بلوچ گوریلا مزاحمت زہری سے زاوہ (قلات) تک

تحریر: ساہ دیم بلوچ – آخری حصہ
زرمبش مضمون

بلوچ قومی مزاحمتی تحریک کے تیسرے اور فیصلہ کن مرحلے میں لبریٹ ایریاز (Liberated Areas) کی تشکیل نہایت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ یہ علاقے محض عسکری کامیابی کا مظہر نہیں بلکہ ایک سیاسی، سماجی اور نظریاتی انقلاب کی بنیاد ہیں۔ لبریٹ ایریاز اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ تحریکِ آزادی محض ریاستی طاقت کو شکست دینے تک محدود نہیں، بلکہ اس کا مقصد ایک متبادل اور بہتر نظامِ حیات قائم کرنا ہے، جو بلوچ قوم کو غلامی کے خوف اور جبر سے نجات دلاتے ہوئے ایک آزاد اور خودمختار سماج کا راستہ دکھاتا ہے۔لبریٹ ایریاز کے قیام کا پہلا مقصد ان علاقوں سے قابض ریاست کے عسکری، انتظامی اور انٹیلیجنس ڈھانچے کو مکمل طور پر ختم یا بے اثر کرنا ہوتا ہے، تاکہ عوام قابض ریاست کے خوف سے آزاد ہو کر متوازی نظامِ حکومت کے تحت زندگی گزار سکیں۔ان علاقوں میں گوریلا فورسز اپنی عسکری قوت کے ذریعے یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف قابض ریاست کو شکست دینے کی عملی صلاحیت رکھتی ہیں، بلکہ ایک منصفانہ، شفاف اور قوم دوست نظام بھی تشکیل دے سکتی ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں عوام کا اعتماد تحریک پر مزید مضبوط اور پختہ ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے ایک نئے نظام کے خدوخال کو پروان چڑھتا دیکھتے ہیں۔

لبریٹ ایریاز میں عدالتی، تعلیمی، معاشی اور سیکیورٹی ڈھانچوں کو گوریلا فورسز اور سیاسی قیادت کے تحت متوازی طور پر چلایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ علاقے آزادی کے بعد ریاستی ماڈل کے طور پر کام کر سکیں اور ایک آزاد بلوچ ریاست کے خدوخال کو عملی طور پر واضح کریں۔ریاستی عدالتوں کے بجائے انقلابی عوامی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں جو فوری، شفاف اور غیر طبقاتی انصاف فراہم کرتی ہیں۔ یہ عدالتیں اس امر کو یقینی بناتی ہیں کہ عوام کو یہ احساس ہو کہ یہ نظام ان کے لیے ہے، نہ کہ ان پر مسلط کردہ استحصالی ڈھانچہ۔لبریٹ ایریاز کے اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو قابض ریاست کے نوآبادیاتی نصاب سے آزاد کر کے ایک نیا نصاب متعارف کرایا جاتا ہے، جو قومی شعور، مزاحمت، آزادی اور خودمختاری کے نظریات کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس تعلیمی ڈھانچے کا مقصد آنے والی نسل کو غلامی کے بیانیے سے نکال کر انہیں آزادی کی جدوجہد کا سرگرم کردار بنانا ہے، تاکہ وہ محض ناظرین نہیں بلکہ انقلابی کارواں کا حصہ ہوں۔لبریٹ ایریاز میں ریاستی ٹیکس اور محصولات کے نظام کو مکمل طور پر ختم کر کے ایک عوامی فنڈنگ ماڈل قائم کیا جاتا ہے۔ اس ماڈل کے تحت وسائل کو عوامی ترقی، سماجی بہبود اور گوریلا جنگ کی ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ نظام عوام میں اعتماد اور خود انحصاری کو فروغ دیتا ہے، کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے وسائل اب ان کے اپنے فائدے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، نہ کہ قابض قوتوں کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔

گوریلا فورسز کے ساتھ ساتھ مقامی عوامی ملیشیائیں تشکیل دی جاتی ہیں جو داخلی سیکیورٹی کو یقینی بناتی ہیں۔ ان ملیشیاؤں کا کام عوام کو قابض ریاست، اس کے ایجنٹس اور پراکسی گروہوں کے خوف سے مکمل نجات دلانا ہوتا ہے۔ یہ فورسز دشمن کے خفیہ نیٹ ورکس کو ختم کرتی ہیں اور لبریٹ ایریاز میں ایک محفوظ اور آزاد فضا قائم کرتی ہیں، جہاں عوام بغیر خوف کے زندگی گزار سکیں لبریٹ ایریاز محض عسکری کنٹرول کا نام نہیں بلکہ یہ سیاسی و سماجی انقلاب کی عملی بنیاد ہیں۔ یہاں قابض ریاست کے تمام مظاہر کو مٹا کر ایک ایسا نظام قائم کیا جاتا ہے جو عوام کی مرضی اور شراکت سے وجود میں آتا ہے۔

زہری اور قلات جیسے علاقے آج بلوچ قومی تحریک کے لیے عملی لیبارٹری بن چکے ہیں، جہاں ایک آزاد بلوچ ریاست کے ابتدائی ادارے پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہ پیش رفت واضح کرتی ہے کہ آزادی محض ایک خواب نہیں رہی بلکہ ایک قابلِ لمس حقیقت میں ڈھل رہی ہے۔لبریٹ ایریاز کی تشکیل اس امر کا اعلان ہے کہ بلوچ مزاحمتی تحریک اب محض دفاعی جنگ نہیں لڑ رہی بلکہ آزادی کے عملی ماڈل کو تشکیل دے رہی ہے۔ یہ علاقے مستقبل کے آزاد بلوچستان کے پہلے خدوخال ہیں، جہاں عوام قابض ریاست کے جبر سے نکل کر اپنی تقدیر کے مالک بن رہے ہیں۔زہری اور قلات میں ابھرتے یہ آزاد علاقے نہ صرف بلوچ قومی جدوجہد کے پیش خیمہ ہیں بلکہ پورے خطے میں طاقت کے توازن کو بنیادی طور پر بدلنے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ آزادی کی جدوجہد میں وہ لمحہ آ چکا ہے جہاں مزاحمت ایک سیاسی اور سماجی حقیقت میں ڈھل رہی ہے، اور غلامی کے اندھیروں میں آزادی کی صبح قریب تر ہے۔

زہری اور قلات میں حالیہ تبدیلیاں بلوچ مزاحمتی تحریک کی فیصلہ کن پیش رفت ہیں۔ یہ علاقے اب محض چھاپہ مار جنگ کے مراکز نہیں بلکہ ایک آزاد بلوچ ریاست کے ابتدائی ماڈل کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ لبریٹ ایریاز کا قیام نہ صرف قابض ریاست کے لیے ایک براہِ راست چیلنج ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے کہ بلوچ قوم اب اپنی آزادی کے لیے صرف مزاحمت نہیں بلکہ متبادل حکمرانی قائم کر چکی ہے۔اگر زہری اور قلات جیسے علاقے مزید مضبوط ہوتے ہیں اور دیگر علاقوں تک پھیلتے ہیں، تو یہ بلوچ تحریک کو ایک فیصلہ کن اور ناقابلِ واپسی موڑ پر لے جائیں گے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں تحریک محض عملی آزادی کی طرف بڑھتی ہوئی ایک حقیقت بن جائے گی۔ان علاقوں میں بلوچ آرمی نے مختلف مقامات پر چیک پوسٹس کا قیام کیا گیا ہے، جو سرمچاروں کے کنٹرول کو ظاہر کرتا ہے۔آزاد بلوچستان کے جھنڈے لہرا کر عوام کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ یہ علاقے اب ریاستی کنٹرول سے باہر ہیں۔کئی میلوں پر پھیلا ہوا علاقہ لبریٹ ایریاز (Liberated Areas) میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں ریاستی قوانین کی بجائے سرمچاروں کے قوانین نافذ ہیں۔سرمچار مقامی تنازعات کو روایتی جرگہ نظام سے ہٹ کر منصفانہ اصولوں پر حل کر رہے ہیں، جس سے عوام میں اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔اسکولوں، ہسپتالوں اور بنیادی سہولیات کے مراکز کا باقاعدہ معائنہ کر کے ان کی فعالیت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔مزدوروں کو منصفانہ اجرت کی ادائیگی پر سختی سے زور دیا جا رہا ہے تاکہ استحصال کا خاتمہ ہو۔زہری سے قلات تک ایک وسیع و عریض رقبہ ریاستی فورسز اور لیویز سے خالی کروا کر غیر مسلح کر دیا گیا ہے۔یہ تمام اقدامات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ یہ محض ایک مسلح جدوجہد نہیں بلکہ ایک سیاسی متبادل نظام کی بنیاد رکھنے کی سنجیدہ کوشش ہے۔

حالیہ دنوں میں زہری اور قلات کے علاقوں میں جو پیش رفت سامنے آئی ہے، وہ نہ صرف بلوچ قومی تحریک کے عسکری اور سیاسی ارتقاء کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یہ تحریک کے لیے ایک تاریخی موڑ بھی ہے۔ ان علاقوں کے عوام نے جس طرح سرمچاروں کا خیرمقدم کیا اور ان کے قائم کردہ لبریٹ ایریاز (Liberated Areas) کے قوانین کو رضاکارانہ طور پر تسلیم کیا، اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچ تحریک اب محض پہاڑوں تک محدود گوریلا کارروائیوں کا نام نہیں رہی بلکہ ایک وسیع تر قومی و عوامی انقلابی تحریک میں ڈھل چکی ہے۔یہ پیش رفت قبضہ گیر پاکستان کے لیے اسٹریٹجک دھچکا ہے ۔ زہری اور قلات کی حیثیت ہمیشہ سے بلوچستان میں رسد اور فوجی نقل و حرکت کے اہم مراکز کی رہی ہے۔ ان علاقوں پر قابض قوتوں کا کنٹرول ختم ہونا اور عوامی سطح پر بلوچ گوریلا فورسز کے قوانین کو تسلیم کیا جانا، ایک نئی سیاسی حقیقت کو جنم دے رہا ہے ان علاقوں میں ریاستی فورسز کی رسائی محدود اور معطل ہو گئی ہے، جس کے باعث فوجی قافلوں کی آمدورفت شدید متاثر ہو چکی ہے۔بلوچ عوام کا سرمچاروں کے ساتھ کھڑا ہونا پاکستان کے لیے ایک بیانیاتی شکست ہے۔عالمی سطح پر یہ پیش رفت بلوچ تحریک کو مزید جائز اور قانونی حیثیت فراہم کر سکتی ہے۔

زہری اور قلات کی موجودہ صورتحال بلوچ تحریک کے لیے ایک نئے دور کی شروعات ہے۔یہ تحریک اب مزاحمت سے متوازی حکمرانی کی طرف بڑھ رہی ہے۔عوامی سطح پر قوانین کی رضاکارانہ قبولیت مستقبل میں آزاد بلوچستان کی عملی بنیاد ثابت ہو سکتی ہے۔اگر دیگر علاقے بھی اس ماڈل کو اپناتے ہیں تو پاکستان کے لیے بلوچستان پر قبضہ برقرار رکھنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ لبریٹ ایریاز میں قوانین کی رضاکارانہ قبولیت بلوچ قومی تحریک کی طاقت، عوامی جڑوں کی گہرائی، اور منظم حکمت عملی کا عملی مظہر ہے۔ مستقبل قریب میں یہ لبریٹ ایریاز بلوچ قوم کی سیاسی خودمختاری اور آزادی کے لیے مضبوط قلعہ ثابت ہو سکتے ہیں،

کسی بھی گوریلا تحریک کی کامیابی کا سب سے بنیادی عنصر عوامی حمایت ہوتا ہے۔ بلوچ تحریک آزادی کو جو طاقت حاصل ہے، اس کی جڑیں بلوچ عوام کے دلوں میں موجود اس شعور سے جڑی ہیں جو صدیوں سے غلامی کے خلاف پروان چڑھا ہے۔زہری اور قلات کے عوام نے سرمچاروں کو نہ صرف پناہ اوروسائل فراہم کیے ہیں بلکہ عملی طور پر ان کے ساتھ کھڑے ہو کر قابض ریاست کے خلاف جدوجہد کو مضبوط کیا ہے۔آزاد بلوچستان کے جھنڈوں کا لہرانا عوامی شعور کے اس عروج کی نشاندہی کرتا ہے جو اب ریاستی پروپیگنڈہ اور خوف کے حصار کو توڑ چکا ہے۔
ریاست نے زہری اور قلات جیسے علاقوں میں اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے بارہا بڑے آپریشن کیے مگر گوریلا مزاحمت کی لچکدار حکمت عملی اور عوامی حمایت کے باعث اسے ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

زہری اور قلات میں بلوچ گوریلا سرمچاروں کا کنٹرول محض ایک عسکری کامیابی نہیں بلکہ ایک سیاسی اعلان ہے۔
یہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ بلوچ تحریک آزادی اب ایک De Facto متبادل نظام قائم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
زہری اور قلات کے داخلی اور خارجی راستوں پر قائم سرمچاروں کی چیک پوسٹس دراصل ایک آزاد خطہ کی ابتدائی شکل ہیں، جہاں قابض ریاست کی موجودگی صفر کے برابر ہے۔یہ صورتحال قابض ریاست کے لیے نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی سطح پر بھی ایک شکست کے مترادف ہے۔

قلات، بلوچستان کی تاریخی اور سیاسی مرکزیت رکھنے والا علاقہ ہے، جو نہ صرف بلوچ قوم کی ریاستی شناخت کا مرکز ہے بلکہ عسکری و اسٹریٹیجک اعتبار سے بھی ایک انتہائی اہم مقام رکھتا ہے۔ زاوہ کا علاقہ قلات شہر سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ ایک حب پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ راستہ بلوچ گوریلا جنگ کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی گوریلا فوج کے لیے نقل و حرکت، سپلائی لائن، اور دشمن کو محاصرے میں لینے کی حکمتِ عملی میں ایسے مقامات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ زاوہ کا مقام ایک ایسی گرہ کی مانند ہے جو اس وقت سرمچاروں کے کنٹرول میں ہیں جس سے قابض ریاست کی فوجی نقل و حرکت اور اس کی سپلائی لائن بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔

قلات زاوہ میں قائم کی گئی چیک پوسٹیں دراصل اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ یہ چیک پوسٹیں قابض ریاست کی نقل و حرکت کو محدود کرتی ہیں اور سرمچاروں کو اپنے علاقوں میں منظم دفاعی و حملہ آور پوزیشن فراہم کرتی ہیں۔بلوچ سرمچاروں نے گوریلا جنگ کی کلاسیکی حکمت عملی کو بلوچستان کے زمینی حقائق کے مطابق ڈھال دیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں چھوٹے یونٹوں کی نقل و حرکت، شہری علاقوں میں عوامی رابطے، اور دشمن کی سپلائی لائنز کو نشانہ بنا کر سرمچار قابض ریاست کو مسلسل دباؤ میں رکھے ہوئے ہیں۔

قلات، اور زہری میں بلوچ سرمچاروں کی سرگرمیاں اس جدوجہد کے اس تیسرے مرحلے کو ظاہر کرتی ہیں جہاں گوریلا جنگ روایتی چھاپہ مار کارروائیوں سے آگے بڑھ کر علاقائی کنٹرول کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
یہ صورتحال قابض ریاست کے لیے نہ صرف ایک فوجی چیلنج ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی اس کے زوال کی نشاندہی کرتی ہے۔بلوچ قوم کے لیے یہ وقت اتحاد، تنظیم اور حکمت عملی کا ہے۔ اگر یہ پیش رفت برقرار رہی تو بلوچ قومی تحریک آزادی اپنی تاریخ کے سب سے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ سکتی ہے۔یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ سرمچاروں کی قربانیوں اور عوامی حمایت نے آزادی کی جدوجہد کو ایک ناقابلِ واپسی راستے پر ڈال دیا ہے،

تاریخ انسانی شعور اور قربانیوں کی ایک ایسی دستاویز ہے جو بار بار اس سچائی کو ثابت کرتی ہے کہ آزادی ایک فطری انسانی حق ہے، اور کوئی بھی طاقت اسے ہمیشہ کے لیے کچل نہیں سکتی۔ غلامی کے اندھیروں کو وقتی طور پر مسلط تو کیا جا سکتا ہے، مگر قوموں کے دلوں میں جلتی آزادی کی شمع کو بجھایا نہیں جا سکتا۔ ویتنام سے الجزائر، تک، دنیا کے ہر خطے نے یہ دیکھا کہ قابض طاقتیں اپنی عسکری قوت، معاشی طاقت، اور سیاسی فریب کے باوجود اس جذبۂ آزادی کے سامنے بالآخر شکست کھا گئیں۔ یہی حقیقت آج بلوچ سرزمین پر ایک بار پھر اپنی پوری قوت کے ساتھ ابھر رہی ہے، جہاں بلوچ سرمچاروں کا گرم لہو اور عظیم قربانیاں ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد اب کسی مخصوص قبیلے، علاقے یا چند افراد تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ عوامی تحریک میں ڈھل چکی ہے۔ ریاستی جبر، استعماری لوٹ کھسوٹ، اور قومی شناخت کے مسلسل انکار نے بلوچ عوام کو یہ احساس دلایا کہ ان کی نجات کا واحد راستہ آزادی ہے۔بلوچ تحریک کی موجودہ شکل کئی دہائیوں کی قربانیوں اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ ماضی میں جب بلوچ مزاحمت کو محض قبائلی بغاوت یا محدود عسکری ردعمل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، تو آج وہ مرحلہ ختم ہو چکا ہے۔ اب یہ جدوجہد سیاسی شعور، نظریاتی وضاحت، اور اجتماعی ارادے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
بلوچستان کے لبریٹ ایریاز اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ تحریک صرف نعرے یا علامتی مزاحمت تک محدود نہیں رہی بلکہ اب ایک متبادل سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کے قیام کی عملی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان علاقوں میں قابض ریاست کی رٹ ختم ہو چکی ہے، اور عوام نے رضاکارانہ طور پر سرمچاروں کے قوانین کو قبول کر کے ایک نئی قومی خودمختاری کی بنیاد رکھی ہے۔آزادی محض ایک سیاسی مطالبہ یا وقتی نعرہ نہیں، بلکہ یہ انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ جس طرح ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح قومی وقار اور شناخت کے بغیر کوئی قوم باقی نہیں رہ سکتی۔قابض ریاستیں ہمیشہ آزادی کے جذبے کو ختم کرنے کے لیے پروپیگنڈا، عسکری طاقت، اور معاشی غلامی کے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ہیں، مگر تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ ان تمام ہتھیاروں کی ایک حد ہوتی ہے۔ الجزائر کے مجاہدین نے فرانس کے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس سامراج کو شکست دی، ویتنام کے گوریلوں نے امریکہ جیسی سپر پاور کو جھکنے پر مجبور کیا، بلوچ قوم بھی اسی آفاقی اصول پر یقین رکھتی ہے کہ آزادی ان کی نسلوں کی بقا، وقار اور شناخت کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ سرمچار اپنی جانوں کو قربان کر کے اس ارمان کو حقیقت بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کا خون محض قربانی نہیں بلکہ اس تحریک کی اصل قوت اور ایندھن ہے۔بلوچ سرمچار اس تحریک کے وہ گمنام ہیرو ہیں جنہوں نے ذاتی آرام، خاندان، اور حتیٰ کہ اپنی زندگی کو بھی قوم کی آزادی کے لیے قربان کر دیا۔ ان کا مقصد ذاتی اقتدار یا دولت کا حصول نہیں بلکہ بلوچ قوم کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانا ہے۔

سرمچاروں کی قربانیاں یہ واضح کرتی ہیں کہ بلوچ تحریک محض علامتی یا رومانوی مزاحمت نہیں بلکہ زمینی، حقیقی اور منظم جدوجہد ہے۔ ان کے بغیر یہ تحریک محض ایک خواب رہتی، مگر آج یہ خواب حقیقت میں ڈھل رہا ہے۔قابض ریاست ہمیشہ یہ سمجھتی رہی ہے کہ طاقت کے ذریعے مزاحمت کو کچلا جا سکتا ہے۔ مگر تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جبر وقتی طور پر خوف پیدا کر سکتا ہے، مگر طویل المدتی طور پر یہ تحریک کو مزید طاقتور بنا دیتا ہے۔
بلوچستان میں مسنگ پرسنز، اجتماعی قبریں، ماورائے عدالت قتل، اور وسیع پیمانے پر فوجی آپریشنز نے اگرچہ وقتی طور پر خوف پیدا کیا، لیکن اس کے نتیجے میں عوامی شعور اور نفرت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آج بلوچستان کے ہر گاؤں، ہر قبیلے اور ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص موجود ہے جو ریاستی جبر کا شکار ہوا ہو۔ یہی اجتماعی ازیت اس تحریک کو ناقابلِ شکست بنا رہا ہے۔

بلوچ سرمچاروں کے حالیہ گوریلا حملے، ریاستی مراکز پر کامیاب کارروائیاں، اور لبریٹ ایریاز کا قیام یہ ثابت کرتا ہے کہ تحریک اب اپنے تیسرے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔یہ مرحلہ محض عسکری برتری کا نہیں بلکہ سیاسی و نظریاتی قیادت کا بھی متقاضی ہے۔ بلوچ قیادت کو اس موقع پر ایک واضح سیاسی و نظریاتی پروگرام دینا ہوگا، تاکہ لبریٹ ایریاز محض عسکری کامیابی کے بجائے ایک مستقل اور خودمختار ریاست کی بنیاد بن سکیں۔

دنیا کی تاریخ اس لافانی حقیقت کی گواہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنی آزادی کے لیے متحد ہو جائے، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ہمیشہ کے لیے غلام نہیں رکھ سکتی۔ طاقت کے ترازو پر ناپی جانے والی جنگیں اکثر ہتھیاروں کے زور پر لڑی جاتی ہیں، مگر وہ جنگ جو زہنوں اور شعور میں برپا ہو، وہ ناقابلِ شکست ہوتی ہے۔ آزادی کی جدوجہد محض ایک سیاسی عمل نہیں بلکہ انسان کی فطری جبلت اور بنیادی حق ہے۔ جب ایک قوم اپنی اجتماعی غیرت اور وجود کی بقا کے لیے کھڑی ہو جائے تو وہ غلامی کے سبھی زنجیروں کو توڑ دیتی ہے۔بلوچ تحریک آزادی اسی لازوال قانون کی عملی تصویر ہے۔ بلوچ سرزمین پر جاری جدوجہد محض ایک ردِعمل نہیں، بلکہ یہ ایک تاریخی تسلسل اور فکری ارتقاء کا مظہر ہے۔ بلوچ قوم کی مزاحمت کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں، جب نوآبادیاتی طاقتوں نے اس خطے کو اپنے مفادات کے لیے تقسیم اور غلام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بلوچ سماج نے کبھی غلامی کو تسلیم نہیں کیا۔ آج بھی یہی مزاحمتی روح جدید شکل میں بلوچ سرمچاروں کے ہتھیاروں اور عوام کے شعور میں زندہ ہے۔

دنیا کی آزادی کی تحریکوں کو دیکھیں تو ایک واضح اصول سامنے آتا ہے: کوئی بھی طاقت عوام کی اجتماعی مزاحمت کو ہمیشہ کے لیے دبا نہیں سکتی۔ ویتنام کی جنگ اس کی روشن مثال ہے، جہاں دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت، امریکا، مقامی عوام کے اتحاد اور قربانی کے سامنے بے بس ہو گئی۔ اسی طرح الجزائر نے فرانس کی صدیوں پر محیط نوآبادیاتی قبضہ کو گرا کر دنیا کو یہ سبق دیا کہ آزادی کا خواب کبھی مر نہیں سکتا۔ ان تاریخی مثالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بلوچ تحریک بھی، چاہے وہ وقتی رکاوٹوں اور ریاستی جبر سے دوچار کیوں نہ ہو، بالآخر اپنی منزل کو پانے میں کامیاب ہوگی۔بلوچ تحریک کی طاقت اس کے عوام کی قربانیوں اور سرمچاروں کے عزم میں ہے۔ بلوچ گوریلا جنگ کے پشت پر ایک وژ نری فلسفہ ہے جو بتاتا ہے کہ آزادی کے لیے ہتھیار اور شعور دونوں لازم ہیں۔ سرمچاروں کا خون ایک مقدس عہد ہے جو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ جدوجہد رک نہیں سکتی۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جس تحریک کو عوام کی ہمدری اور خون حاصل ہو، وہ کبھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہر شہادت اسے مزید طاقتور بناتی ہے۔

بلوچ قومی تحریک آج دنیا کی اُن چند تحریکوں میں شامل ہے جہاں مزاحمت نے سیاسی، نظریاتی اور عسکری سطح پر ایک ہم آہنگ قوت حاصل کر لی ہے۔ ریاستی جبر، گمشدگیاں، قتلِ عام اور معاشی استحصال کے باوجود بلوچ تحریک نے اپنی فکری بنیادوں کو مضبوط کیا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کے خون سے لکھی گئی یہ تحریک محض ہتھیاروں کی جنگ نہیں بلکہ ایک مکمل سماجی اور سیاسی انقلابی نظریہ ہے۔
بلوچ سرزمین پر بہنے والا ہر قطرہ خون آزادی کی راہوں کو روشن کر رہا ہے۔ شہداء کی قربانیاں آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ غلامی کبھی مقدر نہیں ہوتی۔ آج جو بلوچ مائیں اپنے بیٹوں کو رخصت کر رہی ہیں، وہ دراصل آزادی کے بیج بو رہی ہیں۔ ہر شہادت بلوچ تحریک کے پودے کو جڑوں سے مضبوط کر رہی ہے۔

آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، جسے کوئی ریاست، کوئی طاقت اور کوئی ظلم چھین نہیں سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں آزادی کے لیے قربانی دیتی ہیں، وہ بالآخر کامیاب ضرور ہوتی ہیں۔ بلوچ تحریک نہ صرف بلوچ عوام کو آزادی کا شعور دے رہی ہے بلکہ دنیا کو یہ یاد دہانی کرا رہی ہے کہ آزادی ایک عالمی وفاقی حق ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر سے لے کر عالمی انسانی حقوق کے قوانین تک، ہر جگہ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر قوم کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔بلوچ تحریک اس عالمی اصول کو عملی شکل دینے کی جدوجہد ہے۔ یہ دنیا کے سامنے ایک سوال ہے: کیا طاقت کے بل پر کسی قوم کو محکوم رکھا جا سکتا ہے؟ ویتنام، الجزائر، اریٹیریا اور مشرقی تیمور جیسے ممالک اس سوال کا واضح جواب دے چکے ہیں۔ اب بلوچ تحریک اسی جدوجہد کا حصہ ہے اور دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ قابض ریاستیں اکثر یہ سمجھتی ہیں کہ طاقت اور تشدد کے ذریعے آزادی کی تحریکوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ محض ایک مغالطہ ہے۔ بلوچ تحریک نے ثابت کیا ہے کہ جتنا زیادہ جبر کیا جائے، اتنی ہی زیادہ مزاحمت جنم لیتی ہے۔ گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور معاشی لوٹ مار کے باوجود بلوچ نوجوانوں کا ہتھیار اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک صرف جسموں کو نہیں، بلکہ ذہنوں اور روحوں کو آزاد کرتی ہے۔ریاستی جبر کا ہر وار دراصل بلوچ تحریک کے لیے ایک نیا ایندھن فراہم کرتا ہے۔
یہ جنگ وقتی رکاوٹوں، سازشوں اور جبر کے باوجود جاری رہے گی اور ایک دن ضرور کامیابی کے ساتھ ختم ہوگی۔ کیونکہ یہ جنگ محض ہتھیاروں سے نہیں بلکہ تاریخ کے لازوال قانون سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ قانون جو کہتا ہے:
"جب کوئی قوم آزادی کے لیے متحد ہو جائے، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے غلام نہیں رکھ سکتی۔بلوچ تحریک اسی قانون کی زندہ تفسیر ہے،

بلوچ قومی تحریک آزادی اپنی تاریخ کے ایک نہایت اہم اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ یہ تحریک محض ایک عسکری جدوجہد نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت قومی انقلاب ہے جو غلامی کے اندھیروں کو چیرتے ہوئے آزادی اور خودمختاری کی روشنی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بلوچ گوریلا فورسز کی حالیہ پیش رفت، خصوصاً لبریٹ ایریاز (Liberated Areas) کا قیام، اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ تحریک آزادی نے محض مزاحمتی مرحلے کو عبور کر لیا ہے اور اب حکمرانی کے متبادل ماڈل کی جانب پیش رفت کر رہی ہے۔
لبریٹ ایریاز وہ علاقے ہیں جہاں قابض ریاست کی رٹ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور عوام نے رضاکارانہ طور پر سرمچاروں کے قوانین اور نظم و نسق کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ علاقے اس حقیقت کے مظہر ہیں کہ بلوچ تحریک آزادی محض مسلح مزاحمت تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک نئے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کو جنم دے رہی ہے۔
یہ دراصل آزادی کی جانب ایک عبوری نظام کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے ویتنام کی جنگِ آزادی میں ویت کانگ یا الجزائر میں ایف ایل این (FLN) نے قائم کیے تھے۔ ان کا مقصد نہ صرف قابض ریاست کو عملاً بے دخل کرنا ہے بلکہ عوام کو یہ دکھانا بھی ہے کہ ایک متبادل حکومتی ڈھانچہ ممکن ہے جو استحصالی نظام سے پاک اور عوام کی امنگوں کا ترجمان ہو۔

بلوچ گوریلا جنگ اپنے تیسرے اور فیصلہ کن مرحلے میں محض ردِ عمل پر مبنی نہیں بلکہ ایک فعال اور تخلیقی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جہاں عوام کو آزادی کا عملی تجربہ دیا جا رہا ہے۔ یہ مرحلہ اس لحاظ سے زیادہ مشکل اور نازک ہے کیونکہ یہاں دشمن کے ساتھ ساتھ اپنی حکمرانی کی صلاحیت بھی ثابت کرنا ہوتی ہے۔لبریٹ ایریاز میں سرمچار محض فوجی گوریلا نہیں رہتے بلکہ وہ ایک عوامی رہنما کا کردار ادا کرتے ہیں۔ان علاقوں میں متبادل عدالتی نظام، مقامی فیصلوں میں عوامی شمولیت اور قومی کونسلوں کا قیام کیا جاتا ہے۔ قابض قوت کی مسلط کردہ تعلیمی و ثقافتی پالیسیوں کے خلاف اپنی زبان، تاریخ اور ثقافت پر مبنی تعلیم کو فروغ دیا جاتا ہے۔وسائل کی لوٹ مار روک کر انہیں عوامی ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ماڈل سامراجی س نظام کو مسترد کرتے ہوئے ایک خودکفیل اور مساوات پر مبنی معیشت کی بنیاد رکھتا ہے۔
اس طرح لبریٹ ایریاز ایک انقلابی ماڈل پیش کرتے ہیں جو محض قابض قوت کو ہٹانے سے آگے بڑھ کر ایک نئی قومی ریاست کی بنیاد ڈالتا ہے۔

لبریٹ ایریاز کا قیام عالمی برادری کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ بلوچ قوم نہ صرف آزادی کی خواہاں ہے بلکہ وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مکمل سیاسی ڈھانچہ قائم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ ان قوتوں کے پروپیگنڈے کو رد کرتا ہے جو بلوچ تحریک کو "بغاوت” یا "غیر منظم دہشت گردی” قرار دیتے ہیں۔تاریخ میں اس کی مثال الجزائر، ویتنام اور ایریٹریا جیسے ممالک سے ملتی ہے جہاں مزاحمتی تحریکوں نے لبریٹ ایریاز کے ذریعے آزادی کے بعد کی ریاست کے لیے بنیاد فراہم کی۔اگر یہ لبریٹ ایریاز مزید مضبوط ہوتے ہیں اور دیگر علاقوں تک پھیلتے ہیں تو یہ تحریک آزادی کو ایک ناقابلِ واپسی مرحلے میں داخل کر دیں گے۔جب عوام ایک متبادل نظام کا ذائقہ چکھ لیتے ہیں تو پھر غلامی کی طرف واپسی ناممکن ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قابض قوتیں ان علاقوں کو کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کرتی ہیں، مگر تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ عوامی طاقت کے سامنے ریاستی جبر ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔
بلوچ لبریٹ ایریاز محض جنگی کامیابی نہیں بلکہ ایک انقلابی نظریے کی عملی صورت ہیں۔ آخرکار، یہ جدوجہد اس امر کی علامت ہے کہ آزادی کسی طاقت کا عطیہ نہیں بلکہ عوام کے شعور، قربانیوں اور منظم مزاحمت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بلوچ قوم اپنی سرزمین پر نہ صرف آزادی حاصل کرے گی بلکہ ایک ایسا نظام بھی قائم کرے گی جو آنے والی نسلوں کے لیے حریت، انصاف اور مساوات کی ضمانت ہوگا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچ جہد آزادی کی فتح، پاکستان وچین کی سفارتی پسپائی

پیر ستمبر 22 , 2025
تحریر۔ رامین بلوچ بلوچ قومی آزادی کی تحریک محض مسلح جدوجہد تک محدود نہیں رہی، بلکہ عہدِ حاضر میں یہ ایک ہمہ جہت، منظم اور نظریاتی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کی اساس تاریخی اور سیاسی جواز کے ساتھ ، ایک مضبوط فکری، اخلاقی اور نظریاتی بنیاد […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ