
بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سکریٹری جنرل رحیم ایڈووکیٹ بلوچ نے کوئٹہ میں بی این پی کے جلسے کے قافلے پر ہونے والے خودکش دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں بلوچ قومی رہبر مرحوم سردار عطاء اللّہ خان مینگل کی برسی کے جلسہ میں بم دھماکہ کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ یہ وحشیانہ عمل ریاستی خفیہ اداروں کی کارستانی ہے۔ قابض ریاست مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ اور بلوچستان کے نام لیواکسی بھی طرح کے سیاسی اور انسانی حقوق کی سرگرمیوں یا آوازوں کو برداشت کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہےحتیٰ کہ وہ جماعتیں یا تنظیمیں جو پاکستانی نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچہ کے اندر بلوچ کا نام لیتے ہیں قابض ریاست انھیں بھی برداشت کرنے پر تیار نہیں ہے جس کی تازہ ترین مثال بی این پی کے جلسہ پر بم دھماکہ ہے۔ ایسے غیر انسانی کاروائیوں کا مقصد دہشت پھیلانا ہے تاکہ سیاسی اور انسانی حقوق کی آوازوں کو خاموش کرکے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جاری بلوچ نسل کشی پر پردہ ڈالا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس بم دھماکہ میں ایک درجن سے زائد افراد کی شہادت انتہائی افسوسناک ہے میری دعائیں شہید ہونے والے کارکنوں کی خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اللّہ تعالیٰ شہداء کے لواحقین کو صبر اور برداشت کی توفیق عطاء فرمائے اور زخمیوں کو صحت یاب کرے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ آزاد پسند اور ان کے فکری بلوچ عوام دو دہائیوں سے پاکستانی فوج کے زیر عتاب، بھیانک نسل کشی اور اجتماعی سزا سے دوچار ہیں لیکن اب ریاستی فریم ورک اور ریاستی آئین کے اندر جدوجہد کرنے والوں کو بھی ریاست نشانہ بنا رہا ہے۔ بی این پی کے جلسہ عام کو نشانہ بنانا انتہائی قابلِ مذمت ریاستی فعل ہے، ساتھ ہی یہ پارلیمانی راستہ منتخب کرنے والے حلقوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ بنیادی سہولیات کی مانگ کروگے یا آزادی، ریاست نے دونوں کی ایک ہی قیمت طے کر دی ہے۔ لہٰذا دانشمندی اور قومی فلاح اسی میں ہے کہ پارلیمانی سیاست کے داعی ایک بار پھر اپنی طرز عمل اور راستے پر نظرِ ثانی کر لیں۔
انہوں نے کہا کہ سردار اختر مینگل ہوں یا ان کے والدِ گرامی، بلوچ قوم نے ہمیشہ ان سے بڑی توقعات وابستہ کر لی ہیں لیکن سردار مینگل برملا کہا کرتے تھے کہ ان کی مفاہمانہ سوچ کو پاکستان نے عسکری قوت سے بلڈوز کیا۔ ہمیں وقار سے محروم کرنے کا وطیرہ برقرار رکھا۔
خلیل بلوچ نے کہا کہ بی این پی کے جلسے کو نشانہ بنا کر پاکستان نے واضح کر دیا کہ فوجی منشا اور فوج کے سامنے سربسجود نام نہاد سیاستدانوں کے علاوہ دیگر تمام سیاسی ذرائع استعمال کرنے والوں کا انجام موت ہی ہے۔ جب ریاست اپنی حکمتِ عملی میں واضح ہے، وہ ریاست جس کی نہ تاریخ ہے اور نہ ہی تہذیبی پس منظر، تو بلوچ کیونکر ابہام کا شکار ہو، بلوچ بہ حیث القوم ایک وسیع جغرافیہ، قدیم تاریخ اور زندہ تحریک کا مالک ہے۔ ہمارے سامنے ایک واضح مستقبل اور باوقار آزادی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں تحریک کے مرکزی دھارے کے برعکس ذرائع استعمال کرنے والے ہمیشہ خسارے میں رہیں گے۔