
تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون
روسی ادیب دوستوئیفسکی نے کہا تھا:
"جب انسان کا شعور کامل ہو جاتا ہے اور زندگی کا ادراک اپنی انتہاؤں کو چھو لیتا ہے، تو وہ ہر جبر اور ہر ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنے والا بن جاتا ہے۔”دوستوئیفسکی کے اس قول کو اگر ہم بلوچ سماج کے تناظر میں دیکھیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ایک باشعور بلوچ کی زندگی دراصل ایک مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ یہ جدوجہد کبھی سوالات کے دھندلکوں میں بھٹکتی رہتی ہے اور کبھی یقین کے لمحوں میں لمحہ بھر کے لیے ٹھہر جاتی ہے۔ مگر جب شعور اپنی معراج کو پہنچ جاتا ہے اور زندگی کے راز اپنے آپ کو بے نقاب کر دیتے ہیں، تو قومی شعور سے مسلح ایک بلوچ اس مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے، جہاں اس کے سامنے صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے: ہر جھوٹ، ہر زنجیر اور ہر جبر کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کرنا۔دوستوئیفسکی کا یہ قول دراصل انسانی روح کی آزادی اور غلامی کے درمیان حائل نازک لکیر کو واضح کرتا ہے۔ یہ اس لمحے کی عکاسی کرتا ہے جب انسان محض سانس لیتا ہوا جسم نہیں رہتا، بلکہ ایک فکری، انقلابی اور تخلیقی قوت میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ لمحہ کائنات کے ساتھ انسان کی آویزش کا لمحہ ہے، جہاں سکوت اور صدا، قبولیت اور مزاحمت، فنا اور بقا ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔یہی وہ موڑ ہے جو انسان کو یا تو صوفی بناتا ہے، جو اپنی روح کی گہرائیوں میں ڈوب کر سکوت کو اپناتا ہے، یا انقلابی بناتا ہے، جو مزاحمت کے شعلوں میں اپنی ذات کو جلانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے
بلوچ قوم کی تاریخ ہزار سالہ قربانیوں، جدوجہد اور مزاحمت کے ایسے ابواب سے مزین ہے جو قومی آزادی اور وقار کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ اس قوم نے ہمیشہ غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کی اور ہر دور میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف اپنی سرزمین، زبان، ثقافت اور قومی وجود کے تحفظ کے لیے ہر محاذ پر قربانیاں پیش کیں ۔ بلوچ سرزمین کے ریگزار، پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندروں کی گہرائیاں آج بھی اس جدوجہد کے گواہ ہیں، جہاں ہر ذرے میں شہداء کے لہو کی سرخی اور ادبی مزاحمت کی روشنائی رچی بسی ہے۔
یہ مزاحمت محض سیاسی یا عسکری محاذ تک محدود نہیں رہی، بلکہ ایک فکری، تہذیبی اور ادبی قافلہ بھی اس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ بلوچ شاعری اور ادب نے ہمیشہ محکوم دلوں میں حوصلے اور شعور کی شمعیں روشن کیں،
غلام ذہنوں کو آزادی کا خواب دکھایا اور جدوجہد کی سمت متعین کی۔ انہی انقلابی ادبی کرداروں میں ایک تابناک اور عظیم نام قاضی مبارک کا ہے، جو محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک فکر اور ایک عہد کی علامت تھے۔قاضی نے اپنی شاعری کو روایتی حسن و عشق کے مضامین تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ایسا ہتھیار جو غلام ذہنوں کو آزاد کرتا ہے، محکوم انسانوں کو اپنی شناخت کا شعور بخشتا ہے اور ان میں قابض کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ ان کے اشعار میں بغاوت کی تپش، آزادی کی خوشبو اور انسانیت کے اعلیٰ اقدار کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔
ان کے ہاں مزاحمت محض ایک ردِعمل نہیں بلکہ ایک شعوری اور فکری عمل تھا، جو فلسفہ اور شعور کی گہرائیوں سے جڑا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوئی بلکہ اور زیادہ توانا، بامعنی اور اثر انگیز ہوتی گئی۔
قاضی مبارک کا تعلق اس ادبی روایت سے تھا جس نے بلوچ قوم کو اپنی تاریخ کے اندھیروں میں روشنی دکھائی۔ انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے مقبوضہ اور محکوم فرد کو یہ یقین دلایا کہ وہ تنہا نہیں، ان کا دکھ محض ذاتی دکھ نہیں بلکہ پوری قوم کا دکھ ہے۔ ان کی شاعری میں ایک اجتماعی شعور پوشیدہ ہے جو بلوچ مزاحمت اور قومی تحریک کو محض سیاسی عمل نہیں رہنے دیتا بلکہ اسے ایک فکری اور تہذیبی جہت عطا کرتا ہے۔قاضی مبارک شاعر کم اور معلم زیادہ تھے۔ وہ اپنے اشعار کے ذریعے بلوچ قوم کو یہ درس دیتے رہے کہ آزادی ایک فکری انقلاب ہے، جو ہر فرد کے دل و دماغ میں جنم لیتا ہے اور پھر اجتماعی شعور میں ڈھل کر ایک تحریک کی صورت اختیار کرتا ہے۔قاضی کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی اس کی زمینی حقیقتوں سے جڑت تھی۔ ان کے ہاں تخیل کی بلندی بھی ہے، لیکن یہ بلندی کبھی زمین سے کٹتی نہیں۔ ان کے اشعار میں بلوچ گل زمین کی ََزباد، سمندر کی گہرائی، اور پہاڑوں کی استقامت واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
ان کی شاعری میں ماں کے آنسوؤں کی نمی، بہنوں کی سسکیاں، اور مقبوضہ سماج کی آہ و بکا کی گونج سنائی دیتی ہے۔ مگر یہ تمام دکھ اور کرب ان کے ہاں مایوسی میں نہیں ڈھلتے، بلکہ امید اور جدوجہد کی آگ میں پگھل کر ایک نئے عزم کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کو سننے والا شخص ، دل کی گہرائیوں میں تڑپتا بھی ہے، اور پھر اسی لمحے مزاحمت کے لیے کھڑا ہو جانے کا حوصلہ بھی پاتا ہے۔قاضی مبارک کی شاعری ایک ایسا آئینہ ہے جس میں بلوچ قوم اپنی تاریخ، اپنے زخم، اور اپنے خواب سب ایک ساتھ دیکھ سکتی ہے۔ ان کا کلام صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک انقلابی صدا ہے، جو آج بھی بلوچ سرزمین کے ریگزاروں اور پہاڑوں سے گونج رہی ہے۔
16 ستمبر 2023 کو قاضی مبارک ہم سے جسمانی طور پر الگ ہوگیا ، مگر ان کی فکر، ان کی شاعری اور ان کے آدرش آج بھی امر ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ شاعر جنہوں نے بلوچ قوم کے دکھ اور کرب کو لفظوں میں ڈھالا، ان کے اشعار اور آواز ان سب کے لیے حوصلہ اور رہنمائی کا ذریعہ بنی رہے گی جو اپنی آزادی اور وقار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔کسی بھی قوم کے حقیقی شاعر کی میراث یہ نہیں ہوتی کہ وہ محض الفاظ تخلیق کرے، بلکہ وہ اپنی قوم کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر امید اور مزاحمت کی روشنی دکھاتا رہے۔ بلوچی ادب میں قاضی مبارک کا مقام صرف ایک شاعر کا نہیں بلکہ ایک رہنما اور فکری معمار کا ہے۔ ان کے اشعار نے بلوچی زبان کو ایک نیا وقار بخشا اور بلوچ مزاحمتی تحریک کو فکری بنیاد فراہم کی۔ ان کا کلام محض ماضی کا سرمایہ نہیں بلکہ مستقبل کا رہنما ہے۔
قاضی مبارک نے ادبی ترکہ میں ثابت کیا کہ شاعری صرف الفاظ کی ترتیب نہیں بلکہ ایک عملی مزاحمت ہے۔قاضی مبارک مر کر بھی زندہ ہیں، کیونکہ ان کی شاعری ہر اس دل میں سانس لے رہی ہے جو غلامی کے خلاف جدوجہد اور قومی وقار کے لیے لڑنے کا عزم رکھتا ہے۔
قاضی جیسے انسان بحر بلوچ کے دیس وادیاں ہیں، اور اس دیس کا نام پسنی ہے۔ یہ محض ایک ساحلی بستی نہیں بلکہ صدیوں کی تہذیبی وراثت، تخلیقی جمالیات اور ان گنت قربانیوں کا امین خطہ ہے۔ یہاں کی ہواؤں میں سمندر کی کھاری خوشبو کے ساتھ بلوچ تاریخ، جدوجہد اور مزاحمت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ پسنی کے ساحل پر ٹکراتی ہوئی لہریں گویا تاریخ کے صفحات پلٹتی ہیں، اور ہر موج ماضی کے کسی قصے، کسی قربانی اور کسی خواب کی گواہی دیتی ہے۔یہ خطہ ہمیشہ سے فن، فکر اور حریت کے متوالوں کی سرزمین رہا ہے۔ پسنی کے ساحل نے جتنی ماہی گیروں کی ہانپتی سانسیں اور کڑی محنت دیکھی ہیں، اتنی ہی بار اس نے آزادی کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کے لہو کو بھی اپنے دامن میں جذب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پسنی کی ریت میں ایک عجیب طرح کی حرارت اور اس کے آسمان میں ایک بے چین روشنی محسوس ہوتی ہے۔ اسی سرزمین پر ایک ایسا شخص پیدا ہوا، جس نے اپنی تخلیقی پرواز سے نہ صرف پسنی کو امر کر دیا بلکہ بلوچ ادبی اور فکری دنیا کو ایک نیا زاویہ عطا کیا —
مجھے یاد ہے، جب پہلی مرتبہ تنظیمی دورے پر پسنی کی چوکھٹ پر قدم رکھا تو کمبر قاضی نے مجھے اپنے والد سے ملایا۔ وہ قاضی مبارک تھے، ایک ایسا شخص جس کے وجود میں فکر، محبت، درد اور مزاحمت کا امتزاج یکجا تھا۔ ان کی شخصیت کسی عام انسان کی طرح نہیں تھی بلکہ ایک زندہ، متحرک اور انقلابی ادبی کائنات تھی۔ وہ جب بولتے تو الفاظ لہروں کی طرح بہتے، کبھی نرم اور سرگوشیوں جیسے، کبھی طوفانی اور گرجدار۔ ان کی شاعری میں سمندر کی وسعت اور طغیانی، پہاڑوں کی صلابت اور صحرا کی تنہائی سب یکجا تھے۔قاضی مبارک کی تخلیقی پرواز سمندر کی بے کنار لہروں کی طرح تھی۔ وہ پسنی کے ساحل کو دیکھتے تو صرف ریت اور پانی نہیں دیکھتے تھے، بلکہ وہ اس میں زندگی، جدوجہد اور خوابوں کے بے شمار رنگ تلاش کرتے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ادب صرف جمالیاتی لذت کے لیے نہیں، بلکہ قومی غلامی کے خلاف ایک مزاحمتی ہتھیار بھی ہے۔
پسنی کی تہذیبی روح کو اگر کوئی شخص لفظوں میں ڈھال سکا تو وہ قاضی مبارک ہی تھے۔ ان کے کلام میں قومی لوک داستانوں کی خوشبو، بلوچ تاریخ کے خونچکاں باب، اور جدید فکر کی روشنی سب یکجا ملتی ہیں۔ وہ ماضی کے ورثے کو مستقبل کی جدوجہد سے جوڑنے کا فن جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محض شاعر نہیں بلکہ فکری رہنما بھی تھے۔قاضی مبارک کا وجود اس بات کی علامت تھا کہ پسنی جیسا ایک چھوٹا سا ساحلی قصبہ بھی دنیا کو بڑے تخلیقی ذہن دے سکتا ہے۔ پسنی کی ریت اور سمندر ان کے لیے محض مناظر نہیں بلکہ علامتیں تھیں۔ ریت ان کے ہاں وقت کی ناپائیداری کی علامت ہے، جو ہر لمحہ بکھرتی اور جڑتی رہتی ہے، جبکہ سمندر زندگی کے تغیر اور مزاحمت کا استعارہ ہے، جو اپنی موجوں کے ساتھ ہر جبر کو للکارتا ہے۔ قاضی مبارک سے ملاقات گویا ایک ایسے جہان میں داخل ہونا تھا جہاں لفظ، خیال، اور جذبہ ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ ان کے ہونٹوں سے نکلنے والا ہر لفظ، ہر جملہ، پسنی کے ساحل پر ٹکراتی کسی لہر کی مانند تھا، جو سننے والے کے دل میں ارتعاش پیدا کرتا۔ ان کی گفتگو میں ماضی کے زخم بھی تھے اور مستقبل کی امید بھی۔
پسنی کے بغیر قاضی مبارک کو سمجھنا ممکن نہیں، اور قاضی مبارک کے بغیر پسنی کی شناخت ادھوری رہتی ہے۔ انہوں نے اپنے قلم سے پسنی کو صرف جغرافیے کا حصہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک فکری اور ادبی علامت بنا دیا۔ پسنی کے ساحل پر اب بھی جب لہریں آتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ قاضی مبارک کی شاعری کی بازگشت کو دہرا رہی ہوں۔ قاضی مبارک کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ایک شخص اپنی تخلیق، فکر اور مزاحمت سے نہ صرف خود کو امر کر سکتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کے مینار قائم کر سکتا ہے۔ قاضی آج بھی زندہ ہے،ان کے الفاظ کی خوشبو اور ان کے خوابوں کی روشنی بکھری ہوئی ہے۔ یہ روشنی کبھی مدھم نہیں ہوگی، کیونکہ یہ روشنی سمندر کی طرح لافانی ہے۔
مبارک قاضی نے ادب کے کینوس پر ایک ایسا مزاحمتی ورثہ چھوڑا ہے جو محض کتابوں کے اوراق تک محدود نہیں، بلکہ بلوچ راج کے دلوں اور ذہنوں میں محفوظ ہے۔ ان کے اشعار میں بلوچ کے کرب، اذیت، غلامی کی تلخی اور کربناکی کے ساتھ ساتھ ایک آزاد اور باوقار مستقبل کی امید بھی جلوہ گر ہوتی ہے۔ وہ لفظوں کے ایسے معمار تھے جو ریت پر نہیں، بلکہ دلوں کی گہرائیوں میں اپنی تخلیقی عمارتیں کھڑی کرتے تھے۔انہوں نے قلم کو محض اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ان کے کلام کے ہر مصرعے سے مزاحمت، آزادی کی تڑپ اور جدوجہد کی گونج سنائی دیتی ہے۔ وہ خاموشی کے قائل نہیں تھے؛ بلکہ ہر سچ کو بلند آواز میں کہنے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی شاعری ایک للکار تھی، جو ظلم و جبر کے ایوانوں کو ہلا دینے کی قوت رکھتی تھی۔دوست کہتے ہیں کہ مبارک قاضی ہم سے رخصت ہو گئے، مگر میں کہتا ہوں کہ وہ کہیں نہیں گئے۔ وہ محض جسم چھوڑ کر تاریخ میں جا بسے ہیں۔ جسم فانی ہوتا ہے، مگر فکر، نظریہ اور کمٹمنٹ لافانی ہیں۔ آج مبارک قاضی کی موجودگی ان دیوانوں میں ہے جہاں بلوچ نوجوان ان کے اشعار پڑھتے اور ان کے گیت سنتے ہیں۔ وہ اس لمحے بھی زندہ ہیں جب کوئی بلوچ ماں اپنے بچے کو اپنی سرزمین کی قربانیوں اور جدوجہد کی کہانیاں سناتی ہے۔وہ ہر اس اجتماع میں شامل ہیں جہاں لوگ آزادی اور شناخت کی بات کرتے ہیں۔ مبارک قاضی محض ایک شاعر نہیں تھے؛ وہ ایک تحریک، ایک صدا اور ایک زندہ استعارہ ہیں۔ ان کی شاعری بلوچ مزاحمت کی روح ہے، جو آنے والی نسلوں کو جدوجہد کا حوصلہ دیتی رہے گی اور انہیں یاد دلاتی رہے گی کہ لفظ بھی ہتھیار بن سکتے ہیں، اور ایک خواب بھی دنیا بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔
کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قاضی مبارک کی جسدِ خاکی اٹھ جانے کے بعد پسنی میں سکوت طاری ہو جائے گا، مگر میرا اتہاس یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ صرف پسنی ہی نہیں، پورے بلوچستان کو انقلاب دے کر گیا ہے۔ قاضی کا مزاحمتی اور تخلیقی ورثہ بلوچ وطن کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے، جو آنے والی نسلوں کو روشنی فراہم کرتا رہے گا۔وہ نوجوان، جو ان کے اشعار کو پڑھ کر اور ان کے خوابوں سے حوصلہ لے کر پروان چڑھ رہے ہیں، اسی ورثے کو آگے بڑھائیں گے۔ بلاشبہ ان کی رخصتی پسنی کے لیے ایک گہرا خلا ہے، مگر یہ خلا نئی تخلیقات، نئے خوابوں اور نئی مزاحمت سے بھر جائے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ بڑے تخلیق کار جسمانی طور پر رخصت ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے خیالات، خواب اور جدوجہد ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ مبارک قاضی بھی انہی عظیم شخصیات میں سے ہیں، جنہوں نے لفظوں کے ذریعے ایک ایسا فکری سرمایہ تخلیق کیا جو نہ صرف پسنی، بلکہ پورے بلوچستان کا مشترکہ ورثہ بن چکا ہے۔ یہ سرمایہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہے گا، اور ہر آنے والا دور ان کے نام کو احترام اور عقیدت کے ساتھ یاد کرے گا۔
پسنی کا سمندر آج بھی ویسا ہی بےقرار ہے، مگر اس کی لہروں کے شور میں مبارک قاضی کی مسکراہٹ، آواز اور اشعار اب بھی سنائی دیتے ہیں۔ وہ چلے گئے، لیکن اپنے پیچھے لفظوں کا ایک جہان، خوابوں کی ایک کہکشاں، اور جدوجہد کا ایک عہد چھوڑ گئے ہیں۔پسنی آج شاید ان کے بغیر ادھورا لگے، مگر ان کے افکار اور ان کی شاعری ہمیشہ اس شہر کی روح میں سانس لیتی رہے گی۔ قاضی مبارک کا کلام اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اصل سکوت وہ نہیں جو جسم کے رخصت ہونے سے آتا ہے، بلکہ وہ جو خیالات کے مرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اور قاضی کے خیالات زندہ ہیں، لہٰذا پسنی اور بلوچستان کبھی خاموش نہیں ہوں گے۔
اس میں نہ کوئی شبہ ہے، نہ مغالطہ، اور نہ ہی دو رائے کہ قاضی جیسے شاعر اس شعور کے امین ہوتے ہیں جو قوم کو اس کے ماضی کی عظمت یاد دلاتا ہے اور اسے مستقبل کی آزادی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ان کی شاعری محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور سانس لیتی ہوئی دستاویز ہے، جو آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیتی رہے گی کہ غلامی کبھی مقدر نہیں ہوتی، اور آزادی ہمیشہ ان لوگوں کی میراث بنتی ہے جو اس کے لیے قربانیاں دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔قاضی کے اشعار بلوچستان کے ریگزاروں میں صدا بن کر گونجتے رہیں گے، سمندر کی لہروں کے ساتھ گیت گاتے رہیں گے، اور ہر اس دل میں زندہ رہیں گے جو آزادی، انصاف، اور انسانی وقار کے لیے دھڑکتا ہے۔ ان کی زندگی اس اٹل سچائی کا استعارہ ہے کہ شاعر صرف لفظوں کا خالق نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی قوم کے لیے میدانِ جدوجہد کا سپاہی بھی ہوتا ہے۔ اس کا ہتھیار تلوار نہیں، قلم اور لفظ ہوتے ہیں—ایسے الفاظ جو صدیوں بعد بھی حوصلے، بغاوت اور آزادی کی روشنی پھیلاتے ہیں۔قاضی مبارک کی وفات بظاہر ایک جسمانی جدائی ہے، مگر فکری طور پر وہ بلوچ قوم کے ساتھ ہمیشہ رہیں گے۔ کیونکہ جو شاعر اپنی قوم کی روح سے جڑ جائے، وہ کبھی نہیں مرتا؛ وہ اپنے لفظوں کے ذریعے زمانوں تک زندہ رہتا ہے، لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے، اور غلامی کے اندھیروں میں روشنی کا چراغ جلاتا رہتا ہے۔
یہ محض الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ قربانیوں کی ایک طویل اور لہو رنگ داستان ہے۔ قاضی مبارک نے اپنی جوانی کا ہر لمحہ بلوچ قوم کی آزادی، شناخت اور بقا کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔ وہ تحریک کے خاطر پسِ زندان بھی گئے، اور ان کی ذاتی زندگی بھی قربانیوں کے ایسے امتحانات سے گزری جنہیں سہنا عام انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ان کے اکلوتے بیٹے، ڈاکٹر قمبر بلوچ، نے باپ کی راہ کو اپناتے ہوئے سرمچاری کی زندگی اختیار کی اور بالآخر شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ بیٹے کی میت کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا، اس ناقابلِ بیان دکھ کو جھیلنا، اور پھر بھی ہمت نہ ہارنا—یہ لمحہ کسی بھی والد کے لیے ناقابلِ تصور ہے۔ لیکن قاضی مبارک نے اس ذاتی المیے کو اپنی قوم کی اجتماعی جدوجہد میں ڈھال دیا۔ ان کے اس عمل نے انہیں تاریخ کے ان عظیم کرداروں کی صف میں لا کھڑا کیا جنہوں نے ذاتی رشتوں، خوشیوں اور آرام کو پسِ پشت ڈال کر قومی آزادی اور انسانی وقار کے لیے اپنی زندگیاں قربان کر دیں۔
یہ وہی جذبہ ہے جو کربلا کے قافلے میں دکھائی دیتا ہے، وہی حوصلہ جو بھگت سنگھ کے چہرے کی مسکراہٹ میں جھلکتا ہے، اور وہی قوت جو نیلسن منڈیلا کو ستائیس برس قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر آمادہ رکھتی ہے۔ یہ قربانی ہمیں الجزائر، کیوبا، ویت نام اور ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر ایک شخص کو اتنی بڑی قربانی دینے کی طاقت کہاں سے ملتی ہے؟ اس کا جواب قاضی مبارک کی کمٹمنٹ، ان کی فکر اور نظریے میں پوشیدہ ہے۔ ان کی شاعری میں قابض قوتوں کے وحشیانہ ظلم کے خلاف شدید نفرت بھی ہے اور ایک آزاد و خودمختار مستقبل کا خواب بھی۔ یہی نظریاتی وابستگی انہیں وہ قوت فراہم کرتی تھی کہ بیٹے کی شہادت کے باوجود وہ کمزور نہ پڑے بلکہ مزید حوصلے کے ساتھ اپنی قوم کے ساتھ ڈٹے رہے۔
قاضی مبارک کی کردار ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اصل قیادت وہی ہے جو راہِ آزادی میں قربانیوں کے عملی اظہار سے جنم لیتی ہے۔ وہ محض شاعر نہیں تھے، بلکہ ایک عہد، ایک فکر اور ایک مزاحمتی روح تھے۔ ان کی شاعری کتابوں کے اوراق تک محدود نہیں رہی؛ وہ اشعار بن کر مظلوم راج کے دلوں میں امید کے چراغ جلاتی، سرمچاروں کے حوصلے بلند کرتی اور غلامی کے اندھیروں میں روشنی کی راہیں تراشتی رہی۔ذرا تصور کیجیے، ایک بوڑھا باپ اپنے اکلوتے بیٹے کی میت کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ منظر صرف ذاتی غم کا نہیں بلکہ ایک پوری قومی جدوجہد کی علامت ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ آزادی کا راستہ کبھی ہموار نہیں ہوتا؛ یہ وہ کٹھن راہ ہے جس پر خون کے چراغ جلتے ہیں اور جنہیں روشن رکھنے کے لیے قاضی مبارک جیسے کردار اپنی زندگیاں قربان کرتے ہیں۔ ان کی یہ قربانی اس لیے ہے کہ آنے والی نسلیں غلامی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بجائے آزادی کی روشنی میں سانس لے سکیں۔قاضی مبارک کی قربانی ایک ایسا معیار قائم کرتی ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی قوم دوستی محض نعروں سے نہیں، بلکہ خون، آنسو اور قربانیوں سے لکھی جاتی ہے۔ ان کا وجود اور ان کی شاعری آنے والی نسلوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اگر تمہیں آزادی چاہیے تو تمہیں وہ چراغ بننا ہوگا جو اندھیروں کو جلانے کے لیے خود کو خاکستر کر دے۔