قوم پرستی سے کارپوریٹ کمپنیوں تک: این پی و بی این پی

تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچ وطن کی تاریخ ایک طویل، متحرک اور مسلسل جاری رہنے والی قومی آزادی کی جدوجہد کی داستان ہے، جس کی جڑیں استعمار اور پنجابی قبضہ گیری کے خلاف صدیوں پر محیط مزاحمتی روایت میں پیوست ہیں۔ بلوچ قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی آزادی، شناخت، زمین اور قومی نجات کے لیے کثیرالجہتی محاذ پر سرگرم عمل ہے چاہے وہ سیاسی محاذ ہو، مسلح مزاحمت، صحافتی جدوجہدہو یا سفارتی محاذ ہو، قلمی کاوشیں ہوں یا علمی و فکری میدان ہو۔ آج بلوچ قومی تحریک ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور خطے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی آزادی کے لیے لڑنے والی دوسری محکوم اقوام کے لیے ایک سمبولک علامت بن چکی ہے۔بلوچ قوم کی تاریخ ایک ایسے شعوری ارتقا کی کہانی ہے جس میں آزادی ناگزیر اصول اور مزاحمت ایک زندہ تہذیبی روایت کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ قوم صدیوں سے ایسے جغرافیائی دشت و کوہ میں آباد رہی ہے جہاں زندگی کی سختیاں، مسلسل بیرونی دباؤ اور تاریخی تسلسل نے اس کی نفسیات میں آزادی کو بنیادی جبلت کے طور پر پیوست کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ قومی شعور میں غلامی کبھی تسلیم شدہ حقیقت نہیں بن سکی۔ بلوچ تاریخ کا ہر دور، نوآبادیاتی تسلط کے خلاف مزاحمت، اور آزادی کے تصور سے منسلک نظر آتا ہے۔بلوچ مزاحمت کی روایت کوئی جدید سیاسی نعرہ نہیں؛ یہ صدیوں کی اس اجتماعی نفسیات کا ارتقائی نتیجہ ہے جو بیرونی قبضہ کے خلاف غیر مصالحانہ رویے پر قائم ہے۔ بلوچ تاریخ میں جب بھی بیرونی قوتوں نے سیاسی یا عسکری غلبہ جمانے کی کوشش کی، بلوچ سماج نے اسے فطری ردعمل کے ساتھ رد کیا۔ سامراجی یلغار ہو یا بیرونی حملہ آوروں کی چڑھائیاں، ہر دور میں بلوچ کردار نے مزاحمت کو ایک اخلاقی فرض اور سیاسی عمل سمجھا۔

انیسویں صدی میں برطانوی استعمار نے جب بلوچستان پر قبضہ کیا تو اس نے نہ صرف بلوچ جغرافیہ کو تقسیم کیا بلکہ بلوچ سماج میں مصنوعی طبقاتی دراڑیں بھی ڈالیں، مصنوعی سردار پیدا کیے، نجی ملکیت کے تصور کو رائج کیا، اور روایتی قومی سماجی طرزِ زندگی کو دھچکا پہنچایا۔ اس نوآبادیاتی پالیسی کا مقصد بلوچ مزاحمتی قوت کو منتشر کرنا تھا۔ تاہم، تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ بلوچ مزاحمت کسی بھی دور میں بھی پسپا نہ ہوئی۔ ہر جگہ استعمار کو ایک فعال، باشعور اور غیر تابع قوم کا سامنا رہا۔آج جو جدوجہد پنجابی ریاستی ڈھانچے کے خلاف جاری ہے وہ دراصل اسی تاریخی continuum resistance کا حصہ ہے۔ بلوچ تحریک کی فکری طاقت اسی تسلسل میں ہے کہ یہ ظلم کو صرف ظلم نہیں بلکہ غلامی کی بنیاد سمجھ کر رد کرتی ہے۔اکیسویں صدی میں بلوچ سیاست نے قومی آزادی کی کلاسیکی تحریکوں سے آگے بڑھ کر جدید سیاسی تصورات ہیومن رائٹس، ڈی کولونائزیشن، عالمی قانون، سیاسی معاشیات،اور عالمی مزاحمتی تحریکات sy اپنے تعلق کو مزید مضبوط کیا ہے۔

یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ قومیں اپنے تاریخی تجربات سے اپنی تحریکیں تراشتی ہیں۔ بلوچ قوم نے ہزاروں سالوں میں اپنی قومی تحریک کو فکر ونظریہ سے مسلح کرکے مزاحمت جیسے عناصر سے سنوارا ہے۔ بلوچ ذہن میں غلامی کو قبول کرنا ایک نفسیاتی "dislocation” سمجھا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شکل میں بالادستی،جبر، قبضہ چاہے سیاسی ہو یا عسکری بلوچ سماج میں شدید ردِعمل پیدا کرتی ہے۔آج کی بلوچ تحریک اس تاریخی DNA کی عملی شکل ہے جو بلوچ قومی شعور میں صدیوں سے موجود ہے۔پنجابی ریاستی بندوبست کے خلاف جدوجہد ’’نیا‘‘ مرحلہ نہیں بلکہ اسی قدیم مزاحمتی روایت کا جدید اظہار ہے۔ہر مسخ شدہ لاش، ہر جبری گمشدہ، ہر آپریشن، بلوچ سیاسی شعور میں بیداری اور نظریاتی پختگی کا ایک نیا مرحلہ پیدا کرتا ہے۔

بلوچ سرزمین، جسے تاریخ "بلوچستان ” کے نام سے یاد کرتی رہی، اپنی تہذیبی وسعت، قدرتی دولت، اور اس کے باسیوں کی مضبوط قومی یکجہتی کے باعث ہمیشہ سامراجی قوتوں کی آنکھوں کا کانٹا بنی رہی۔ برطانوی استعمار نے جب اس خطے میں قدم رکھا تو اس نے بلوچ قوم کی خودمختار ریاستی حیثیت اور سیاسی ڈھانچے کو طاقت اور دھوکے کے امتزاج سے تقسیم اور کمزور کرنے کی کوشش کی۔ 1839 میں قلات پر حملہ ہو یا 1876 کا گولڈ اسمتھ معاہدہ ہر قدم بلوچ قومی خودمختاری کی بیخ کنی کی طرف تھا۔ مگر بلوچ مزاحمت رکی نہیں، بدلتے ہوئے ادوار میں نئے روپ دھارتے ہوئے آگے بڑھتی رہی۔غیر فطری تقسیمِ ہند کے بعد بلوچ وطن نے ایک نئے استعماری شکل پنجابی ریاستی قبضہ گیریت کا سامنا کیا۔ مارچ 1948 میں قلات کی جبری الحاق کی کوشش نے بلوچ قوم کے اندر ایک نئی آگ بھڑکا دی، اور یوں جدید بلوچ تحریک آزادی کا آغاز ہوا۔ اور بلوچ قومی جدوجہد نے ایک نئی جہت اختیار کی۔آج بلوچ تحریک آزادی نہ صرف ایک سیاسی مزاحمت ہے بلکہ عالمی سطح پر ظلم اور قبضے کے خلاف لڑنے والی دیگر اقوام کے لیے بھی ایک کائناتی تحریک کی علامت بن چکی ہے۔

جب کوئی قوم صدیوں پر محیط تاریخ کے ساتھ استعماری قوتوں کے سامنے کھڑے ہونے کی روایت رکھتی ہو، جب اس کے شعور میں آزادی کو مذہب کی طرح مقدس مانا جاتا ہو، جب اس کی یادداشت میں اپنے شہیدوں کا فکر زندہ ہو، اور جب اس کی نوجوان نسل بندوق، قلم، فکر، نظریے، تاریخ اور شناخت کے تمام محاذوں پر سرگرم ہوتو ایسی قومیں غلامی میں زیادہ دیر نہیں رہتیں۔بلوچ وطن کی تاریخ دراصل اس اٹل یقین کی تاریخ ہے کہ آزادی صرف آدرش نہیں ہوتی،یہ ایک عہد، ایک ذمہ داری، ایک قربانی اور ایک مسلسل جاری رہنے والی جنگ ہے۔ اور بلوچ قوم اس جنگ کے ہر محاذ پر آج بھی اتنی ہی ثابت قدم ہے جتنی نصف صدی قبل تھی۔ یہی ثابت قدمی اس قوم کا سرمایہ ہے، یہی اس کا مستقبل، اور یہی اس کی ایک روشن اور آزاد سرزمین کی بنیاد۔

بلوچ تاریخ کا سب سے المناک موڑ وہ تھا جب برطانوی سامراج نے اٹھارویں صدی کے اوائل میں اپنی نوآبادیاتی توسیع کے تحت بلوچستان کو محض ایک فوجی اسٹریٹیجک خطہ سمجھ کر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا1839 میں برطانوی فوج نے قندھار اور افغانستان کی مہم کے دوران
بلوچستان پر حملہ کر کے قبضہ کیا۔ برطانوی سامراج نے بلوچستان کو ایک "فوجی اسٹریٹیجک ویسٹ پیج” سمجھ کر قبضہ کرلیا، تاکہ یہان سے
ہندوستان کے شمال مغربی راستوں کو محفوظ رکھا جا سکے، روس کی پیش قدمی روکی جا سکے، اور برٹش انڈیا کی سرحدوں پر حفاظتی بفر بنایا جا سکے۔
اسی حکمتِ عملی کے تحت برطانوی سامراج نے بلوچستان کو اپنی کالونی میں شامل کر کے ایک غیر فطری عسکری و جغرافیائی پالیسی نافذ کی، جو آگے چل کر بلوچ قوم کی تقسیم اور محکومی کی بنیاد بنی۔برطانوی استعمار نے بلوچ قوم کی وحدت کو توڑنے کے لیے بلوچ مملکت کی بے رحمانہ
تقسیم کی منصوبہ بندی کی۔ بلوچ سرزمین کو مختلف اطراف میں تقسیم کرکے بلوچ قوم کے جسم میں مصنوعی سرحدیں گاڑ دی گئیں۔ڈیورنڈ لائن کے ذریعے بلوچستان کا ایک وسیع حصہ افغانستان کے اثر میں دھکیل دیا گیا گولڈسمتھ لائن نے ایران اور بلوچستان کے درمیان ایک جبری لکیر کھینچ دی۔کراچی اور خان گڑھ کو سندھ کا حصہ قرار دے کر بلوچ ساحلی جغرافیہ کو توڑ دیا گیا۔ڈیرہ جات کو پنجاب میں زبردستی شامل کر کے بلوچ قومی خطے پر ایک اور غیر فطری انتظامی آری چلائی گئی۔یہ سب بلوچ قوم کی تہذیبی وحدت، سماجی ہم آہنگی، اور قومی سیاسی مرکزیت پر براہِ راست حملے تھے۔ استعمار نے بلوچ سرزمین کی تقسیم کو اس طرح نافذ کیا کہ بلوچ قوم اپنی ہی زمین میں مختلف ریاستوں میں بٹ گئی، اور اس تقسیم نے آگے چل کر غیر ملکی نوآبادیاتی قوتوں کو بلوچ وطن پر مستقل قبضے کا جواز بھی فراہم کیا۔بلوچ قوم نے اگرچہ ماضی میں بھی بیرونی مداخلت کے خلاف مزاحمت کی تھی، مگر 1839 کے بعد اس مزاحمت کو ایک نئی، ہمہ جہت اور مسلسل شکل ملی۔ برطانوی سامراج کے جانے کے بعد یہ محکومی کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہی۔ کبھی نام نہاد ریاستی مفاہمت کے نام پر، کبھی ترقی کے وعدوں کے ذریعے، کبھی بھائی چارہ کے نظریے کے سہارے میں، اور کبھی مسلمانیت اور کھبی چھوٹے بڑے بھائی کے فرضی رشتوں کی آڑ میں۔ لیکن بلوچستان کا اصل مسئلہ آج بھی وہی ہے جو 1839 میں شروع ہوا تھا۔یہ محض ماضی کا ایک باب نہیں، بلکہ یہ ایک جاری عمل ہے وہ سفر جو 1839 سے شروع ہوا اور آج تک اپنی مکمل آزادی کی تلاش میں رواں دواں ہے۔

1839 میں برطانوی فوج کا بلوچستان میں داخلہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک ایسے منصوبے کا آغاز تھا جس نے بلوچ سماج، سیاست اور قومی ریاستی ڈھانچے کو صدیوں کے لیے تبدیل کر دیا۔ بلوچ قوم نے اس قبضے کو فوراً تسلیم نہ کیا؛ ہستانی و ساحلی مزاحمتی مراکز، مکران سے لیکر قلات تک اٹھنے والے مزاحمت میں، سب نے اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈال کر اس نوآبادیاتی مداخلت کا مقابلہ کیا۔لیکن برطانوی سامراج کی سب سے خطرناک حکمت عملی جنگ نہیں بلکہ“سیاسی انجینئرنگ”تھی نئے سرداروں کی تخلیق، مصنوعی اقتدار کی تقسیم، مشترکہ زمینوں کی نجکاری، اور بلوچ قومی یکجہتی کے تاریخی توازن کو توڑ کر ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا جس کا مقصد مزاحمت کو کمزور اور محکومی کو مستقل کرنا تھا۔1947 میں برطانوی سامراج کے جانے سے بلوچ مسئلے کا خاتمہ نہیں ہوا۔ نوآبادیاتی نقشہ ایسے بنایا گیا تھا کہ بلوچستان ایک بار پھر قابض ریاستی ڈھانچے کے اندر ضم ہو کر اپنی قومی آزادی سے محروم رہے۔ یہ فیصلہ بلوچ عوام کی قومی خواہشات، قومی شناخت یا تاریخی حیثیت کے مطابق نہیں تھا بلکہ سامراجی مفادات کے مطابق تھا۔اس کے بعد، فوجی کارروائیاں، سیاسی جبر، ریاستی دہشت گردی، وسائل کی لوٹ مار اورنوآبادیاتی انتظامی ڈھانچوں نے یہ ثابت کر دیا کہ 1839 میں شروع ہونے والا سلسلہ
صرف شکل بدل کر جاری رہا۔مجموعی طور پر تمام بیانیے 1839 کے قبضے کی توسیع ہی تھے صرف طریقہ بدل گیا تھا، مقصد وہی رہا۔

1839 نے جو زخم دیا، وہ آج تک مندمل نہیں ہو سکا، کیونکہ اس کا علاج کسی ترقیاتی پیکج، کسی مفاہمتی جرگے، یا کسی پارلیمانی نشست میں نہیں؛ یہ سوال ایک قوم کے وجودی حق سے جڑا ہے۔بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ میں 1948، اور پھر بالخصوص 1973 کے بعد ایک ایسا موڑ آتا ہے جہاں بلوچ نیشنلزم کے نام پر ایک نئی سیاسی پرت اُبھر کر سامنے آتی ہے ایک ایسی پرت جو عملاً بلوچ قوم کی حقیقی آزادی،
خودمختاری اور مزاحمتی روایت سے منقطع ہے، اور زیادہ تر پنجابی نوآبادیاتی ریاست کے لیے سٹپنی کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ بورژوا قوم پرست بظاہر بلوچ حقوق اور قومی بقا کی بات کرتی ہے، مگر اپنی اصل میں نوآبادیاتی اقتدار کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے اور اسی کے سیاسی و معاشی مفادات سے جڑی ہوئی ہے۔1948 میں جب ریاستِ پاکستان نے بلوچستان پر عسکری قبضہ کیا، اس کے بعد مقامی اشرافیہ کا ایک طبقہ ریاستی مفادات سے ہم آہنگ ہونا شروع ہوا۔ مگر 1973 کے "انتظامی الیکشن” اور نئی بندوبستی سیاست نے اس رجحان کو مزید مضبوط کیا نو آبادیاتی نظام نے بلوچستان میں ایک بورژوا نیشنلسٹ طبقہ تشکیل دیاجسے پنجابی استعماری مشینری مین بطور پرزہ شامل کیا گیا اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ استعماری طاقتیں ہمیشہ مقامی اشرافیہ پیدا کرتی ہیں تاکہ استحصال پر پردہ ڈال کراپنی قبضہ آسان بنایا جائے۔ بلوچستان میں یہ کردار انہی ” برائے نام نیشنلسٹ سیاستدانوں ” نے ادا کیا۔یہ طبقہ قومی نعرے، قومی اصطلاحات، اور بلوچ شناخت کے حوالوں کا استعمال ضرور کرتا ہے، مگر ان کے سیاسی اعمال ہمیشہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔الیکشن کا موسم آتا ہے تو یہ "قوم
پرستی” پسِ پشت چلی جاتی ہے اسمبلی کی نشستیں، وزارتیں، اور فنڈز ترجیح بن جاتے ہیں ریاستی پالیسیوں پر عمل درآمد میں یہ پیش پیش رہتے ہیں یہ جماعتیں کارپوریشن کمپنیاں بن جاتی ہین جو سیاسی کاروبار کا حصہ ہے جس میں بلوچ قوم پرستی صرف ایک برانڈ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔جب بھی ریاست بلوچ آزادی تحریک کے دباؤ سے بحران میں آتی ہے، جب قومی مزاحمتی جدوجہد اس کے مفادات کو چیلنج کرتی ہے، تب یہی نام نہادنیشنلسٹ طبقہ اپنے "سیاسی خدمات” پیش کرتا ہے۔کبھی یہ استعفے دے کر ڈرامائی انداز میں عوامی جذبات کو قابو کرتے ہیں، مگر چند ہی ماہ بعد "قومی مفاد” کے نام پر واپس ریاست کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس منافقت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بلوچ عوام کی سیاسی سائکی کو گمراہ کیا جاتا ہے اور حقیقی مزاحمتی شعور پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔
یہ بورژوا قوم پرستی اپنی پارٹیوں کی ساخت میں ریاستی بیانیے کو تحفظ دیتی ہے۔ریاستی ترقیاتی منصوبوں کو قومی ضرورت بنا کر پیش کرتی ہے وسائل کی لوٹ مار کو قانونی شکل دینے کی کوشش کرتے ہین ساحل و وسائل کے بیانیے کو قومی ملکیت کی بجائے پارلیمانی تجارت میں بدل دیتے ہین مزاحمت کو شدت پسندی اور امن کے لیے خطرہ ثابت کرکے ریاستی پروپیگنڈے کو جواز دیتے ہین یہ اپنی کل کردار مین نوآبادیاتی ذہنیت کا ترجمان بن جاتے ہین۔یہ نیشنلسٹ گروہ ساحل و وسائل کے تحفظ کے بڑے دعوے کرتے ہیں، مگر ریکارڈ گواہ ہے کہ انہی کے دستخط بڑے بڑے معاہدوں پر ہوتے ہیں عالمی کمپنیاں انہی کے ذریعے بلوچستان میں داخل ہوتی ہیں ترقیاتی پیکیج انہی کے ذریعے منظور ہوتے ہیں ریاست کو بلوچستان میں مضبوط ترین قدم جمانے کا راستہ انہی کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار میں
ان کی شراکت کوئی چھپی ہوئی حقیقت نہیں رہی۔

یہ حقیقت نئی نہیں۔ اس کی جڑیں 1948 کے انضمام کے بعد بننے والے نوآبادیاتی ماحول، 1970 کی دہائی کی نوآبادیاتی پالیسیوں، اور 1990 کے بعد تشکیل پانے والی پنجاپی جمہوری سیاست میں پیوست ہیں۔ بلوچ قومی تحریک ہمیشہ دو واضح سمتوں میں بٹی رہی ہے: ایک طرف وہ سیاسی، فکری اور مسلح مزاحمتی دھارے جو بلوچ قوم کو بطور ایک تاریخی وحدت دیکھتے ہیں اور آزادی کو بنیادی مقصد سمجھتے ہیں؛ جبکہ دوسری طرف وہ پارلیمانی طبقہ جس نے ریاستی اسٹرکچر کے اندر رہتے ہوئے محدود مفادات، ذاتی طاقت اور خاندانوں کی سیاسی وراثت کو ترجیح دی۔وقت گزرنے کے ساتھ، یہ پارلیمانی کلاس ایک نئے روپ میں سامنے آئیایک ایسی کارپوریٹ سیاسی اشرافیہ کے طور پر جس نے بلوچ قوم پرستی کو محض ایک برانڈ بنا کر استعمال کرنا شروع کیا۔ یہ جماعتیں اور سیاسی خاندان دراصل نجی کمپنیوں کی طرح چلنے لگے، جن کا مقصد قومی خدمت سے زیادہ ’’حملہ آور‘‘ اور ’’اقتدار‘‘ کا تحفظ تھا۔ پارٹی ٹکٹیں سرمایہ کاری بن گئیں، وزارتیں کاروباری شیئرز، اور فنڈز منافعہ،ریاستی پالیسیوں پر عمل درآمد میں ان جماعتوں کا کردار محض تعاون تک محدود نہیں رہا بلکہ کئی مواقع پر یہ ریاست سے زیادہ ریاستی پالیسیوں کی ترجمان بن گئیں۔ ترقیاتی اسکیموں کے نام پر، وسائل کی بندربانٹ، اور کمیشن کی سیاست نے اس طبقے کو ’’کارپوریشن‘‘ کی شکل دے دی۔ یوں نوآبادیاتی قوتوں کی کوکھ میں پلنے والی قوم پرستی ایک ایسی مارکیٹنگ لائن میں تبدیل ہوگئی جس کے پیچھے اقتدار، سرمایہ، ٹھیکے، اور مراعات چھپے ہوئے ہیں۔ آج بلوچستان میں وہ سیاسی جماعتیں جو خود کو بظاہر’’قوم پرست‘‘ کہتی ہیں، حقیقت میں کارپوریٹ سیاسی کمپنیاں بن چکی ہیں۔ ان کی تنظیمی ساخت، فیصلہ سازی کا طریقہ، امیدواروں کا انتخاب، ٹکٹ کا لین دین، فنڈز کی تقسیم، وزارتوں کی اہمیت ہر چیز کاروباری منطق کی پیروی کرتی ہے۔ ایسے میں بلوچ قوم پرستی صرف ایک لیبل، ایک برانڈنگ اسٹریٹیجی، ایک سیاسی مارکیٹ کا حصہ رہ جاتی ہے، جسے الیکشن کے دنوں میں فروخت کیا جاتا ہے اور اقتدار ملتے ہی شیلف پر رکھ دیا جاتا ہے۔

بی این پی کے سینئر لوگوں کے بچے حکومتی وزیر، مشیروں اور پنجاپی اسٹیبلشمنٹ سے مراعات، لیپ ٹاپ، سرکاری سہولیات اور ترقیاتی پیکیجز قبول کرتے ہیں یہ تعلقات ثابت کرتے ہیں کہ ان کی سیاست کا محور قابض مفاد کا ہے بورژوا قوم پرستی دراصل قابض نظام کی بقا کے لیے ایک نرم چہرہ، ایک "مقامی نمائندگی” اور ایک قابلِ قبول عوامی façade فراہم کرتی ہے۔ یہ طبقہ بلوچ قومی شعور کو کمزور کرتا ہے، مزاحمت کو نقصان پہنچاتا ہے، اور بلوچ سرزمین پر نوآبادیاتی بندوبست کو مضبوط بناتا ہے

المختصرآج کے بلوچ سیاسی منظرنامے میں سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ آزادی دوست عوام کو اس بنیادی فرق کو پوری طرح سمجھنا ہوگا کہ ’’برانڈڈ قوم پرستی‘‘ اور ’’حقیقی قومی جدوجہد‘‘ میں وہی فرق ہے جو کاروبار اور قربانی میں ہوتا ہے۔یہ برانڈڈ قوم پرستی اپنی ساخت میں کاروباری اصولوں کی پیروکار ہوتی ہے۔ اس میں قومی حقوق کے نام پر جاری بیانیہ ایک پروڈکٹ بن جاتا ہے، پارٹی ایک کمپنی، لیڈر ایک
سی ای او، کارکن سیلز مین، اور عوام ایک مارکیٹ۔ الیکشن ایسے ہوتے ہیں جیسے کسی بڑے مالیاتی سال کا منافع، وزارتیں کارپوریٹ شیئرز کی
طرح تقسیم ہوتی ہیں، اور ’’قوم‘‘ ایک ایسی جذباتی مارکیٹنگ لائن جسے ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جائے۔ یہ قوم پرستی قربانی نہیں مانگتی یہ صرف وفاداری، ووٹ اور سیاسی خدمت کے نام پر چند سالہ تعاون چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار ملتے ہی اس کا سارا قومی بیانیہ ہارڈ ڈسک سے ڈیلیٹ شدہ فائل کی طرح غائب ہو جاتا ہے۔اس کے مقابلے میں حقیقی قومی جدوجہد کاروبار نہیں ہوتی، وہ قربانی ہوتی ہے۔
قربانی میں سرمایہ نہیں لگایا جاتا—قربانی میں مستقبل، رزق، گھر، آسائش، اور جان تک داؤ پر لگانی پڑتی ہے۔ حقیقی جدوجہد میں نہ تنخواہ ہوتی ہے، نہ مراعات، نہ محکمے، نہ پروٹوکول۔ اس میں صرف ایک قوت ہوتی ہے: وہ شعور وہ نظریہ جو مقبوضہ قوم کو اپنے حقِ آزادی، تاریخ، زبان کی شناخت، زمین کی حفاظت، اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے لڑنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب حقیقی مزاحمتی تحریکیں ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں، عسکری کارروائیوں کا سامنا کرتی ہیں، وہ قربانی کے راستے پر چلتی ہیں اپنی جانیں گنواتی ہیں، گھروں سے بے گھر ہوتی ہیں، خاندان ٹوٹتے ہیں، نسلیں متاثر ہوتی ہیں، لیکن جدوجہد جاری رہتی ہے۔ دوسری طرف برانڈڈ قوم پرستی ان کی قربانیوں کو اپنی انتخابی مہم کا حصّہ بنا کر بازار میں بیچتی ہے۔ وہ قومی دکھ کو اپنی تقاریر میں استعمال کرتی ہے لیکن اسی ریاستی ڈھانچے میں وزارتوں کا حصہ بنتی ہے جو انہی مظلوم لوگوں کے خلاف پالیسی نافذ کرتا ہے۔یہ ایک ایسا فکری تضاد ہے جو صرف سیاسی اختلاف نہیں، بلکہ قومی مقصد اور آزادی پر ایک گہرا حملہ اور جان لیواہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تاریخ کے بڑے سیاسی نظریات بھی یہی دلیل دیتے ہیں۔
اینٹی کالونیل تھیوری، فینن کی نفسیاتی تحلیل، گرامشی کا تصورِ ہژمونی، اور مارکسی محکومی کا تجزیہسب اس بات پر متفق ہیں کہ مقبوضہ اقوام کا اصل دشمن صرف بیرونی قوت نہیں ہوتا بلکہ وہ داخلی طبقہ بھی ہوتا ہے جو قومی جدوجہد کو مصلحت، اقتدار اور مراعات کے ذریعے کمزور کرتا ہے۔ یہ داخلی گروہ ہمیشہ برانڈڈ قوم پرستی کے ذریعے خود کو ’’قومی رہنما‘‘ ظاہر کرتا ہے، جب کہ حقیقت میں وہ استعمار کے لیے ’’مقامی انتظامیہ‘‘ کا کردار ادا کرتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون قوم پرست ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ کون قربانی دے رہا ہے اور کون کاروبار کر رہا ہے۔کون اپنی نسلوں کی بقا کے لیے لڑ رہا ہے اور کون اقتدار کی بقا کے لیے۔کون آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور کون آزادی کے نام پر اپنی سیاسی دکان چلا رہا ہے۔یہ وہ معیار ہیں جن پر قوم کو سیاسی قیادت کا جائزہ لینا ہوگا۔ آزادی دوست عوام کے لیے آج یہی سب سے بڑا امتحان ہے کہ وہ اس فرق کو سمجھیں، اس کو بیان کریں، اس کو سیاسی شعور کا حصہ بنائیں، اور اس کے مطابق اپنی سیاسی صف بندی کریں۔ کیونکہ اگر قوم قربانی دینے والوں کے ساتھ کھڑی ہو گی تو تاریخی سمت بدل جائے گی؛ اور اگر قوم پروڈکٹ بیچنے والی قوم پرستی کے فریب میں پھنس گئی تو جدوجہد کمزور پڑتی جائے گی۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تربت: پاکستانی فورسز کی حراست میں مبینہ تشدد سے نوجوان جاں بحق

جمعہ نومبر 21 , 2025
کیچ کے علاقے دشت کنچتی میں پاکستانی فورسز نے گھر پر چھاپے کے دوران حراست میں لیے گئے نوجوان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات پاکستانی فورسز نے دشت کنچتی کے علاقے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ