نوکنڈی حملے نے ایک بار پھر بلوچستان تنازع پر توجہ مبذول کرائی ہے۔ رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کی آزادی اور وسائل پر بلوچ قوم کی حقِ ملکیت تسلیم کیے بغیر کسی بھی منصوبے کو تحفظ اور کامیابی کی ضمانت حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرزمین کی دفاع کے لیے مزاحمت کرنے اور اپنی جان کا نذرانہ دینے والے دہشت گرد نہیں بلکہ ہمارے قومی ہیروز ہیں انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ دنوں نوکنڈی میں ریکوڈک اور سیندک منصوبوں کے غیر ملکی ملازمین کے دفاتر اور رہائش کے لیے قائم کیے گئے کمپاؤنڈ کو بلوچ آزادی پسند تنظیم کی جانب سے ہدف بنائے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے نے ایک بار پھر بلوچستان تنازع پر توجہ مبذول کرائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر کے ایک ہائی سکیورٹی کیمپ کے درمیان قائم کمپاؤنڈ پر بلوچ مزاحمت کاروں کے اس حملے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔بلوچستان تنازع سے واقف ہر شخص کے لیے یہ کوئی حیران کن یا غیر متوقع حملہ نہیں تھا۔

رحیم بلوچ نے کہا کہ اگر بین الاقوامی کمپنیاں اور بلوچستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ممالک زمین کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے سونے، چاندی، تانبے، لوہے، کوئلے اور قدرتی گیس کے ذخائر للچائی نظروں سے تو دیکھتے ہیں مگر بلوچستان کی سرزمین پر رہنے والے بلوچ عوام ان کی محکومی اور پاکستان کے ہاتھوں ان کی نسل کُشی نہیں دیکھتے، تو ایسی مزاحمت اور حملے ایک فطری ردِعمل اور باشعور کوشش دکھائی دیتے ہیں۔

رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کا یہ حملہ بلوچستان کے وسائل کی حفاظت اور آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے تنظیم کی حکمتِ عملی کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے۔اسی تنظیم نے 2004 میں گوادر میں ڈیپ سی پورٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئروں پر پہلا حملہ کیا تھا، جس سے گوادر پر قبضے اور وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے پاکستانی و چینی خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔آج چین–پاکستان اقتصادی راہداری بلوچ مزاحمت کے باعث ایک دلدل بن چکی ہے، جس سے نکلنے کے لیے چین اور پاکستان کو کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا بلکہ جتنا وہ زور لگاتے ہیں، اتنا ہی اس دلدل میں پھنس اور ڈوب رہے ہیں۔

رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ صرف طاقت کے زور پر قبضہ گیر پاکستان کی شراکت میں بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کیے بغیر بلوچ قوم کے حقِ ملکیت اور بلوچستان و اس کے قدرتی وسائل پر ان کے حقِ اختیار کو مانے بغیر بلوچستان کے وسائل کو تلاش اور استعمال کیا جا سکے؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ بلوچ آزادی پسند بارہا ثابت کر چکے ہیں کہ ہائی سکیورٹی کسی بھی استحصالی منصوبے کی حفاظت یا کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ پنجاب کے عوام اور ان ممالک و کمپنیوں پر ہے جو سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں کہ آیا وہ پاکستانی فوج کی گمراہ کن بیانیہ تسلیم کرتے ہیں اور بلوچ آزادی پسندوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں یا پھر بلوچستان کی زمینی حقیقتوں کو سمجھتے ہوئے بلوچ قوم کے اپنے وطن اور وسائل پر قانونی و قدرتی حق کو تسلیم کر کے امن، ترقی اور معاشی روابط کے لیے راستہ کھولتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آزادی پسندوں کو دہشت گرد کہنا وہ تھوک ہے جسے تھوکنے والوں کو بار بار چاٹنا پڑا ہے۔ کیا عظیم نیلسن منڈیلا کو بھی دہشت گرد نہیں کہا گیا تھا؟

رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ظاہر ہے کوئی بھی بشمول قابض آزادی پسندوں کو دہشت گرد کہہ سکتا ہے، لیکن بلوچ عوام جن میں میں بھی شامل ہوں، انہیں ہیرو سمجھتے ہیں اور ان کی بہادری اور قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تربت: ایم 8 شاہراہ پر موٹر سائیکل حادثہ، ایک شخص ہلاک، ایک زخمی

جمعہ دسمبر 5 , 2025
بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے قریب ایم 8 شاہراہ پر دو موٹر سائیکلوں کے درمیان شدید تصادم کے نتیجے میں ایک نوجوان ہلاک ہوگیا جبکہ ایک شخص زخمی ہوا ہے۔ حادثہ تربت کے علاقے گھنہ کے قریب پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، یہ سانحہ تیز […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ