احتجاج جو تاریخ بن گیا”

تحریر: نصیر احمد بلوچ
زرمبش مضمون

آج بلوچ قومی جدوجہد نے ایک ایسے عظیم انسان کو کھو دیا ہے جس کی زندگی خود ایک طویل احتجاج تھی۔ ماما قدیر بلوچ محض ایک فرد نہیں تھے، وہ ایک مسلسل سوال، ایک زندہ ضمیر اور ایک ایسی آواز تھے جو چار ہزار سے زائد دنوں تک خاموش نہیں ہوئی۔ وہ ایک احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہے نہ کسی اقتدار کی خواہش، نہ کسی مفاد کی طلب صرف اس مطالبے کے ساتھ کہ بے گناہ بلوچوں کو انصاف دیا جائے، اور وہ ویران گھر آباد کیے جائیں جو بلوچ ماؤں کے آنسوؤں سے اجڑ چکے ہیں۔ آخری سانس تک وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، اور اسی استقامت نے انہیں تاریخ میں امر کر دیا۔ بلوچستان میں دہائیوں سے جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم Voice for Baloch Missing Persons (VBMP) کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے ماما قدیر بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے پر ایک توانا اور غیر متزلزل آواز سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کی قیادت کی—یہ مارچ محض ایک سفر نہیں تھا بلکہ ایک چیخ تھی، ایک پرامن مگر گونج دار احتجاج، جس کا مقصد جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز ایوانِ اقتدار تک پہنچانا تھا۔

ماما قدیر بلوچ مزاحمت، وقار اور انسانیت کی ایک مکمل داستان ہے،جس کی زندگی کا ہر دن، ہر سانس، اور ہر قدم مظلوم بلوچوں کے حقِ انصاف کے لیے وقف تھا۔ ماما قدیر بلوچ وہ نام تھے جو صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک مسلسل احتجاج، ایک زندہ ضمیر اور ایک بے خوف سوال بن چکے تھے۔ چار ہزار سے زائد دن ہاں، چار ہزار دن وہ ایک احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہے، نہ تھکے، نہ جھکے، نہ خاموش ہوئے۔ ان کا احتجاج صرف ریاستی ایوانوں کے خلاف نہیں تھا بلکہ اُس عالمی بے حسی کے خلاف بھی تھا جو دہائیوں سے بلوچ ماؤں کے آنسو دیکھ کر بھی خاموش رہی۔ وہ ویران گھروں کی آباد کاری کی بات کرتے تھے، اُن گھروں کی جو جبری گمشدگیوں نے اجاڑ دیے، اُن ماؤں کی آہوں سے خالی ہو گئے، اور جن کے در و دیوار آج بھی اپنے پیاروں کی واپسی کے منتظر ہیں۔ ماما قدیر بلوچ نے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو محض ایک سیاسی مطالبہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے ایک اخلاقی اور انسانی سوال بنا دیا۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے انہوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو وہ حوصلہ دیا جسے ریاستی جبر اور طویل انتظار نے توڑنے کی کوشش کی تھی۔ کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ صرف ایک سفر نہیں تھا، یہ ایک چیخ تھی ایک خاموش چیخ جو ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے ایوانِ اقتدار کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی۔ اس مارچ میں بوڑھے قدم تھے مگر عزم جوان، تھکی ہوئی آنکھیں تھیں مگر خواب زندہ، اور جسم کمزور تھا مگر ارادہ فولاد سے زیادہ مضبوط۔ ماما قدیر بلوچ آخری سانس تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے، انہوں نے ثابت کیا کہ سچ کو نہ بیماری روک سکتی ہے، نہ وقت، نہ طاقت کا غرور۔ ان کی وفات صرف ایک فرد کی جدائی نہیں، یہ ایک عہد کی خاموشی ہے لیکن یہ خاموشی شکست نہیں، یہ ایک ذمہ داری ہے جو اب ہم سب پر آ گئی ہے۔ ماما قدیر بلوچ کی جدوجہد ہمیں یہ سکھا گئی کہ انصاف مانگنے کے لیے طاقت نہیں، استقامت چاہیے؛ ہتھیار نہیں، اخلاقی جرات چاہیے؛ اور خاموشی نہیں، مسلسل سوال درکار ہوتا ہے۔ وہ چلے گئے، مگر ان کی آواز اب بھی اُن کیمپوں میں گونج رہی ہے، اُن سڑکوں پر موجود ہے جن پر انہوں نے پیدل چل کر تاریخ لکھی، اور اُن ماؤں کے دلوں میں زندہ ہے جو آج بھی اپنے لاپتہ بیٹوں کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ ماما قدیر بلوچ زندہ رہیں گے—ہر اُس قدم میں جو انصاف کے لیے اٹھے گا، ہر اُس آواز میں جو جبری گمشدگیوں کے خلاف بلند ہوگی، اور ہر اُس ضمیر میں جو ظلم کے سامنے خاموش رہنے سے انکار کرے گا۔
 
ماما قدیر بلوچ کی جدوجہد اس بات کی گواہ ہے کہ سچائی جب مستقل مزاحمت اختیار کر لے تو وہ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ وہ کسی سیاسی جماعت، اقتدار یا ذاتی مفاد کے نمائندہ نہیں تھے، بلکہ ایک ایسے باپ، ایک ایسے بھائی اور ایک ایسے ضمیر کی علامت تھے جو اپنے لاپتہ پیاروں کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ ان کی آنکھوں میں شکوہ کم اور سوال زیادہ تھا—ایسا سوال جو صرف ریاست سے نہیں بلکہ معاشرے، میڈیا اور عالمی ضمیر سے بھی کیا گیا۔ وہ ہر دن ہمیں یہ یاد دلاتے رہے کہ جبری گمشدگیاں محض اعداد و شمار نہیں ہوتیں، یہ زندہ انسانوں، ٹوٹتے خاندانوں اور سسکتی ہوئی ماؤں کی داستانیں ہوتی ہیں۔ ان کا احتجاج خاموش تھا مگر گونج دار، پرامن تھا مگر فیصلہ کن۔ نہ نعروں کی کثرت، نہ تشدد کا سہارا—صرف استقامت، صبر اور سچ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کیمپ وقت کے ساتھ ایک علامت بن گیا، ایک ایسی علامت جو یہ اعلان کرتی رہی کہ ظلم چاہے کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، اس کے خلاف کھڑا ہونے والا ضمیر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ ماما قدیر بلوچ نے یہ ثابت کیا کہ کمزور جسم بھی طاقتور نظاموں کو اخلاقی شکست دے سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے پیچھے حق کا وزن ہو۔

ایسا سوال جو صرف ریاست سے نہیں بلکہ معاشرے، میڈیا اور عالمی اداروں سے بھی کیا گیا۔ آج جب ماما قدیر بلوچ ہم میں موجود نہیں، تو اصل سوال یہ نہیں کہ انہوں نے کیا پایا، بلکہ یہ ہے کہ ہم ان کے بعد کیا کریں گے۔ کیا ہم ان کے نام کو صرف تعزیتی بیانات تک محدود کر دیں گے، یا ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے؟ انہوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ احتجاج صرف خیمے لگانے کا نام نہیں، یہ شعور بیدار کرنے کا عمل ہے۔ وہ جسمانی طور پر رخصت ہو گئے، مگر ان کی آواز اب بھی اُن کیمپوں میں گونج رہی ہے، اُن سڑکوں پر موجود ہے جن پر انہوں نے تاریخ لکھی، اور اُن ماؤں کے دلوں میں زندہ ہے جو آج بھی اپنے لاپتہ بیٹوں کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ ماما قدیر بلوچ چلے گئے، مگر ان کی جدوجہد ایک امانت بن چکی ہے اور اس امانت کو زندہ رکھنا ہی ان کے لیے سب سے بڑا خراجِ عقیدت ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

نوشکی، تمپ و دشت حملوں میں تین اہلکار ہلاک اور ایک کواڈ کاپٹر مار گرایا - بی ایل ایف

اتوار دسمبر 21 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ سرمچاروں نے 18 دسمبر کی سہ پہر تقریباً چار بجے نوشکی کے علاقہ زرّین جنگل میں قابض پاکستانی فورسز کے قافلے میں شامل ایک گاڑی کو آئی ای ڈی بم حملے کا نشانہ بنایا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ