برلن سیمینار: بلوچ جہد آزادی کا فکری و سفارتی دریچہ!

تحریر: رامین بلوچ

یورپ کے سب سے بڑے شہر اور جرمنی کے دارالخلافہ برلن میں گزشتہ دنوں 8 نومبر کوبلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی جانب سے یومِ شہدائے بلوچ کے مناسبت سے ایک تاریخی سیمینار کا انعقاد ہوا۔جس کا عنوان تھا ”بلوچ شہداء ڈے،قربانی اور جدوجہد کی یاد“ یہ اجتماع تیرہ نومبر یوم شہدائے بلوچ کے مناسبت سے اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہ صرف ایک یادگاری تقریب تھا، بلکہ قوموں کی مشترکہ جدوجہد، عالمی یکجہتی اور سفارتی سطع پر بڑھتے ہوئے رابطوں کے ایک علامتی مظہر کے ساتھ بلوچ قومی تحریک آزادی کے فکری، سیاسی اور سفارتی تسلسل کا وہ نقطہ عروج اور سنگ میل تھا جس نے عالمی برادری کے ضمیر کو ایک مرتبہ پھر جھنجھوڑ کر یاد دلایاکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک قابض پاکستانی ریاست کی داخلی یا اندرونی معاملات کا حصّہ نہیں بلکہ یہ ایک طویل تاریخی پس منظر و تناظر کا عامل ہے۔سیمینارسے بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ، جرمن چیپٹر کی نائب صدر صفیہ بلوچ، عالمی سندھی کانگریس کے رہنما ڈاکٹر لکھو لوہانہ، تامل قوم کے نمائندہ رہنما ء نیو نتن ننتھا کمار اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ہوں نے خطاب کیا۔مختلف مقبوضہ اقوام کے مقررین کے بلوچ شہداء ڈے کے موقع پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی گونج اس وقت ان تمام مقبوضہ اقوام میں سنائی دے رہی ہے جو قومی جبر وسائل وجغرافیہ پر قبضے اور شناخت کی پامالی کے خلاف برسر جدوجہد ہیں۔جو واضح کرتاہے کہ آزادی، انصاف اور انسانی حقوق کی جدوجہد ایک مشترکہ انسانی سفر ہے۔اس سفر میں بلوچ، سندھی، پشتون اور تامل اقوام ایک دوسرے کے تجربات، دکھ، مزاحمت اور امیدوں کی شریک راہ ہیں

برلن میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے زیرِ اہتمام یومِ شہدائے بلوچ سیمینار ایک ایسے فکری اور تاریخی مکالمے کی تشکیل تھی جس نے بلوچ قومی جدوجہد کو نئے سفارتی دائرے میں نمایاں کیا۔ اس سیمینار کا مرکزی نقطہ بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کا خطاب تھاڈاکٹر نسیم بلوچ نے اپنے خطاب کا آغاز اسی حقیقت سے کیا کہ ریاست پاکستان بلوچ قوم کو گولیوں سے خاموش کرانا چاہتی ہے، مگر جبر نے بلوچ دلوں میں آزادی کی تڑپ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ڈاکٹر نسیم بلوچ نے 27 مارچ 1948 کے اس سانحے کا ذکر کیا جب پاکستانی فوج نے توپوں کے زور پر بلوچستان پر قبضہ کیا۔ ان کے مطابق یہی قبضہ آج کی صورتِ حال تک پھیل چکا ہے، جہاں فوجی کیمپوں، چیک پوسٹوں، نگرانی کے میناروں اور مسلسل خوف نے ایک پوری قوم کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ یہ جنگ بندوقوں کی نہیں، ایمان کی ہے اور تاریخ ہمیشہ ایمان کے آگے سر جھکاتی ہے۔ یہ درست ہے کوئی بھی آزادی کی تحریک محض عسکری نہیں ہوتی؛ اس کے پیچھے ایک نظریہ، ایک اخلاقی جواز، ایک تاریخی حقیقت اور ایک اجتماعی عزم کھڑا ہوتا ہے۔جب جدوجہد ایمان بن جائے، تو طاقتور سلطنتیں بھی شکست کھا جاتی ہیں اور محکوم قومیں تاریخ کا رخ بدل دیتی ہیں۔انہوں نے یہ تاریخی حقیقت بھی واضح کی کہ اگرچہ برطانوی پرچم اب بلوچستان پر نہیں لہراتا، مگر غلامی کی زنجیریں نئی شکل اختیار کر چکی ہیں۔پہلے بلوچستان پر لندن کا قبضہ تھا، آج اسلام آباد کا ہے۔اپنے خطاب کے اختتام پر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا:”ہماری زبانیں مختلف ہیں، مگر زخم ایک ہیں،لہٰذا ہماری آواز بھی ایک ہونی چاہیے، ظلم کے خلاف اور آزادی کے لیے متحد۔”یہ جملہ سیمینار کے اس پیغام کو مکمل طور پر سمیٹ لیتا ہے کہ بلوچ، سندھ، پشتون اور تامل قوم کے نمائندوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ آج دنیا بھر کی محکوم قومیں ایک مشترکہ تاریخ اور مشترکہ زخموں کا بوجھ اٹھارہی ہیں۔ان کی جدوجہد بھی مشترکہ ہے،

برلن میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم))کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینار کا بنیادی محور اور مرکزی پیغام دو تاریخی حقائق کے گرد گھومتا تھا:
اول، بلوچ شہداء کی لازوال قربانیوں کی یاد؛ دوم، تیرھویں نومبر اور بلوچستان پر مسلط ریاستی قبضے کا تاریخی باب۔سوئم، مستقبل کا راستہ عالمی یکجہتی، سفارتی حکمتِ عملی اور قومی آزادی کا نیا بیانیہ، یہ تقریب محض تعزیتی اجتماع نہیں تھی بلکہ ایک فکری اور سفارتی مکالمہ تھی جو بلوچ قومی تاریخ کے سب سے کڑے، سب سے دکھ بھرے اور سب سے مزاحمتی لمحات کو عالمی برادری کے سامنے ایک منظم بیانیے کی شکل دیتا ہے۔ برلن کی سرزمین پر بلوچ شہداء کا ذکر کرنا دراصل مقبوضہ بلوچ قوم کی اُس انسانی تاریخ کو تازہ کرنا تھا جس میں قربانی ہمیشہ آزادی کی پیش خیمہ رہی ہے۔سیمینار میں اٹھایا جانے والا دوسرا بنیادی نقطہ بلوچ قوم کی تاریخ کا وہ فیصلہ کن لمحہ تھا جب 13 نومبر کے واقعات نے نہ صرف کلات کے سیاسی نقشے کو بدلا بلکہ بلوچ مزاحمت کا دائمی باب بھی رقم کر دیا۔اسی دن برطانوی فوج نے کلات کا محاصرہ کیا، اور خان محراب خان کی شہادت نے غلامی کے خلاف ایک ایسی بنیاد رکھی جو آج بھی زندہ ہے۔ اس تاریخ کو یاد کرنا عالمی دنیا کے سامنے یہ واضح کرنا تھا کہ قبضے کا سلسلہ رکا نہیں، صرف بدلتا رہا۔برطانوی سامراج گیا، مگر ریاستی قبضہ کی نئی شکل پاکستان کی صورت میں بلوچستان پر مسلط کر دی گئی۔یہ تاریخی تسلسل بی این ایم کے بیانیے کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جو آزادی کی جدوجہد کو جذبات سے نکال کر تاریخ اور سیاسی حقیقت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
سیمینار کا مرکزی فکری محور یہ تھا کہ بلوچ قوم آج بھی اس قبضے کی کوکھ سے جنم لینے والے مظالم کا سامنا کر رہی ہے۔فوجی کیمپ،چیک پوسٹیں،نگرانی کے مینار،جبری گمشدگیاں، ماس کلنگ،فرضی مقابلوں میں بلوچ فرزندوں کی قتل عام، جنگی قوانین کی پامالی یہ سب اس جاری قبضے کے وہ پہلو ہیں جو 13 نومبر کے تاریخی سانحے کو آج کے حالات سے جوڑتے ہیں۔
یہ تینوں جہتیں اس سیمینار کو بلوچ شہداء کے یادگاری تقریب کے ساتھ ایک سیاسی دستاویز میں بدل دیتی ہیں۔برلن کا انتخاب بھی محض اتفاق نہیں تھا۔یورپ کا مرکزی اور سیاسی طور پر باشعور شہر، جہاں انسانی حقوق کا بیانیہ مضبوط ہے، دنیا بھر کی قومی تحریکوں کی گونج یہاں موجود ہے۔انہی سیاسی فضا میں بلوچ شہداء کا ذکر اور پاکستانی ریاست کے قبضے کو بے نقاب کرنا بی این ایم کی ایک مؤثر سفارتی حکمتِ عملی تھی۔یہ تقریب اس بات کا اعلان بھی تھی کہ بلوچ جدوجہد اب عالمی سفارتی نقشے پر باقاعدہ جگہ بنا رہی ہے۔

سیمینار کے فکری محور کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو پاکستانی ریاست کے اندرونی یا داخلی معاملات کا حصہ قرار دینا بلوچ تاریخ، جغرافیہ اور تحریک آزادی کے سیاسی و فکری ارتقا سے سنگین انحراف ہے۔ یہ تحریک کسی اچانک ردِعمل، وقتی سیاسی عدم اطمینان یا جدید دور کے کسی حادثاتی بحران کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل تاریخی تسلسل، سامراجی مداخلت اور قومی وجود کے خلاف صدیوں پر محیط جارحیت کا منطقی ارتقا ہے۔ بلوچ قوم اپنی سرزمین، اپنی سیاسی حاکمیت، اپنے اجتماعی تشخص اور بین الاقوامی حیثیت کے ساتھ برصغیر اور وسطی ایشیا کے سیاسی نقشے پر ایک جداگانہ حقیقت رہی ہے۔ یہی حقیقت ہے جو آج بھی بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے فکری ڈھانچے، سفارتی موقف اور سیاسی مزاحمت کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔

تیرہ نومبر 1839 کا دن بلوچ قوم کی اجتماعی یادداشت میں ایک سلگتا ہوا زخم، مزاحمت کا آغاز اور سامراجی قبضہ گیری کی اولین منظم مثال کے طور پر محفوظ ہے۔ اسی روز برٹش سامراج نے بلوچستان—بالخصوص کلات کی مرکزیت—کو اپنی نوآبادیاتی حکمتِ عملی کے اہم کڑی کی حیثیت سے نشانہ بنایا۔ بلوچ ریاست کلات کے والی، میر محراب خان، اس سامراجی پیش قدمی کے سامنے ایک حاکم، ایک مزاحمت کار اور ایک قومی علامت کے طور پر کھڑے ہوئے۔ برطانوی حملے میں میر محراب خان اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نہ صرف ایک شخصی یا حکومتی سانحہ تھا بلکہ بلوچ قوم کی قومی خودمختاری کے خلاف براہ راست جارحیت تھی۔یہ پہلا واقعہ وہ تاریخی موڑ تھا جس کے بعد بلوچ ریاست رفتہ رفتہ سامراجی معاہدوں، فوجی جارحیت، جغرافیائی تقسیم اور سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ایک مستقل دباؤ کا شکار بنی رہی۔ 1839 کے حملے نے واضح کردیا کہ بلوچ قومی مسئلہ کسی ایک ریاست کی داخلی پالیسی کا نتیجہ نہیں بلکہ سامراجی قوتوں کے ذریعے بلوچ قومی حاکمیت کو ختم کرنے کا منصوبہ بند عمل تھا۔ بعد کے ادوار میں برطانیہ نے بلوچ ریاست کو نیم خودمختار کرنے، طاقت تقسیم کرنے، مصنوعی سرحدیں کھینچنے، اور سیاسی کمزوری پیدا کرنے کے لیے متعدد معاہدات اور انتظامی تبدیلیاں متعارف کرائیں۔ یہی پالیسیاں آگے چل کر قابض پاکستان نے ورثے میں حاصل کیں اور اس کی بنیاد پر 1948 میں بلوچستان پر قبضہ کیاگیا۔بلوچ قومی تحریک کا فلسفہ اسی تاریخی ناانصافی، سامراجی قبضے اور قومی آزادی کی پامالی سے پھوٹتا ہے۔ یہ تحریک اس حقیقت کا اعلان ہے کہ بلوچ قوم کبھی بھی رضاکارانہ طور پر کسی بیرونی طاقت کے ماتحت نہیں رہی، نہ ہی اس نے اپنے وطن کا اختیار کسی ریاست کے حوالے کیا۔ بلوچ تحریک کا سیاسی استدلال واضح ہے کہ اگر برطانوی قبضہ نوآبادیاتی تسلط تھا تو اس قبضے سے حاصل شدہ جغرافیہ پر کسی نو تخلیق شدہ ریاست کا دعویٰ قانونی یا تاریخی جواز پیدا نہیں کرتا۔

اسی پس منظر میں بلوچ تحریکِ آزادی ایک تسلسل رکھتی ہے 1839 کی انگریزی یلغار 1876 کے معاہدات 1948 کا جبری الحاق /قبضہ اور پھر جدید مزاحمتی دوریہ تمام مراحل ایک ہی تاریخی دھارے کے مختلف سرا ہیں۔ یہ تسلسل بتاتا ہے کہ بلوچ تحریک نہ صرف ردِعمل
نہیں بلکہ ایک قومی شعور کا ارتقا ہے جو اپنی قومی بقا، اپنی تہذیب، اپنی سیاسی خودمختاری اور اپنے وطن کے تحفظ کے لیے برسرِ جدوجہد ہے۔

سیاسی اعتبار سے یہ تحریک قوموں کے حقِ آزادی کے عالمی اصولوں سے ہم آہنگ ہے جنہیں اقوامِ متحدہ نے تسلیم کیا۔ بلوچ قوم کا مؤقف بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ہے کہ ان کی سرزمین پر قبضہ نوآبادیاتی توسیع پسندی کا تسلسل ہے اور اس کا ختم ہونا عالمی انصاف کا تقاضا ہے۔ اس جدوجہد میں سیاسی مزاحمت، فکری و شعوری بیداری، سفارتی سرگرمیاں، بین الاقوامی فورمز پر مقدمہ پیش کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنا تحریک کے بنیادی ستون ہیں۔مزید برآں، بلوچ جدوجہد شراکت اقتدار، وسائل میں شراکت اور شہری حقوق کی تحریک نہیں بلکہ یہ اپنی ثقافت، زبان، قومی شناخت، وسائل اور زمین کے تحفظ وآزادی کی تحریک ہے۔ آج بھی بلوچستان میں وسائل کی لوٹ مار، جبری گمشدگیاں، فوجی آپریشن، سیاسی انجینئرنگ، اور سماجی ناانصافی اسی سامراجی تسلسل کا مظہر ہیں جس کی ابتدا 1839 میں برٹش حملے سے ہوئی تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک ایک تاریخی حقیقت، ایک سیاسی ضرورت، ایک قومی ذمہ داری اور عالمی انصاف کے اصولوں پر قائم ایک جائز جدوجہد ہے۔ اسے داخلی مسئلہ قرار دینا بلوچ قوم کی تاریخ، قربانیوں اور جدوجہدآزادی کی پامالی کے مترادف ہے۔ بلوچ تحریک ایک صدیوں پر محیط مزاحمت کا علامتی سفر ہے ایک ایسا سفر جو محراب خان کی شہادت سے شروع ہوا اور آج بھی آزادی کے نصب العین کے ساتھ قائم ہے۔ یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بلوچ قوم اپنی سرزمین، اپنی حاکمیت اپنی پولیٹیکل پاور اور اپنے مستقبل پر مکمل اختیار حاصل نہیں کرلیتی۔

برلن میں بی این ایم کی جانب سے منعقدہ سیمینار نے ایک فیصلہ کن اور غیر مبہم پیغام عالمی برادری تک پہنچاکر واضح کیا کہ بلوچ قومی تحریک نہ تو کسی پارلیمانی برابری کی بحث ہے، نہ صوبائی اختیارات کا مطالبہ، اور نہ ہی شہری حقوق کے محدود دائرے میں محصور کوئی اصلاحاتی مسئلہ۔ یہ براہِ راست ایک قومی وجود، ایک سرزمین کے حقِ ملکیت، ، ایک قوم کے آزادی اورقومی و انسانی وقار کے تحفظ کا سوال ہے ایک ایسا سوال جسے دنیا چاہے کتنا ہی نظرانداز کرنے کی کوشش کرے، اب اس کی سیاسی، اخلاقی اور تاریخی گونج سے خود کو آزاد نہیں کر سکتی۔

بلوچ تحریک کی بنیاد کسی بھی جدید ریاست کے داخلی عدم توازن یا سیاسی بدانتظامی میں نہیں بلکہ اس کی جڑیں اس تاریخی لمحے میں پیوست ہیں جب سامراجی توسیع پسندی نے بلوچ قوم کی آزادی اور حاکمیت کو زبردستی کچلنے کی کوشش کی۔ 1839 میں برٹش استعمار کی جانب سے قلات پر حملہ اور میر محراب خان سمیت متعدد بلوچ مزاحمت کاروں کی شہادت وہ پہلا سنگ میل تھا جس نے بلوچ تاریخ میں مزاحمت کے مستقل باب رقم کیے۔ اس دن سے لے کر آج تک بلوچ قوم نے خود کو ایک ایسی سیاسی و ثقافتی وحدت کے طور پر منوایا ہے جس کا حقِ حاکمیت کسی بیرونی قوت کے تابع نہیں ہوسکتا۔ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو بلوچ تحریک کی حیثیت ایک کلاسیکی قومی آزادی کی جدوجہد ہے۔ دنیا کی ہر وہ قوم جس نے نوآبادیاتی جبر، ریاستی قبضے اور سامراجی تقسیم کے خلاف آزادی حاصل کی،چاہے وہ اریٹیریا ہو یا مشرقی تیمور، بنگلہ دیش ہو یا جنوبی سوڈان یا الجزائراس کا مقدمہ اسی بنیادی اصول پر کھڑا تھا کہ قومیں اپنی سرزمین اور سیاسی مستقبل کی مالک ہیں، اور کسی بیرونی قوت یا حملہ آورکو یہ حق نہیں کہ وہ ان کے قومی فیصلوں کو پامال کرے۔ بلوچ تحریک بھی اسی کائناتی اصول کا تسلسل ہے۔

برلن کے سیمینار نے یہی تاریخی حقیقت عالمی طاقتوں کے سامنے اس انداز میں پیش کی کہ اب اسے صرف ایک "اندرونی مسئلہ” کہہ کر نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، جبری گمشدگیاں، اجتماعی قبریں، وسائل کی لوٹ مار، آبادیاتی انجینئرنگ اور سیاسی نمائندگی کی مصنوعی تشکیل ایک ایسے نظام کی نشانیاں ہیں جو کسی قوم کی شناخت مٹانے کے عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایسے تمام عمل نسل کُشی کے جدید مظاہر سمجھے جاتے ہیں اور ان پر بین الاقوامی اداروں کی مداخلت ناگزیر ہوتی ہے۔اس پس منظر میں بلوچ تحریک نے اپنے مقدمے کو نہایت واضح خطوط پر دنیا کے سامنے رکھا ہے،یہ تحریک نہ وسائل کے حصے پر جھگڑا ہے، نہ آئینی ترامیم کی جنگ، نہ صوبائی اختیارات کی درجہ بندی کا تقاضا۔ یہ ایک قومی وجود اور اس کی بقا کا سوال ہے۔ بی این ایم کے قائدین نے عالمی برادری کو باور کرایا ہے کہ جب ایک قوم کا اجتماعی وجود خطرے میں ہو، جب اس کی سرزمین پر قبضہ ہو، اور جب اس کی آزادی اور انسانی وقار پامال ہو رہے ہوں، تو یہ محض علاقائی سیاست کا کھیل نہیں رہتا،یہ عالمی انصاف کا مقدمہ بن جاتا ہے۔سیمینار میں پیش کیے گئے موقف دلائل اور شواہد نے واضح کیا کہ بلوچ مسئلے کو داخلی قرار دینا دراصل نوآبادیاتی ورثے کی توسیع پسندی کو جائزقرار دینے کے مترادف ہے۔ بلوچ وطن پر قبضہ، اس کی سیاست میں بیرونی مداخلت، اس کے بیانیے پر پابندیاں، اس کے لوگوں کی جبری گمشدگیاں اور اس کی سرزمین کے وسائل پر قبضہ سب ایسے حقائق ہیں جنہیں عالمی ضمیر اب مزید نظرانداز نہیں کرسکتا۔

بلوچ قومی تحریک کا جدید سفارتی محاذ بھی اسی تاریخی حقیقت کا تسلسل ہے کہ جب ایک قوم اپنی آزادی کے لیے مسلسل قربانیاں دے، اپنی مزاحمت کو اخلاقی اصولوں کے تابع رکھے، اور اپنے انسانی حقوق کے لیے عالمی اداروں تک رسائی حاصل کرے تو اس کی جدوجہد محض ایک "علاقائی مسئلہ” نہیں رہتی۔ یہ ایک بین الاقوامی سوال بن جاتی ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو آج عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں گونج رہا ہے کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ قوم کیوں لڑ رہی ہے؟ اور اس کی آزادی کا مقدمہ کیوں وسیع تر عالمی ضمیر کی توجہ مانگتا ہے؟سیمینار نے اس سوال کا جواب نہ صرف تاریخی حوالہ جات سے دیا بلکہ سیاسی شعور، انسانی حقوق کی دستاویزی خلاف ورزیوں، اور قومی آزادی کی اصولی دلیل کے ساتھ بھی دیا۔ اس نے ثابت کیا کہ بلوچ قومی مسئلہ عالمی انصاف ثالثی کے بنیادی اصولوں کا امتحان ہے۔ اگر عالمی طاقتیں انسانی حقوق، جمہوریت، آزادی اور انصاف کے اپنے اعلانات میں سنجیدہ ہیں تو بلوچستان کا مقدمہ ان کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے
۔
برلن سیمینار میں بلوچ شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ انسانی تاریخ میں وہی قومیں سرخرو رہتی ہیں جو اپنی شناخت، زبان، سرزمین اور وقار کی خاطر قربانی سے گریز نہیں کرتیں۔اس سیمینار کی سب سے بڑی اہمیت یہ تھی کہ اس نے بلوچ مسئلے کو ایک بار پھر عالمی فورمز اور انسانی حقوق کے حلقوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔بی این ایم اور دیگر محکوم اقوام کے مقررین نے سفارتی زبان میں، عالمی اصولوں کی روشنی میں اور بین الاقوامی قانون کے تناظر میں واضح کیا کہ بلوچ وطن پر نہ صرف ریاستی قبضہ موجود ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں جبری گمشدگیاں اورفرضی مقابلوں میں قتل عام معمول بن چکے ہیں بلوچ قوم کی تاریخی حیثیت، شناخت اور خودمختاری کو ریاستی جبر کے تحت مٹایا جا رہا ہے برلن جیسے شہر میں، جہاں انسانی آزادی، اظہارِ رائے اور سماجی انصاف کے اصول سیاسی ثقافت کا بنیادی حصہ ہیں، اس نوعیت کی سفارتی سرگرمی نے بلوچ جدوجہد کو ایک تازہ اور مؤثر عالمی حوالہ فراہم کیا۔

گزشتہ چند برسوں میں بی این ایم نے سفارتی محاذ پر اس گرفت اور تسلسل کا مظاہرہ کیا ہے جو کسی بھی قومی تحریک کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ برلن سیمینار اسی تسلسل کا تازہ اظہار تھا۔ یہاں پیش کیے گئے نکات، رپورٹس، انسانی حقوق کے حوالہ جات اور عالمی تنظیموں سے اپیلیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بلوچستان کا مقدمہ اب صرف پہاڑوں تک محدود نہیں رہا—یہ اقوامِ متحدہ کے ضابطوں، یورپی پارلیمان کی قراردادوں اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔برلن میں منعقدہ بی این ایم کا سیمینار دراصل یہ اعلان تھا کہ بلوچ قوم اپنی جدوجہد کو نئی عالمی جہتوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ تقریب ایک یادگاری لمحہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سفارتی پیش قدمی بھی ہے۔جرمنی میں یہ سیمینار سفارت کاری کے میدان میں ایک پیش رفت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یورپ، خصوصاً جرمنی، انسانی حقوق کے حساس ترین عالمی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں بلوچ قومی تحریک کا مؤقف پیش کرنا عالمی بیداری کی طرف ایک اہم قدم ہے۔سیمینار میں شریک یورپی دانشوروں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے نمائندوں نے نہ صرف بلوچ مسنگ پرسنز، فوجی آپریشنز اور وسائل کی لوٹ مار کا ذکر سنا، بلکہ بلوچ قومی تحریک کے تہذیبی، سیاسی اور تاریخی تناظر کو ایک مربوط فکری دلائل کے ساتھ دیکھا۔یہاں سفارت کاری محض ہاتھ ملانے یا فوٹو سیشن تک محدود نہیں تھی، بلکہ اپنی قومی حقیقت کو عالمی ضمیر کے سامنے پیش کرنے کا عمل تھا—ایک ایسا عمل جو آنے والے وقت میں بلوچ قومی مقدمے کے لیے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔
اس میں ریاستی جبر اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار قومی تحریک کے سیاسی وژن کو پیش کیا گیا۔ یہ پیغام بھی دیا گیا کہ بلوچ قوم آزادی کے لیے جو راستہ اختیار کر رہی ہے، وہ تاریخ کے انصاف، انسانی آزادی اور اجتماعی وقار کے اصولوں پر قائم ہے۔یہ سیمینار دراصل مستقبل کی بلوچ سفارت کاری، قومی اتحاد اور عالمی رائے عامہ کی تشکیل کا بنیادی سنگِ میل ہے۔ آنے والےبرسوں میں جب دنیا بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھے گی تو تاریخ گواہی دے گی کہ برلن میں رکھا گیا یہ فکری و سفارتی پتھر ایک بنیاد کا آغاز تھا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

حیدرآباد: لطیف آباد میں آتش بازی کے کارخانے میں دھماکہ، 3 افراد ہلاک، متعدد زخمی

ہفتہ نومبر 15 , 2025
حیدرآباد: شہر کے علاقے لطیف آباد کے لغاری گوٹھ میں آتش بازی کے کارخانے میں شدید دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ رپورٹس کے مطابق دھماکے سے کارخانہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور آگ بھڑک اٹھی، جبکہ دھماکے کی آواز دور دور […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ