
کوئٹہ: بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے رہنماؤں، کارکنوں اور بلوچ سیاسی حلقوں نے انسانی حقوق کے معروف علمبردار اور جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل جدوجہد کرنے والے ماما قدیر بلوچ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور ان کی جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
بی این ایم کے رہنما اور سابق سیکریٹری جنرل رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے تعزیتی بیان میں کہا کہ مقبوضہ بلوچستان میں سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت محب وطن بلوچ عوام کی جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کی ریاستی مجرمانہ پالیسی کے خلاف جدوجہد کی ایک سرخیل اور طاقتور آواز ماما عبدالقدیر بلوچ ریاستی دہشت گردی کے خلاف بے خوف اور انتھک جدوجہد کا قابل فخر ورثہ چھوڑ کر اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو سکون عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو یہ عظیم نقصان برداشت کرنے کا صبر عطا فرمائے۔
بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ ماما قدیر بلوچ کے انتقال پر دلی طور پر رنجیدہ ہیں۔ ماما بلوچستان میں مزاحمت، صبر اور انسانی حقوق کے لیے غیر متزلزل عزم کی ایک بلند علامت تھے۔ سولہ طویل برسوں تک انہوں نے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم رکھا، ذاتی غم کو جبری گمشدگیوں اور ریاستی تشدد کے خلاف ایک اجتماعی جدوجہد میں بدل دیا۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ ماما قدیر کا کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک تقریباً ۲۵۰۰ کلومیٹر پر مشتمل تاریخی پیدل لانگ مارچ نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ہزاروں بلوچ خاندانوں کے دکھ کو بے نقاب کیا۔ بڑھاپے، خراب صحت اور مسلسل ریاستی دباؤ کے باوجود وہ کبھی جھکے، نہ پیچھے ہٹے اور نہ ہی لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو تنہا چھوڑا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی وفات بلوچ قوم اور انصاف، وقار اور انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہونے والے تمام لوگوں کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ ماما قدیر بلوچ کو بہترین خراجِ عقیدت صرف الفاظ میں نہیں بلکہ عمل میں ہے۔ اب یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کے مشن کو زندہ رکھیں، جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے رہیں اور انصاف کی فراہمی تک متاثرین کے ساتھ کھڑے رہیں اور اللہ ان کی روح کو سکون عطا فرمائے اور ان کی جدوجہد ہم سب کے ذریعے جاری رہے۔
بی این ایم کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے بھی تعزیتی بیان میں کہا کہ ماما قدیر بلوچ کی رحلت بلوچ قوم کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، ماما قدیر محض نعرہ نہیں لگاتے تھے بلکہ مستقل مزاحمت اور سیاسی استقامت کے نمائندہ تھے۔ جبری گمشدگیوں جیسے سنگین ریاستی جرم کو انہوں نے ایک منظم، مسلسل اور قابلِ فخر جدوجہد سے عالمی سطح پر پہنچایا۔
خلیل بلوچ نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ کی سیاست طاقت کے مرکز سے مفاہمت پر نہیں بلکہ مظلوم کی آزادی اور وقار کی بحالی پر قائم تھی۔ انہوں نے انسانی حقوق کو محض بیانیہ نہیں بلکہ لانگ مارچ، دھرنے اور مسلسل موجودگی کے ذریعے عملی جدوجہد بنایا، ان کی جدوجہد نے ثابت کیا کہ قومیں زیرنگین ہونے کے باجود مضبوط موقف اور جہد مسلسل سے ریاستی جبر کو بے نقاب کر سکتا ہے، یہ انہوں نے ثابت کرکے دکھادی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماما قدیر کی وفات کے ساتھ ایک فرد نہیں، ایک معیار ہم سے جدا ہوا ہے۔ اب ذمہ داری ان تمام سیاسی و سماجی قوتوں پر عائد ہوتی ہے جو قومی آزادی، جبری گمشدگیوں کے خاتمے، جوابدہی اور انصاف کی بات کرتی ہیں۔ ماما قدیر بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کے قائم کردہ اصولوں جن میں ثابت قدمی، طاقت سے عدم مفاہمت اور مسلسل مزاحمت سرفہرست ہیں، کو سیاسی عمل میں زندہ رکھا جائے۔
