
تحریر: دودا بلوچ
ماما، یہ وہ لفظ ہے جس کی نہ کوئی تشریح کی جا سکتی ہے اور نہ ہی یہ کسی تعریف کا محتاج ہے۔ یہ نام اپنے اندر خود ایک مزاحمت کی داستان رکھتا ہے، جس کی مہک اور خوشبو پورے بلوچستان میں پھیل چکی ہے۔ کیونکہ ماما نہ کسی تعریف کا طلبگار تھا، نہ کسی شخصیت پرستی کا قائل، نہ کسی ترقی یا صلے کی خواہش رکھنے والا۔ وہ بس ایک سادہ انسان تھا جس نے اپنی زندگی بلوچ قومی تحریک کے لیے وقف کر دی۔ وہ اپنی خدمت سے پورے بلوچستان کے ان بے سہاروں کا سہارا بن گیا جنہیں سننے والا کوئی نہیں تھا، جن کی آواز بننے والا کوئی نہیں تھا، جن کے لیے بات کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ لیکن ماما اپنی ٹوٹی پھوٹی کیمپ میں ہمیشہ ان کے لیے موجود رہتا تھا۔
ماما کی شخصیت کی سب سے بڑی طاقت اس کا اخلاقی وقار تھا۔ وہ نہ کسی سیاسی جماعت کا مہرہ تھا، نہ کسی سردار یا طاقتور طبقے کا نمائندہ۔ اس کی طاقت اس کی سادگی، اس کی مستقل مزاجی، اور اس کے شعور، مزاحمت اور قومی تحریک کے ساتھ خلوص میں تھی۔ یہ وہ خلوص تھا جو نہ لالچ سے ٹوٹا، نہ دھمکی سے پست ہوا، اور نہ ہی بیٹے کی مسخ شدہ لاش ملنے کے بعد اس کا حوصلہ ڈگمگایا۔ وہ اس ریاستی نظام کے خلاف ایک جیتا جاگتا سوال تھا—ایک ایسا سوال جس کا جواب نہ عدالتوں کے پاس تھا، نہ پارلیمان کے ایوانوں میں، اور نہ ہی بندوق کے زور پر قائم طاقت کے مراکز کے پاس۔ ماما دراصل اُس نظام کی نفی تھا جو خود کو ریاست کہتا ہے مگر اپنے ہی شہریوں کو انسان تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔
ماما قدیر اس ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا ایک ننگی سچائی۔ کیونکہ شال کی سردی میں لگی اس کی ٹوٹی پھوٹی کیمپ دراصل ایک انقلابی مورچہ تھی، جہاں سے پاکستان کے جبر، فوجی دہشت گردی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف مسلسل اعلانِ جنگ جاری تھا۔ یہ جنگ ان قوتوں کے خلاف تھی جو بلوچ کو انسان ماننے سے انکار کرتے آئے ہیں۔ ماما اس سامراجی نظام کے سامنے ایک فولادی دیوار تھا جو بلوچ شناخت کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، جو ایک پوری نسل کو جبری گمشدگی کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔ ماما ان سب کے لیے خوف کی علامت تھا۔
آج ماما قدیر کے جانے کے بعد بلوچستان یتیم نہیں ہوا، بلکہ ریاست کا ایک خوف ختم ہوا ہے—وہ خوف جو ماما کے شعور اور مزاحمت سے جڑا ہوا تھا۔ کیونکہ ماما قدیر نے اس ریاستی بیانیے کو بے نقاب کیا جس کے مطابق بلوچستان میں جبری گمشدگیاں محض چند واقعات یا حادثات ہیں۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ یہ ایک منظم ریاستی پالیسی ہے، جس کا مقصد اُن آوازوں کو خاموش کرنا ہے جو اپنے حقوق، شناخت اور قومی سوال کی بات کرتی ہیں۔
اسی قومی سوال کو اٹھانے کی پاداش میں ماما کے بیٹے جلیل ریکی کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔ پھر حسبِ روایت ریاست نے اس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی، مگر ماما اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوا۔ حالانکہ ماما کو یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اگر وہ لاپتہ افراد کی کیمپ ختم کر دے تو اس کے بیٹے کو زندہ واپس کر دیا جائے گا۔ ماما نے اس سودے کو مسترد کر دیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایک بیٹے کی زندگی کے بدلے پوری قوم کی خاموشی قبول کرنا غلامی کی بدترین شکل ہے۔
ماما نے انکار کیا، اور اس کے بدلے اسے اپنے بیٹے کی مسخ شدہ لاش ملی۔ مگر ماما ٹوٹا نہیں، بلکہ اور مضبوط ہو گیا۔ کیونکہ ماما قدیر وہ باپ تھا جس نے اپنے بیٹے کی شہادت کو ذاتی غم نہیں، بلکہ قومی مزاحمت میں بدل دیا۔
اس نے اپنی ذات کو فنا کر کے بلوچ قوم کی آواز بننا قبول کیا۔ سولہ سال تک اس نے شدید گرمی، سردی، تنہائی، دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا کیا، مگر اس کیمپ کو قائم رکھا تاکہ کسی اور کو اپنے بیٹے کی مسخ شدہ لاش نہ ملے، تاکہ کسی اور ماں کا لاڈلا اور کسی بہن کا سہارا لاپتہ نہ ہو۔
ماما نے ریاستی ظلم و جبر کے ساتھ کئی امتحانات برداشت کیے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ خوف اور دباؤ کی وجہ سے اس کے قریبی ساتھیوں نے اسے اکیلا چھوڑ دیا، مگر ماما نے اکیلے ہی لاپتہ افراد کی کیمپ کو جاری رکھا۔ کیونکہ وہ ہر اس ماں، بہن اور باپ کی آواز تھا جن کے پیاروں کو ریاست نے لاپتہ کیا۔
آج ماما قدیر جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر وہ ہر اس ماں کی آنکھ میں زندہ ہے جو اپنے بیٹے کی تصویر سینے سے لگائے بیٹھی ہے، ہر اس بہن کی امید میں زندہ ہے جو آج بھی اپنے بھائی کی منتظر ہے کہ میرا بھائی لوٹ کر آئے گا، اور ہر اس نوجوان کے ضمیر میں زندہ ہے جو بندوق، قلم یا آواز کے ذریعے اس جبر کو للکار رہا ہے۔
ماما کی سیاسی کامیابی
ویسے تو ماما اپنی ذات میں خود ایک داستان ہے، مگر اس کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی یہ تھی کہ جب لوگ اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے سرداروں، نوابوں اور نام نہاد نمائندوں کے دروازوں پر جا کر مایوس لوٹتے تھے، تب ماما قدیر نے اپنی کیمپ کے ذریعے انہیں یہ شعور دیا کہ یہ نام نہاد نمائندے ہماری آواز نہیں بن سکتے۔ ہمیں اپنی آواز خود بنانا ہوگی، ہمیں اپنے پیاروں کو خود تلاش کرنا ہوگا۔ کیونکہ انصاف طاقتور کے دروازے پر نہیں ملتا، بلکہ اجتماعی جدوجہد سے حاصل کیا جاتا ہے۔
ماما نے پورے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک اجتماعی شعور پیدا کیا اور ایک عوامی تحریک کو جنم دیا۔ آج جب کسی کا کوئی پیارا لاپتہ ہوتا ہے تو وہ سوال اٹھاتا ہے، اور یہی ماما قدیر کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی تھی۔
آج ماما قدیر کی جسمانی غیر موجودگی سے ایک خلا ضرور پیدا ہوا ہے، مگر یہ خلا کمزوری نہیں بلکہ ایک سیاسی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری ان نوجوانوں پر ہے جو جان چکے ہیں کہ خاموشی غلامی ہے اور مزاحمت ہی بقا کا واحد راستہ ہے۔ ماما کی میراث جدوجہدِ مسلسل ہے۔ جب تک بلوچستان میں سامراجی جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والا ایک بھی انسان زندہ ہے، اس وقت تک ماما قدیر کی دی ہوئی میراث زندہ رہے گی۔
