب رواں دواں ہے۔
اس جدوجہد میں میں ہزاروں بلوچ شہید اور ہزاروں قابض کی کال کوٹھڑیوں میں وطن کی شناخت کے لیے تشدد سہ رہے ہیں
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ظلم جبر کے خلاف اٹھی حق کی اواز کو قتل و غارت ظلم و جبر سے نہ دبایا جا سکا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکا ہمیشہ قابل ظالم نے مظلوم جودکاروں کے خلاف تشدد جبر کے ساتھ انہیں غلام رکھنے کے لیے اپنے تمام تر حربے اور وسائل کا استعمال کیا ہے عین یہی صورتحال روز اول سے بلوچ کے ساتھ بھی چلا آرہا ہے
انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی اپنی لاؤ لشکر کے ساتھ جبری قبضہ کے بعد سے اج تک اس غلامی کو تقویت دینے کے لیے فوجی اپریشن ہوں بلوچ نسل کشی مسخ لاشیں نیز تمام حربے استعمال کیے اور کر رہے ہیں مگر ایک اہم سوال کے سب سے بڑا جو کسی ق اچھا غلامی کا کی غلامی کا سبب بنتا ہے وہ کیا ہے تشدد ظلم نہیں ہر گز نہیں ہم اپنی تاریخ اور دیگر غلام قوموں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو سب میں ایک شے صاف نظر اتی ہے اور وہ ہے رد انقلابی قوتیں جو کسی بھی انقلاب کے سامنے رکاوٹ ہوں وہ رد انقلابی قوت کہلاتی ہیں
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا یے کہ جبکہ قابض ریاست کا سب سے اہم اور موثر ہتھیار کسی قوم کو غلام بنائے رکھنا اپنی نظام کے دائرے میں لانا ہوتا ہے ۔
اور یہ اس صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ اسی مظلوم قوم کے اندر ایسے مراحت یافتہ اسائش پسند لوگوں کا انتخاب کر کے گروہوں یا سیاسی گروپ تشکیل دینا عوام کو قابض ریاست کے سسٹم کے ماتحت کرنا ہے۔