تاریخ میں فرد کا کردار

تحریر: ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
زرمبش مضمون

نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کسی ایک طبقے یا جماعت کا نہیں بلکہ پوری محکوم و مقبوضہ قوم کا اجتماعی فریضہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غلامی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی قوم کا ہر فرد، خواہ وہ کسی بھی طبقے یا پیشے سے تعلق رکھتا ہو، غلام ہے اور غلامی سے نجات کی جدوجہد میں اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں غلامی کے خلاف جدوجہد میں نہ صنفی تفریق کا قائل ہوں اور نہ ہی طبقاتی امتیاز کا، میں سمجھتا ہوں کہ قومی آزادی کی جنگ میں مرد و زن سبھی یکساں شریک ہوتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب کوئی قوم اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتی تو فرد کا کردار بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ لہٰذا فرد اور قوم کا رشتہ جدلیاتی ہے، فرد قوم کو توانائی دیتا ہے اور قوم فرد کو معنی اور سمت عطا کرتی ہے۔ تاریخ اسی طرح آگے بڑھتی ہے، فرد کا کردار نکھر کر سامنے آتا ہے اور قوم کی اجتماعی طاقت کا جزوِ لاینفک بن جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک صاحب یا صاحبہ فرضی نام سے اپنی تحریر میں درمیانے طبقے کے حوالے سے رائے دی اور ساتھ ہی پارلیمانی سیاست اور غیر پارلیمانی یعنی مسلح جنگِ آزادی کے سپاہیوں کے کردار پر بھی اظہارِ خیال کیا۔ میری گزارش ہے کہ ایسے موضوعات پر رائے زنی محض ذاتی تاثر کی بنیاد پر نہیں بلکہ تاریخی تجربات اور فکری مباحث کی روشنی میں ہونی چاہیے کیونکہ آزادی کی جدوجہد میں چاہے وہ درمیانہ طبقہ ہو، محنت کش طبقہ ہو یا مزاحمت کے محاذ پر لڑنے والے جنگجو، ہر ایک کا اپنا تاریخی کردار اور اہمیت ہے، جسے نظر انداز کرنا حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔

میں نہایت احترام کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں دنیا کے عظیم مفکر کارل مارکس کی تصانیف ملتی ہیں۔ مارکس کے فلسفے کو مختصر اور جامع انداز میں پیش کرنے والی افاناسنیف کی کتاب "مارکسی فلسفہ”میں جدلیاتی قوانین اور فرد کے تاریخی کردار پر نہ صرف روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ اس کی اہمیت کو بڑے خوبصورت اور سائنسی انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح ولادیمیر لینن کی کتاب "قومی مسئلہ اور اس پر تنقیدی جائزہ” میں قومی مسئلے کے وجود، اس کی آزادی اور حقانیت کی نہایت عالمانہ اور جامع تشریح موجود ہے۔
یہ فکری سرمایہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ فرد کا کردار تاریخ میں کبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل فرد ہی قوم کی اجتماعی تحریک کو جِلا بخشتا ہے۔ بلوچ تحریکِ آزادی کے تناظر میں بھی یہ حقیقت صاف دکھائی دیتی ہے کہ چاہے وہ طلبہ تنظیموں میں کردار ادا کرنے والے نوجوان ہوں یا پہاڑوں میں لڑنے والے سپاہی، ان کی قربانیاں مجموعی قومی شعور کو تقویت دیتی ہیں۔ فرد اپنی جدوجہد کے ذریعے قوم کو توانائی دیتا ہے اور قوم اپنی اجتماعی قوت سے فرد کو سمت فراہم کرتی ہے۔ یہی جدلیاتی رشتہ تاریخ کے دھارے کو آگے بڑھاتا ہے۔

اگر تحریک کو طبقاتی اور جدلیاتی رخ سے دیکھا جائے تو لمپان پرولتاریہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ مارکسی لٹریچر میں اس طبقے کی مختلف تشریحات ملتی ہیں لیکن تاریخی تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ انہی میں سے ایک خاص تعداد نے آزادی کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ہماری جنگِ آزادی میں بھی ایسے نوجوان ہیں جو اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سے کئی شہید ہو چکے ہیں اور بے شمار آج بھی محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرنا تاریخ کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہوگا۔

میرا مقصد قطعی یہ نہیں کہ بلوچ تحریکِ آزادی کو سوشلسٹ تحریک قرار دیا جائے لیکن ایک تاریخ کے طالبِ علم کی حیثیت سے میں جدلیاتی قوانین کو تعظیم کی نظر سے دیکھتا ہوں اور اکثر دوستوں سے اس پر بحث و مباحثہ کرتا رہتا ہوں۔ ہماری تحریک آزادی کی بنیاد سیکولر، روشن خیال اور انسان دوستی کے اصولوں پر ہے۔ یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو قربانی اور ایثار کے جذبے سے سرشار ہے اور دنیا کی دوسری محکوم اقوام کے لیے مثال بن سکتی ہے۔ ہماری جدوجہد کے اثرات کسی حد تک ہمارے ہمسایہ اقوام پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور انہوں نے اس سے مثبت تاثر حاصل کیا ہے۔

میری نظر میں کوئی بھی فرد، گروہ یا تنظیم اگر آزادی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے تو وہ دراصل قومی آزادی کے نظریے کو تقویت دے رہا ہے۔ گزشتہ چھتیس برسوں کی طلبہ سیاست سے لے کر جنگِ آزادی کے ایک سپاہی کی حیثیت سے میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آزادی کی راہ میں قربانی دینے والا ہر ساتھی تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔

لیکن میں یہ بھی کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ بطور قوم ہماری ایک کمزوری ہے، ہم اپنے ہی دوستوں کو نیچا دکھانے میں جلدی کرتے ہیں، قیادت کے فطری ارتقا اور تاریخی عمل کا صبر سے انتظار کرنے کے بجائے اسے سازش قرار دے دیتے ہیں اور یوں برداشت کی کمی ہماری اجتماعی قوت کو کمزور کر دیتی ہے۔ یہ رویہ دشمن سے زیادہ خود ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر ہم واقعی آزادی کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس تنگ ظرفی کو ترک کرنا ہوگا اور فولادی اتحاد و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔ تاریخ صبر آزما ہوتی ہے اور وہی قومیں سرخرو ہوتی ہیں جو اپنے اندر استقامت، برداشت اور قربانی کی قوت پیدا کرتی ہیں۔

تاریخی حوالے سے دیکھیں تو بلا جھجک کہا جا سکتا ہے کہ قیادت کے معاملے میں ہماری تحریک میں بتدریج نشوونما ہو رہی ہے لیکن قیادت کے لیے کچھ اوصاف ایسے ہیں جن کی کمی ہم سب میں موجود ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں خود تنقیدی اور خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ اگر ہم اسے انقلابی ارتقا پر چھوڑ دیں تو بعض دوست یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ انقلاب خود تبدیلی کا نام ہے تو ارتقا کہاں سے آ گیا؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انقلاب کوئی جامد شے نہیں، بلکہ مسلسل ارتقا کا عمل ہے، جس میں غلطیوں سے سیکھنا لازمی ہے۔

اگر ہم تاریخ کی بڑی انقلابی شخصیات کو دیکھیں تو وہ بھی غلطیوں سے مبرا نہیں رہے۔ ماؤ زے تنگ کا ثقافتی انقلاب ہو یا ڈاکٹر چے گویرا کا بولیویا میں مقامی قیادت کو نظرانداز کرنا، یہ سب تاریخ کے سبق ہیں۔ لیکن ان غلطیوں کے باوجود ماؤ اور چے کی عظمت ناقابلِ تردید ہے کیونکہ ان کی زندگیاں قربانی، مزاحمت اور انسان دوستی کی روشن مثال ہیں۔

ڈاکٹر چے گویرا دنیا کے تمام انقلابیوں کے لیے ایک عظیم رہنما ہیں اور میرے لیے بھی وہ بے حد محترم ہیں۔ البتہ ہر قوم کے اپنے مخصوص حالات اور اپنی زمینی حقیقتیں ہوتی ہیں۔ میرا اختلاف چے گویرا سے ان کی عظمت کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی تحریک کو اپنی سرزمین کی حقیقت کے مطابق ڈھالنے کے لیے ہے۔ یہی فرق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کوئی بھی تحریک جب اپنی سرزمین کی مخصوص سماجی اور تاریخی حقیقتوں کو نظرانداز کرے تو وہ مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے میں چے کا احترام کرتے ہوئے بھی اپنی راہ وہی اختیار کرتا ہوں جو بلوچ قوم کے حالات سے مطابقت رکھتی ہے۔

حرفِ آخر:
یہ سطور کسی بحث کو طول دینے یا کسی کے موقف کی تصدیق یا تردید کے لیے نہیں، بلکہ ایک انقلابی طالب علم کے طور پر میرا ذاتی تجزیہ اور تاریخ سے اخذ کردہ چند خیالات ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تربت: شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو 9 سال مکمل، احتجاجی ریلی و سینمار کا انعقاد

ہفتہ اکتوبر 4 , 2025
تربت میں لاپتہ طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو 9 سال مکمل ہونے پر اُن کے اہلِ خانہ اور بلوچ ویمن فورم کی جانب سے احتجاجی ریلی اور پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا۔ ریلی کی قیادت بلوچ ویمن فورم کی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ اور سیما […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ