
تحریر: زمُل بلوچ
عربی زبان میں جنجوید کا مفہوم “گھوڑوں پر سوار مسلح شیطان” لیا جاتا ہے۔ عملی طور پر یہ نام مغربی سوڈان، خصوصاً دارفور، میں سرگرم اُن ملیشیاؤں کے لیے استعمال ہوا جو ریاستی پشت پناہی کے سائے میں ابھریں۔
سن 2003 میں دارفور کے تنازع کے آغاز کے ساتھ، اُس وقت کے حکمران عمر حسن احمد البشیر کے دور میں، جنجوید کو ایک غیر رسمی مگر مؤثر قوت کے طور پر استعمال کیا گیا، جبکہ مقامی سطح پر موسیٰ ہلال جیسے قبائلی سردار اس نیٹ ورک کی نمایاں شناخت بنے۔ اس عرصے میں ان گروہوں پر دیہات جلانے، شہری آبادی کو نشانہ بنانے، اجتماعی قتل، جبری نقل مکانی اور خواتین کے خلاف منظم جنسی تشدد جیسے سنگین الزامات عائد ہوئے، جنہیں بعد ازاں بین الاقوامی سطح پر بھی دستاویزی شکل دی گئی۔
جنجوید کی اس تاریخی تصویر سے بلوچستان کی موجودہ کشمکش تک رسائی ایک اینالوجی کی صورت میں ہوتی ہے۔ دونوں میں بعض بنیادی مشابہتیں موجود ہیں، اگرچہ سیاق و سباق مختلف ہے۔ جس طرح وہاں ریاستی سرپرستی میں پراکسی ملیشیاؤں کو غیر عرب آبادی کے خلاف استعمال کیا گیا، اسی طرح یہاں بھی انٹیلیجنس نیٹ ورکس مقامی غدار عناصر کو مسلح کر کے اُن کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف کھڑا کرتے ہیں۔ جنجوید کی طرح یہاں بھی پراکسی گروہوں کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ مقامی افراد کو اٹھا کر، انہیں اسلحہ، پیسہ اور طاقت کے وعدوں کے ساتھ اپنے ہی معاشرے کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ پنجابی فوج جانتی ہے کہ وہ براہِ راست بلوچ سماج کو زیرِ نگیں نہیں لا سکتی، اس لیے بنی اسرائیل کی مثال کی طرح، اندر سے خریدے گئے غداروں کو لالچ دے کر ایک ایک کر کے مسلح کیا جاتا ہے۔ یہی حکمتِ عملی جنجوید کو مؤثر بناتی تھی، جہاں مقامی عرب غیر عربوں پر چھوڑے جاتے تھے۔ آج بلوچستان میں یہی ڈیتھ اسکواڈز گھوڑوں پر سوار شیطانوں کی مانند استعمال ہوتے نظر آتے ہیں۔
وہاں عرب خانہ بدوشوں کو گھوڑے، اے کے–47، آر پی جی اور مشین گنز فراہم کی جاتی تھیں۔ بلوچستان میں اسی پیٹرن کی جھلک دکھائی دیتی ہے، جہاں مقامی پراکسیز کو جدید ہتھیار، پک اپ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں دی جاتی ہیں۔ انہیں انٹیلیجنس فہرستوں اور مالی مراعات کے سہارے حملوں پر لگایا جاتا ہے، جو براہِ راست ریاستی مداخلت کی آڑ میں اندرونی تقسیم کو مزید گہرا کرتا ہے۔
جنجوید کی ایک نمایاں خصوصیت نسلی نشانہ سازی تھی، جہاں غیر عرب قبائل کو منظم انداز میں نشانہ بنایا جاتا، نوجوانوں کو غلامی کے کیمپوں میں قید کیا جاتا اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کو دہشت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی تھی جو پوری کمیونٹی کی جڑیں کاٹ دیتی تھی۔ بلوچستان میں بھی یہی پیٹرن دہرایا جاتا ہے، جہاں بلوچ نوجوانوں کو خاص طور پر جبری گمشدگی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات—جن میں اسماء جتک کا کیس شامل ہے—اس تسلسل کی نمایاں مثال ہیں۔ فروری 2025 کی رات خضدار کے شہزاد سٹی میں مسلح افراد نے ان کے گھر پر حملہ کیا، خاندان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اسماء کو اغوا کر لیا۔ بعد ازاں ایک ویڈیو میں اُن سے جبراً “رضامندی” کا بیان دلوایا گیا۔ یہ اغوا، جو مقامی طور پر ڈیتھ اسکواڈز سے منسلک سمجھا جاتا ہے، بلوچستان اسمبلی میں واک آؤٹ اور شاہراہوں کی بندش تک جا پہنچا، مگر مرکزی ملزم تاحال آزاد ہے-
ایک ایسی صورتِ حال جو نسلی تعصب، جبری گمشدگی اور جنسی تشدد کی تینوں جہتوں کو جوڑتی ہے۔ یہ واقعہ واحد نہیں بلکہ ایک تسلسل کا حصہ ہے۔ نازیہ شفی (نومبر 2025) اس کی ایک اور مثال ہے، جہاں اسے اور اس کی ماں کو اغوا کر کے شدید جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور نازیہ کی نیم مردہ لاش پھینک دی گئی، جو چند گھنٹوں بعد جانبر نہ ہو سکی۔
جنجوید کے معاملے میں یہ گروہ دارفور میں زمین، وسائل اور نسلی غلبے کے حصول کا آلہ بنے، جہاں ریاستی سرپرستی نے انہیں اسلحہ، طاقت اور استثنا فراہم کیا۔ اسی طرح بلوچستان میں بعض علاقوں میں بااثر قبائلی شخصیات سردار، میر یا ٹکری،اپنے سماجی اثر و رسوخ کے ذریعے مقامی افراد کو منظم کرتی ہیں۔ انہیں محدود جغرافیائی کنٹرول دیا جاتا ہے، جہاں وہ آبادی کو مرعوب کرتے، مخبری کے نیٹ ورک قائم کرتے اور نوجوانوں کے بارے میں معلومات ریاستی اداروں تک منتقل کرتے ہیں۔
وسائل کی لوٹ مار اس پورے ڈھانچے کا مرکزی عنصر ہے۔ دونوں صورتوں میں مقامی گروہ معدنیات، زمین اور دیگر وسائل کے استحصال میں سہولت کار بنتے ہیں، جس کے بدلے انہیں مالی فوائد، طاقت اور تحفظ ملتا ہے۔ یہ ریاست اور مقامی اشرافیہ کے مفادات کے انضمام کی عکاسی کرتا ہے، جہاں خوف اور تشدد حکمرانی کے غیر رسمی اوزار بن جاتے ہیں۔
اسی طرح، ان گروہوں کو مقامی آبادی کی ذہن سازی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ریاستی بیانیے کے تحت مزاحمت اور سیاسی اختلاف کو منظم انداز میں “غیر ملکی دہشت گردی” سے جوڑا جاتا ہے، جبکہ آزادی یا بنیادی سہولیات کی بات کرنے والوں کو مشکوک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس بیانیاتی جنگ میں یہ غیر رسمی مسلح گروہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ وہ مقامی سماج کے اندر سے بولتے اور اثر ڈالتے ہیں۔
استثنا (Impunity) اس پورے نظام کی بنیاد ہے۔ جنجوید کی طرح، بلوچستان کے ڈیتھ اسکواڈز بھی عملاً قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں۔ ماورائے عدالت اقدامات، جبری گمشدگیاں اور دھمکیاں ایک ایسے ماحول میں ممکن ہوتی ہیں جہاں مؤثر جواب دہی موجود نہیں۔ جبری نقل مکانی بھی ایک مشترک حربہ ہے۔ بعض علاقوں میں ڈیتھ اسکواڈ رہنماؤں کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ کسی فرد یا خاندان کو اس کے علاقے سے بے دخل کر سکیں، یوں زمین، وسائل اور سماجی ڈھانچے پر کنٹرول مضبوط کیا جاتا ہے۔
میڈیا بلیک آؤٹ بھی ایک اہم مماثلت ہے۔ دارفور میں آزاد صحافت اور بین الاقوامی مبصرین کی رسائی محدود رکھی گئی تاکہ بربریت عالمی نگاہوں سے اوجھل رہے۔ بلوچستان میں بھی انٹرنیٹ بندش، صحافیوں کی محدود رسائی اور آزاد رپورٹنگ پر قدغنیں اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ اس خلا میں ریاستی بیانیہ واحد قابلِ سماعت سچ بن جاتا ہے، جبکہ متاثرہ آبادی کی آوازیں غائب ہو جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بات کرنے والوں کو دھمکیوں، ہراسانی اور بعض صورتوں میں جبری گمشدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے اجتماعی خوف جنم لیتا ہے اور خود سنسرشپ معمول بن جاتی ہے۔
اختتامیہ کے طور پر، پراکسی اِن فائٹنگ اس پورے ماڈل کا سب سے معنی خیز پہلو ہے۔ چاہے سوڈان میں مختلف ملیشیاؤں کی باہمی لڑائی ہو یا بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈز اور ان کے سرپرستوں کے درمیان تناؤ—جب یہ گروہ مالی مراعات، تحفظ یا سیاسی پشت پناہی سے محروم ہوتے ہیں تو وفاداری کے بجائے بقا کی منطق اختیار کر لیتے ہیں۔ یہی لمحہ ہوتا ہے جب ریاستی مقاصد کے لیے تخلیق کیے گئے یہ اوزار خود ریاست کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں، اور بالآخر انہیں ختم کرنا پڑتا ہے۔
سوال یہ ہے:
کیا بلوچ اس پراکسی جنگ کے خودکش انجام کو بلوچستان کو بھی نگلنے دیں گے، جہاں ڈیتھ اسکواڈز آخرکار اپنے ہی آقاؤں کے ہاتھوں مٹا دیے جاتے ہیں؟
