
جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کا احتجاجی کیمپ جمعرات کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے 5936 ویں روز بھی جاری رہا۔
احتجاج میں رواں سال 11 جون کو اورماڑہ چیک پوسٹ پر سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار بننے والے صغیر احمد اور اقرار کے لواحقین نے بھی شرکت کی۔ لواحقین نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ان کے پیاروں کی بازیابی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
وی بی ایم پی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات کے باوجود صوبائی حکومت نے چیئرمین نصر اللہ بلوچ اور بزرگ رہنما ماما قدیر بلوچ کو فراہم کی گئی سیکیورٹی واپس لے لی ہے۔ بیان میں اس اقدام کو عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی قرار دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ 2013 میں سپریم کورٹ نے وی بی ایم پی کی قیادت کو لاحق سنگین خطرات کے باعث صوبائی حکومت کو ان کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا حکم دیا تھا، جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے محکمہ داخلہ بلوچستان نے سیکیورٹی فراہم کی تھی۔ تاہم حالیہ اقدام کے تحت یہ سیکیورٹی اچانک واپس لے لی گئی ہے، جس پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں داعش کی جانب سے سنگین دھمکیاں موصول ہو چکی ہیں، اس صورتحال میں صوبائی حکومت کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیکیورٹی مزید سخت کرنی چاہیے تھی، نہ کہ ختم کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں یا ان کے ساتھیوں کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری براہِ راست صوبائی حکومت اور متعلقہ افسران پر عائد ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وی بی ایم پی اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور اٹارنی جنرل آف پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر فوری کارروائی کی جائے۔ نصر اللہ بلوچ نے انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ اس مسئلے پر آواز بلند کریں اور بلوچ عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ساتھ دیں۔