
تحریر: فریدہ بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کا عمل ماورائے آئین و قانون اور بنیادی انسانی حقوق کے سراسر منافی ہے۔ یہ ایک قابلِ مذمت حقیقت ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے، اور حالیہ دنوں میں ریاست کی جانب سے اس میں مزید تیزی لائی گئی ہے۔ آج جب میں اپنے بھائی راشد حسین کی جبری گمشدگی کو سات سال مکمل ہونے پر کچھ لکھنا چاہ رہی ہوں تو صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کم از کم چھ خواتین ریاستی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ ان خواتین کے بارے میں ان کے خاندانوں کو ریاستی ادارے یہ بتانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ آخر انہیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔
یہ ایک سنگین المیہ ہے کہ ایک ریاست بلوچ خواتین اور مردوں کو رات کے اندھیرے میں گھروں کی دیواریں پھلانگ کر، جبر و تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد حراست میں لے لیتی ہے اور پھر برسوں تک انہیں لاپتہ رکھتی ہے۔ اس دوران نہ تو ان کی صحت، نہ جسمانی حالت اور نہ ہی ان کے زخمی وجود کے بارے میں ان کے خاندانوں کو کوئی اطلاع دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
ریاست ان انسانی وجودوں کو زندانوں کے اندھیروں میں پھینک کر یہ سمجھتی ہے کہ آوازوں کو خاموش کر کے وہ اپنے مفادات کی نگہبانی کر سکتی ہے، مگر یہ اس کی خام خیالی ہے۔ دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جہاں جہاں محکوم اقوام کی آوازوں کو دبانے اور ان کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی، وہاں سے ابھرنے والی آوازیں مزید شدت، شعور اور طاقت کے ساتھ سامنے آئیں اور پھلتی پھولتی رہیں۔
میرے بھائی راشد حسین کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے حراست میں لے کر چھ ماہ تک وہیں قید میں رکھا گیا۔ اس کے بعد 22 جون کو خفیہ طور پر پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا، اور 3 جولائی کو ریاستی میڈیا پر اس بات کا اعلان اور اقرار کیا گیا کہ راشد حسین ان کی حراست میں ہے۔ آج سات سال مکمل ہو چکے ہیں، مگر آج تک ہمیں نہ تو ان کے مقدمات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کس جرم اور کن دفعات کے تحت قید کاٹ رہے ہیں۔
اس دوران ہماری والدہ عدالتوں اور برائے نام کمیشنوں میں پیش ہوتی رہیں، مگر چونکہ ریاستی عدالتیں بھی آمرانہ احکامات کے تحت چلتی ہیں، اس لیے جبری لاپتہ افراد کے مقدمات کے بارے میں انہیں بالا سطح سے یہ ہدایات دی جاتی ہیں کہ نہ انہیں سنا جائے اور نہ ہی ان پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔ یوں ریاست اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو پامال کرتے ہوئے یکطرفہ فیصلے مسلط کرتی ہے۔
ریاست نے یہ طے کر رکھا ہے کہ جو لوگ حق، انصاف، انسانیت اور انسانی اقدار کی بات کرتے ہیں، اور جو ہر طرح کے ریاستی جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، پہلے تو انہیں جبری طور پر لاپتہ کر کے ان کی آوازوں پر قدغن لگائی جائے، اور دوسری طرف ان کے اہلِ خانہ کو دباؤ، ہراسانی اور خوف میں مبتلا کر کے اجتماعی سزا دی جائے۔
ریاست اجتماعی طور پر بلوچ قوم کو اس جرم کی سزاوار ٹھہرا رہی ہے کہ وہ اپنی قومی شناخت اور بقا کے لیے آواز کیوں اٹھا رہے ہیں، اور اپنی سرزمین پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف کھڑے ہونے کی جرأت کیوں کرتے ہیں۔ اسی سوچ کے تحت بلوچ عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔
ریاست کی جانب سے روا رکھی گئی اس بربریت اور مسلط کی گئی اجتماعی سزا کی زد میں آج پورا بلوچستان آ چکا ہے۔ ریاستی ادارے بلا تفریق طبقہ، اور بلا تخصیص عمر و جنس، بلوچ عوام کو حراست میں لے کر جبری لاپتہ کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں تو یہ سلسلہ مزید سنگین صورت اختیار کر چکا ہے، جہاں بلوچ خواتین کو بغیر کسی سرچ وارنٹ، قانونی جواز یا عدالتی اجازت کے گھروں سے اٹھا کر جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے۔
ماہ جبین، رحیمہ، حانی، خیرالنسا، حاجرہ، نسرینہ اور فرزانہ اب تک ریاستی زندانوں میں اذیتیں سہہ رہی ہیں۔ آمرانہ قوانین نافذ کر کے بلوچ قوم کی ننگ و ناموس کو پامال کرنا اور اس کی روح کو لہولہان کرنا ریاست نے اپنی مستقل پالیسی بنا لیا ہے۔ مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس طرح کے جبر سے ریاستی بربریت کے خلاف اٹھنے والی آوازیں کبھی خاموش نہیں کی جا سکتیں۔ بلکہ ان آوازوں میں مزید گونج پیدا ہوتی ہے اور شعوری طور پر ریاستی ظلم کے سامنے سر نہ جھکانے کا عزم اور ولولہ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا کر بلوچ معاشرتی ڈھانچے کو توڑنے اور بکھیرنے کی جو پالیسی ریاست نے اپنائی ہے، اس کا ردعمل ریاستی پالیسیوں کو من و عن قبول کرنے کی صورت میں ہرگز سامنے نہیں آئے گا۔ اس کے برعکس، اس جبر کے نتیجے میں ریاستی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت مزید شدت اختیار کرے گی اور یہ مزاحمت ایک اجتماعی شعور کی شکل اختیار کرے گی۔
بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں جن میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کا سرد اور نظراندازانہ رویہ اس خطے میں ایک گہرے بحران کو جنم دے رہا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات براہِ راست بلوچ معاشرے پر پڑ رہے ہیں، مگر انسانی حقوق کے دعویدار محض ایک دو رسمی بیانات جاری کر کے اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ایک قوم کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنتے، اجتماعی سزا کے تحت کچلے جاتے اور نسل کشی کی طرف دھکیلے جاتے دیکھنا، اور اس پر خاموش رہنا یا دانستہ نظرانداز کرنا، خود اس جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔ خاموشی بھی جبر کی ایک شکل ہے، اور یہ خاموشی مظلوم کے زخموں کو مزید گہرا کرتی ہے۔آخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ہزاروں جبری لاپتہ بلوچ افراد کی جدوجہد اور زندانوں میں سالوں تک اذیتیں سہنے کی قربانی محض انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی انسانی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد اس یقین کے ساتھ جاری رہے گی کہ سچ کو ہمیشہ کے لیے قید نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی ظلم کے سائے ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔
