دو مارچ بلوچ ثقافتی دن کے مناسبت سے نصیرآباد ٹیپول میں صباء لٹریری فیسٹول منعقد کیا گیا- اس کے علاوہ بلوچ ثقافتی دن کے مناسبت سے راڈہ شم کوہ سلیمان، شال، خاران، تُربَت، اوتھل، ڈی جی خان ملیر، اور تونسہ میں بھی تقریب کا انعقاد کیا گیا- تقاریب میں بلوچ ثقافت کے حوالے سے مختلف سگمنٹس شامل تھے-
صباء لٹریری فیسٹول نصیرآباد میں تنظیم کے چیئرمین سنگت شبیر بلوچ اور مرکزی ترجمان اُزیر بلوچ بطور مہمان خاص شریک تھے- فیسٹول میں مختلف سیگمنٹس شامل کیے گئے تھے جس میں راجی سوت(بلوچ قومی ترانہ) بلوچ ثقافت کے متعلق تقاریر، پمفلیٹ، پینل ڈسکشن، ڈرامہ، ٹیبلو، بلوچی ھال اھوال، دو چاپی، آرٹس ایگزیبیشن، کُتب میلہ سمیت میوزک شامل تھے-پروگرام بلوچ قومی ترانے (راجی سوت) کے ساتھ شروع کیا گیا جس میں شگفتہ بلوچ اور ماہ وش نے بلوچی ترانا پیش کیا، اور پھر تنظیم کی جانب سے لکھا گیا پمفلیٹ پڑھنے کے بعد بچوں کی جانب سے بلوچ اتحاد کے حوالے سے بنایا گیا ٹیبلو پیش کرنے کے ساتھ خواتین کی تعلیم پر ڈرامہ بھی پیش کیا گیا-
پروگرام میں مولا بخش جمالی، چیئرمین شبیر بلوچ اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے مختلف موضوعات پر تقاریر کیے- پروگرام میں دو پینل ڈسکیشن شامل تھے، ”ثقافت اور بلوچ ثقافت“ جس کے مہمان رحیم سید اور موڈیریٹر اُزیر بلوچ تھے اور دوسرا ”بلوچ ثقافت میں زبان کی اہمیت“ پر تھا جس میں عباس حسن اور ساحر اسحاق شامل تھے-
پروگرام میں بلوچی حال احوال اور دو چاپی کے ساتھ کُتب میلے کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں مختلف کتابوں کے ساتھ تنظیم کی جانب سے شائع کیا گیا کتابچہ ”ماتی زبان“ شامل تھے-پروگرام میں شرکاء اور مہمانوں نے بلوچ ثقافت پر بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ثقافت صرف مٹیریل شئے نہیں بلکہ نن مٹیریل بھی ہے جس میں زبان، نفسیات، تاریخ اور ادب بھی شامل ہیں، اس لیے ہمیں بحیثیت قوم بلوچ کو نا صرف اپنی ظاہری ثقافت بلکہ اپنے ثقافتی فلسفے کو بھی محفوظ کرنا ہے جس کی وجہ سے بلوچ قوم اور قوم پرستی آج تک زندہ ہے-
بلوچ تاریخ بلوچیت کی داستانوں سے بھری ہے جس کے بنیاد پر بلوچوں نے زندگی کی ہے-تقریب کے تمام سگمنٹس کے اختتام کے بعد آخری سگمنٹ موسیقی پر مشتمل تھا جس میں نوشین قمبرانی، خالق فرہاد اور لیاقت مراد پارکوئی نے حصہ لیا-