
تحریر: دودا بلوچ
زرمبش مضمون
اسلام جان!
میں لفظوں میں قید نہیں کر سکتا وہ رشتہ جو ہمارے بیچ تھا؛
وہ ہنسی جو گلیوں میں گونجتی تھی،
وہ راتیں جب خواب نہیں بلکہ عہد بُنتے تھے،
وہ دن جب ہماری بحثیں جنگ سے بڑھ کر محسوس ہوتیں،
اور وہ لمحے جب نظریہ ہمارے خون میں دوڑتا تھا۔
تم صرف ایک دوست نہیں تھے،
تم میرا سہارا تھے؛
وہ شانہ جہاں اپنی تھکن رکھ کر میں ہلکا ہو جایا کرتا تھا۔
اب تم نہیں ہو، اور یوں لگتا ہے جیسے کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو۔
ہر سانس میں کمی، ہر راہ میں خاموشی
تمہاری غیر موجودگی کا ایک نہ ختم ہونے والا رواج بن گیا ہے۔
اسلام جان!
راتیں تمہارے نام کی صداؤں سے جگمگا اٹھتی ہیں،
اور دن تمہاری یاد کی شمع سے روشن ہوتے ہیں۔
تمہاری وہ مسکان جو کبھی آسائش تھی،
آج سکونِ ماضی بن گئی ہے۔
اور تمہاری خاموشی میرے کانوں میں گونجتی،
میرے دل پر طاری رہتی ہے۔
یاد ہے وہ پہلی ملاقات؟
وہ اسپتال جہاں سادہ چاول بھی عید لگتے تھے،
جہاں کتابیں ہاتھوں میں گردش کرتیں،
اور نظریے کی خوشبو دیواروں میں بسی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔
اور وہ تمہارا کمرہ، جو قہقہوں سے گونجتا تھا،
اب محض ایک خاموش چار دیواری رہ گیا ہے،
مگر تمہاری آواز اب بھی
میرے دل کی دیواروں پر دستک دیتی ہے۔
جب تمہاری شہادت کی خبر ملی،
اس نے میرے دل کو چیر کر رکھ دیا۔
لیکن تمہاری باتوں نے میرے اندر ایک چراغ روشن کر دیا
وہ آواز، جس میں صداقت تھی؛
وہ لہجہ، جس میں خلوص اور ایمانداری تھی؛
اور وہ آنکھیں، جو بتا دیتی تھیں کہ یہ سفر آسان نہیں، مگر ناممکن بھی نہیں۔
یاد ہیں وہ راتیں؟
سادہ چاول، رات کے دو بجے تک ہاتھوں میں کتابیں،
چھوٹی چھوٹی شرارتیں…
اور وہ رات بھی کیا یادگار رات تھی
جب میں نے تمہیں ہنسی میں "سگار” کہا تھا،
اور تم نے ہنستے ہوئے کہا تھا:
"اگر میں تنظیم میں شامل ہوا تو اپنا نام سگار رکھوں گا،
اب میرا نام یہی ہوگا۔”
وہ سب یادیں اب داستان بن کر میرے دل میں زندہ ہیں۔
تم نے مجھے سکھایا کہ نظریہ کتابوں کا قیدی نہیں؛
یہ ایک مقصد ہے، ایک عمل ہے، ایک قربانی ہے۔
جب جنگی میدان میں ہوا کانٹے کی طرح سخت ہوتی تھی،
تمہاری مسکان راستہ نرم کر دیتی تھی،
اور تمہارے قدم مضبوطی سے زمین پر جم جاتے تھے۔
تم نے کہا تھا:
"خوف کو دل میں دفن کر دو اور حقیقت کو سامنے رکھو،
کیونکہ غلامی حقیقت سے جنم لیتی ہے۔
ہم اپنی زمین اور وطن کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے۔”
اور تم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا۔
پھر وہ صبح آئی جو کبھی نہیں آنی چاہیے تھی
ایک اجنبی دن، جس نے میری دنیا بکھیر دی۔
آٹھ مہینوں کی بےخبری کے بعد جب تمہاری شہادت کی خبر پہنچی،
تو اس نے میرے دل کے زخم پر نمک چھڑک دیا۔
یوں لگا جیسے جسم کا ایک حصہ مجھ سے جدا ہو گیا ہو۔
میں بے بسی کے ساتھ کھڑا رہ گیا،
مگر تمہاری قربانی نے مجھے کمزور نہیں بلکہ اور مضبوط بنا دیا۔
اسلام جان، تمہاری شہادت ایک روشنی ہے۔
یہ قربانی کبھی ضائع نہیں ہوگی،
یہ تاریخ کا وہ باب ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مثال رہے گا۔
تمہاری ہر بات، ہر قدم، ہر جدوجہد
ہمیں سکھاتی رہے گی کہ آزادی کی راہ کیسے طے کرنی ہے۔
یہ زخم، جو میرے دل میں سیاہ داغ بن کر رہ گیا ہے،
ہمیں مزید لڑنا سکھائے گا اور ہمیں مضبوط کرے گا۔
جب شب گیر ہوتا ہے اور تنہائی کا سایہ گہرا ہو جاتا ہے،
جب حوصلے تھکنے لگتے ہیں،
میں تمہیں دیکھتا ہوں
تمہاری ہنسی کی روشنی، تمہاری باتوں کی رہنمائی،
میری راہوں کو منور کر دیتی ہیں۔
اور جب وقت قلم اٹھا کر تاریخ لکھے گا،
تو تمہارا نام سنہری حرفوں میں درج ہوگا
ایک ایسا نام جو قربانی، وفا اور سچائی کا نشان ہوگا۔
الوداع، میرے دوست!
یہ آواز جو آنسوؤں میں بھیگی ہوئی ہے،
یہ وعدہ ہے کہ تمہاری راہ میری راہ ہوگی،
تمہاری جدوجہد میری جدوجہد۔
وہ وعدہ جو ہم نے ہنسی میں کیا تھا،
آخری سانس تک نبھایا جائے گا۔
اسلام جان، تم زندہ ہو
میرے دل کی دھڑکن میں،
میرے لفظوں کی جڑوں میں،
اور تمہاری قربانی مجھے ہر لمحہ یاد دلاتی ہے
کہ یہ سفر ابھی باقی ہے۔
شہیدِ اسلام — میرا جگر دوست!