
آج اسلام آباد میں بلوچ خاندانوں کے پرامن دھرنے کو 69 دن مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ دھرنا بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی فوری اور محفوظ رہائی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ لے کر جاری ہے۔
اس حوالے سے بزرگ بلوچ رہنما میر محمد علی ٹالپور نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے میں گزارش کرنے کے لیے میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ میری بہنیں اور بیٹیاں اسلام آباد میں 69 دن سے احتجاج میں بیٹھی ہیں، اپنے مطالبات منوانے کے لیے کہ جبری گمشدہ لوگوں کو بازیاب کیا جائے اور بی وائی سی کے جو رہنما ماہ رنگ ، بیبو، گلزادی، اور شاہ جی سمیت باقی لوگ جو زیرِ حراست ہیں ان کو رہا کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ 69 دن سے کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا۔ شہر کے چند لوگ، جن میں کچھ احساس رکھنے والے تھے، ان کے پاس آئے، ان سے باتیں کیں، ان کے درد کی کہانیاں سنیں اور ہمدردی کی۔ لیکن جن کے لیے وہ اصل میں مخاطب تھیں، یعنی جن پر ان گرفتاریوں اور گمشدگیوں کی ذمہ داری ہے، ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا۔ حکومت کی طرف سے کوئی موجود نہیں ہوا۔
میر محمد علی ٹالپور نے کہا کہ اب 69 دن گزرنے کے بعد اگر حکمران ان کی بات نہیں سنتے تو یہ ان خواتین کی شکست نہیں ہے جو وہاں بیٹھی ہیں، بلکہ یہ شکست ان لوگوں کی ہے جو ان کی بات نہیں سن رہے اور ان کے مسائل کا حل نہیں نکال رہے۔ ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ مجرم بھی وہی ہیں جنہوں نے لوگوں کو گمشدہ کیا اور بی وائی سی کے رہنماؤں کو زیرِ حراست رکھا۔
انہوں نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اب اس سارے سلسلے میں، میرا خیال ہے کہ میری بہنوں اور بیٹیوں کو اس احتجاج کو خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کر دینا چاہیے۔ میں ان سے گزارش کرنے کے لیے یہ ویڈیو بنا رہا ہوں۔ ان کا مقصد بہت عظیم تھا، ان کے ارادے بہت پختہ تھے، اور وہ 69 دن سے وہاں بیٹھی رہیں۔ اگر چاہیں تو مزید بھی بیٹھ سکتی ہیں۔ لیکن بطور شریکِ سفر، دوست، مہربان اور بزرگ کی حیثیت سے میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ ان سے یہ عرض کروں کہ اب اس احتجاج کو ختم کریں۔
وہ مقصد جو حاصل کرنا تھا، وہ حاصل کر چکی ہیں۔ مقصد کیا تھا؟ یہ ظاہر کرنا کہ حکومت کے وہ تمام دعوے اور ڈھکوسلے, کہ وہ بلوچستان کے خیرخواہ ہیں، کہ وہ بلوچستان کے لیے زمینیں الاٹ کر رہے ہیں، ترقیاتی کام کر رہے ہیں یہ سب جھوٹے اور کھوکھلے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو بلوچوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں، وہ ان کے خیرخواہ نہیں۔
بلوچ مائیں اور بہنیں ہی وہ ہیں جو اپنے گمشدہ لوگوں کے لیے ہمدردی رکھتی ہیں۔ وہی ہیں جو اسلام آباد کی گرمی، بارش اور موسم کی سختیوں کے باوجود 66 دن سے ڈٹی ہوئی ہیں۔
آخر میں انہوں نے ایک بار پھر اپیل کی کہ بلوچ مائیں اور بیٹیاں اس احتجاج کو ختم کرکے واپس اپنے وطن آئیں۔
