
تحریر۔ رامین بلوچ
تاریخ کے کروٹ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو تاریخ کو جَنتے ہیں، جو اپنی فکر کی کوکھ سے عہد نو کو جنم دیتے ہیں۔ یہ محض کردار نہیں بلکہ وہ تخلیقی توانائی ہیں جس سے انسانی شعور اپنی سمتیں متعین کرتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ تاریخ کے ہر عہد میں آزادی کے لیے برسرِ پیکار سورما قابض کی لغت میں دہشت گرد ٹھہرتے ہیں۔ لغت کی یہ منفی تعریف دراصل استعمار کے ہاتھوں لکھی جاتی ہے، وہی استعمار جسے خوف ہے کہ کہیں غلام ذہن آزاد نہ ہوجائے، کہیں مقبوضہ روح اپنی زنجیریں مسل کر پاش پاش نہ کر ڈالے۔ افریقہ کی آزادی کے بانی نیلسن منڈیلا کو دورانِ جدوجہد استعماری لغت میں "دہشت گرد” اور "غدار” کہا گیا، مگر آزادی کے بعد انہیں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ انہوں نے 1940 کی دہائی میں افریکن نیشنل کانگریس (ANC) میں شمولیت اختیار کی۔ 1960 میں شارپ ویل قتلِ عام (Sharpeville Massacre) کے بعد، جس میں 69 نہتے سیاہ فام مظاہرین کو نوآبادیاتی پولیس نے گولیوں سے بھون ڈالا، منڈیلا نے حالات کا گہرا جائزہ لیا اور اسی پس منظر میں "اومکھونٹو وے سیزوے” (Umkhonto we Sizwe – MK) نامی مسلح گوریلا تنظیم کی تشکیلِ نو کی۔ اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ "جب تمام پرامن راستے بند ہو جائیں تو مسلح مزاحمت جائز ہو جاتی ہے۔”
1962 میں منڈیلا گرفتار ہوئے اور "ریوونیا ٹرائل” میں ان پر "دہشت گردی” اور "بغاوت” کے الزامات عائد کیے گئے۔ اس مقدمے کے نتیجے میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور وہ 27 برس تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رہے۔ ان پر "تشدد پر اکسانے”، "ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچانے” اور "دہشت گردی” جیسے سنگین الزامات لگائے گئے۔ امریکی اور برطانوی حکومتوں نے برسوں تک انہیں اپنی "دہشت گردوں کی فہرست” میں شامل رکھا، حتیٰ کہ وہ دہائیوں تک امریکہ کی "واچ لسٹ” پر بھی رہے۔مگر تاریخ نے ی ثابت کیا کہ وہ "دہشت گرد” نہیں بلکہ آزادی اور انسانی برابری کے سب سے بڑے عَلَم بردار تھے۔ 1993 میں نیلسن منڈیلا کو نوبل امن انعام دیا گیا۔
انگریز استعمار کی لغت میں بھگت سنگھ ’’دہشت گرد اور مجرم‘‘ تھے، کیونکہ وہ سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، مگر وقت نے دکھا دیا کہ لغت بدل جاتی ہے مگر قربانی کا مفہوم نہیں بدلتا۔ آج بھگت سنگھ ہندوستان کے ہیرو ہیں، وہ جنہیں تختہ دار پر لٹکا کر انگریز نے مٹانے کی کوشش کی، تاریخ نے انہیں امر کر دیالغت بدلتی رہتی ہے، قابض کے الفاظ وقت کے ساتھ بوسیدہ ہو جاتے ہیں، مگر قربانی اور مزاحمت کی تاریخ کبھی مسخ نہیں ہوسکتی۔بھگت سنگھ نے یہ ثابت کر دیا کہ ہیرو وہ نہیں ہوتے جنہیں درباری کے مورخ عظیم لکھیں، بلکہ وہ ہوتے ہیں جو سولی پر چڑھ کر بھی اپنی قوم کو حوصلہ اور اپنی نسلوں کو آزادی کی جستجو عطا کریں۔ استعمار کے نزدیک وہ دہشت گرد تھے، مگر حقیقت میں وہ انسانیت کے معمار تھے۔ وہ نوجوان جو قید میں بھی کتاب کو ہتھیار سمجھتا ہے، اور جو پھانسی کے پھندے کو آزادی کی سیج بناتا ہے، وہ تاریخ کے ہر ورق پر زندہ رہتا ہے۔اسی طرح کم ال سنگ، سبھاش چندر بوس، ، ڈاکٹر چے، فیڈل کاسترویہ سب ایک ہی نوآبادیاتی لغت کے باغی دہشت گرد اور غدار ٹھہرے، مگر وقت کی گردش نے لغت کے قیدیوں کو تاریخ کے امام بنا دیا۔ آج دنیا انہیں آزادی، وقار اور انسانیت کی علامت سمجھتی ہے۔
بالکل اسی طرح قابض پاکستانی ریاست بلوچ وطن پر اپنی غیر فطری تسلط کو جائز ثابت کرنے کے لیے لغت کو ہتھیار بناتی ہے۔ اس کی لغت میں آزادی کے متوالے "دہشت گرد” ٹھہرتے ہیں۔ یہی لغت اس کے نوآبادیاتی بیانیے کی پہلی دیوار ہے، جو ریاستی نصاب میں سرایت کرتی ہے، میڈیا پر دہرائی جاتی ہے، سیاست دانوں کی زبان سے نکلتی ہے اور مذہبی واعظین کے فتووں میں گونجتی ہے۔ اس لغت کے پیچھے ایک پوری مشینری کھڑی ہے: آئی ایس پی آر کی تحریری و بصری فیکٹریاں، نوآبادیاتی میڈیا کے مالکان، پرنٹ و الیکٹرانک چینلز کے کارندے، ڈیجیٹل پروپیگنڈا کے اہلکار اور ان کے مقامی گماشتے۔ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ایک ہی جھوٹ دہراتے ہیں۔ ان کا بیانیہ اتنا بھونڈا اور مضحکہ خیز ہے کہ بلوچ سورماؤں کو کبھی باغی، کبھی ہندوستان کے فتنہ پرور ایجنٹ اور کبھی بیرونی سازش کا مہرہ کہا جاتا ہے۔ یوں آئی ایس پی آر کی لغت میں نت نئے الزامات اور اصطلاحات گھڑی جاتی ہیں۔لیکن یاد رکھا جائے کہ اس کھیلِ لغت میں سب سے بڑا انصاف کرنے والا تاریخ ہے۔ تاریخ لفظوں کی نقاب کشائی کرتی ہے، جھوٹ کے پردے چاک کر دیتی ہے۔ آج اگر بلوچ آزادی کے جہدکار ریاست کی لغت میں دہشت گرد ہیں، تو کل یہی کردار تاریخ کے اوراق میں آزادی کے امام بنیں گے۔ پس تحریر یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی ریاست کی لغت دراصل ایک مکروہ نرسری ہے، جو جھوٹ اور جبر کی پرورش کرتی ہے۔
استعمار اور آزادی کا رشتہ کبھی متوازن نہیں رہتا، کیونکہ دونوں کی ماہیت ہی ایک دوسرے کی ضد ہے۔ استعمار عارضی اور مصنوعی ہے، جبکہ آزادی ابدی اور فطری۔ استعمار کا وجود ہمیشہ زبردستی اور جبر پر قائم ہوتا ہے، جبکہ آزادی انسان اور سماج کی فطری سانس ہے۔ یہ دو متوازی قوتیں کبھی ہم آہنگ نہیں ہوسکتیں، کیونکہ ان کی بنیادیں ہی متصادم ہیں۔فطرت توازن اور آزادی پر استوار ہے۔ ہوا ہر خالی جگہ کو پُر کرتی ہے، پانی اپنی سطح تلاش کرتا ہے، پودے روشنی کی طرف بڑھتے ہیں۔ لیکن استعمار اس فطری بہاؤ کو توڑنے کی کوشش ہے۔ یہ ایک ایسا "عارضی خلل” ہے جو انسانی شعور، سماج اور تاریخ پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اسی لیے استعمار لمحاتی ہوتا ہے، کیونکہ یہ فطرت کے بنیادی اصول کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔آزادی صرف سیاسی یا جغرافیائی اصطلاح نہیں، بلکہ یہ ایک حیاتیاتی، سماجی اور فکری اصول ہے۔ انسان غلامی اور جبر کو مستقل طور پر قبول نہیں کرسکتا۔ اس کے شعور میں آزادی کی طلب جینیاتی طور پر پیوست ہے۔ یہ وہی قوت ہے جو غلام کو مزاحمت پر اکساتا ہے، نوآبادی کو سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے، اور غلام کو مزاحمت کی طرف دھکیلتا ہے۔ جہاں جبر ہوگا، وہاں مزاحمت لازمی طور پر پیدا ہوگی، کیونکہ مزاحمت جبر کی پیداوار ہے۔ یہ تاریخ کا اصول ہے کہ ہر قبضہ، ہر زنجیر، ہر تسلط کے خلاف ایک ردعمل بھی جنم لیتا ہے۔غلامی کا نظام تھا تو اسپارٹیکس کی مزاحمت اٹھی۔
نوآبادیات کا دور آیا تو ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں انقلابی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔سامراجی قبضہ ہوا تو چی گویرا، بھگت سنگھ، منڈیلا اور فیڈل کاسترو جیسے کردار ابھرے۔یہی تاریخ کا دیالیکٹکس ہے: جبر اور مزاحمت لازم و ملزوم ہیں۔استعمار ایک عارضی "وقفہ” ہے، جو فطری بہاؤ کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ وقفہ جتنا طویل ہوتا ہے، مزاحمت اتنی ہی شدید اور انقلابی ہوجاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ استعمار اپنی تھکن، جرائم ،بحران تضادات اور ناانصافیوں کے بوجھ تلے بکھر جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آزادی ہمیشہ تازہ، توانائی سے بھرپور اور زندگی بخش قوت کے طور پر ابھرتی ہے۔تاریخ کی پیش رفت مزاحمت کی دین ہے۔ اگر مزاحمت نہ ہوتی تو انسان ابھی تک غلامی کے عہد میں جکڑا رہتا۔ ہر ترقی، ہر آزادی، ہر انقلاب کے پیچھے مزاحمت ہی کارفرما ہے۔ یہ محض ردعمل نہیں، بلکہ ایک تخلیقی عمل ہے جو نئی دنیا کی بنیاد رکھتا ہے۔
تاریخ ایک مردہ دستاویز یا خشک واقعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ وجود ہے۔ وہ لمحہ بہ لمحہ سانس لیتی ہے، محسوس کرتی ہے، دیکھتی ہے اور فیصلہ محفوظ کرتی ہے۔ اس کا وجود محض ماضی کے نقشوں میں محدود نہیں، بلکہ یہ ہر حال، ہر جدوجہد، ہر مظلوم اور ہر آزاد انسان کے عمل میں زندہ رہتی ہے۔تاریخ کا کام صرف واقعات کو ریکارڈ کرنا نہیں، بلکہ انسانی شعور، کردار اور جدوجہد کے معیار کو جانچنا بھی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کون اپنے وقت کے جبر کے سامنے جھک گیا، اور کون سامراجی لغت میں "دہشت گرد” لکھے جانے کے باوجود آزادی، وقار اور انسانیت کی بنیاد رکھتا ہے۔ تاریخ کا قلم صبر سے چلتا ہے، مگر جب وہ فیصلہ کرتا ہے تو یہ ایک دائمی اثر چھوڑتا ہے، جیسے پتھر پر کندہ لکیر کبھی مٹتی نہیں۔جہاں بھی ظلم، قبضہ یا سامراج ہوتا ہے، وہاں مزاحمت ایک لازمی قوت کے طور پر جنم لیتی ہے۔ یہ محض ردعمل نہیں، بلکہ ایک فطری اور لازمی عمل ہے۔ تاریخ اس مزاحمت کو محض نوٹ نہیں کرتی، بلکہ اسے اپنی زندگی میں جذب کرتی ہے۔ ہر تحریک، ہر انقلاب، ہر آزادی پسند جدوجہد تاریخ کی سانس میں شامل ہو جاتی ہے اور آنے والے مستقبل کے لیے معیار بن جاتی ہے۔تاریخ کا قلم صبر والا ہے، یہ جلدی فیصلہ نہیں کرتا۔ یہ ہر واقعہ، ہر کردار اور ہر جدوجہد کو پرکھتا ہے، تضادات اور سماجی پس منظر کو سمجھتا ہے۔ مگر جب تاریخ لکھ دیتی ہے، تو یہ فیصلہ دائمی اور ناقابل تردید ہوتا ہے۔ جیسے پتھر پر لکیر کبھی مٹتی نہیں، ویسے ہی تاریخ کے فیصلے وقت کے دھارے میں بھی مستقل رہتے ہیں۔تاریخ کی نگاہ میں مزاحمت انسانی شعور، اخلاقی اصول، اور کائناتی انصاف کا مظہر ہے۔ وہ دکھاتی ہے کہ ظلم اور جبر کے خلاف اٹھنے والا انسان محض اپنے عہد کا نہیں، بلکہ آنے والے ہر وقت کے لیے مثال ہے۔ یہی وہ اصول ہے جو انسانی تمدن کو ارتقا کی راہ دیتا ہے اور سامراجی لغت کی عارضی تعریفوں کو ہمیشہ کے لیے بے اثر کر دیتا ہے۔
آج بلوچ آزادی کے سپاہی، شہید، اسیر اور گمشدہ فرزندانِ وطن تاریخ کی کوکھ میں پیدا ہونے والی مزاحمت کی وہ توانائی ہیں جو ہر جبر، ہر قبضہ، ہر نوآبادیاتی طاقت کے خلاف فطری ردعمل کے طور پر جنم لیتی ہے۔قابض طاقتیں اپنی لغت میں مزاحمت کو "دہشت گردی”، "انتہا پسندی” اور "باغی پن” کے عنوانات میں گھلانے کی کوشش کرتی ہیں۔، کیونکہ وہ صرف طاقت کے مطابق حقائق کو گڑھتی ہے۔ مگر تاریخ آگاہ ہے باخبر ہے کہ کوئی بھی مصنوعی لغت جو جبر کو درست ثابت کرنے کے لیے حقیقت کو مسخ کرتی ہے، اس کی کوئی حیثیت، اثر اور مقام نہیں ہوتی وقت کے ساتھ، وہ لغت جو آج مظلوم کے لیے عارضی سزا کے طور پر لکھی گئی ہے، اپنے آپ میں اپنی شکست کی گواہ بن جائے گی۔ آنے والے کل میں بچے، نوجوان اور نئی نسل بلوچ شہداء کے نام کو آزادی کی نصابی سطروں میں پڑھیں گے، ان کے قدموں کی جرات کو پہچانیں گے، اور ان کی فکر و نظریہ کو اپنی شناخت کا آئینہ بنائیں گے۔ یہ وہ تاریخی عمل ہے جس میں مزاحمت اور حقیقت کی فتح یقینی ہے۔
اصل سوال کبھی یہ نہیں ہوتا کہ آج قابض اور نوآبادیاتی نظام ان کو کس لفظ میں ڈھالتا ہے، کہ آیا وہ "دہشت گرد” ہیں یا "غدار”؛ اصل سوال یہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کل ان کے بارے میں کیا لکھے گی۔ کیونکہ تاریخ کا معیار صرف قابض کی لغت یا طاقت کی زبان نہیں، بلکہ انسانی شعور کی عدالت اور وقت کی انصاف پسندی ہے۔ تاریخ ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے جو ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جو آزادی اور وقار کے لیے اپنی جان، وقت اور توانائی قربان کرتے ہیں۔
کل تک جو تحریکیں اور افراد اقوام کی آزادی کی تاریخ میں قابض اور طاقتور نوآبادیاتی مشینری کے لیے خطرہ سمجھے جاتے تھے، آج تاریخ نے انہیں آزادی کے امام کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ آزادی کبھی طاقت یا سرکاری لغت سے نہیں ملتی، بلکہ قربانی، حوصلے اور ایمان کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ آزادی کی جدوجہد ایک شعوری عمل ہے، ایک فکری تحریک، جو نہ صرف ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتی ہے بلکہ آنے والے وقت کی سمت بھی متعین کرتی ہے۔قابض کی لغت میں "دہشت گرد” وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اپنی قوم کی آزادی اور انسانی وقار کے لیے اصولوں پر ڈٹے رہتے ہیں، لیکن تاریخ ان لغات کی قید میں نہیں آتی۔ تاریخ ان کے کردار، فیصلوں، قربانیوں اور بصیرت کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ تاریخ کی نظر میں وہ دہشت گرد نہیں، بلکہ محسن ہیں جنہوں نے انسانی شعور کے افق کو وسیع کیا، انصاف کی روشنی جلائی، اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ آزادی ہر قیمت کے ساتھ حاصل کی جاتی ہے۔ وہی لوگ تاریخ کے روشن باب میں زندہ رہتے ہیں، کیونکہ تاریخ کبھی ظلم کے ساتھ نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔
بلوچ شہداء جہد کار اور مزاحمت کار کی تاریخ کوئی سنگی کتبہ نہیں، جس پر وقت کے زرد پتوں کے سائے میں تاریخ کی سرد کہانیاں لکھی ہوں۔ بلکہ وہ ایک زندہ عہد ہیں، وہ نظریات ہیں جو موت کے پردے کے پار بھی زندہ رہتے ہیں، اور وہ تاریخ ہیں جو صرف ماضی کا احاطہ نہیں کرتیں بلکہ مستقبل کی سمت متعین کرتی ہیں۔ان کے خون نے زمین کے ہر ذرّے میں ایک عہد باندھا ہےعہد وفا، عہد آزادی، عہد قربانی ، جو ہر نسل کو جگاتی ہے کہ آزادی صرف لفظ نہیں بلکہ عمل، استقامت اور قربانی کا مجموعہ ہے۔ جب ہم پہاڑوں کی صدا، صحرا کی خاموشی اور دریاؤں کے شور میں ان کی للکار سنتے ہیں، تو یہ صرف یادگار کی صدا نہیں، یہ نظریات کی گونج ہے۔ وہ صرف جسمانی طور پر نہیں، بلکہ نظریاتی اور اخلاقی سطح پر بھی زندہ ہیں۔ ان کے بندوق، مکالمہ گیت اور شاعری کی لَہر ہر اور ہر خاموش لمحے میں آزادی کی ہکل ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوتی، کیونکہ وہ خون کے رنگ سے، گیتوں کے سُروں سے، اور نظریات کی لَہر سے ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔