قربانی، استقامت اور قومی شعور: آزادی کا مثلث

تحریر: رامین بلوچ

تاریخ گواہ ہے کہ برطانوی قبضہ گیریت کے انہدام اور بلوچ وطن سے انگریزوں کے انخلا کے فوراً بعد، جب برصغیر کے اکثر خطے آزادی اور خودمختاری کے خواب کے ساتھ ایک نئی صبح دیکھ رہے تھے، بلوچ وطن کی تقدیر اس سے بالکل مختلف لکھی گئی۔ 1947ء میں برصغیر سے برطانوی سامراج کے رخصت ہونے کے بعد بلوچ اپنی سیاسی قسمت کا فیصلہ کرنے کی دہلیز پر کھڑے تھے۔ریاستِ قلات، جسے بین الاقوامی معاہدات اور برطانوی نوآبادیاتی دور کے سیاسی انتظامات میں ایک خودمختار اکائی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، نے اپنی آزادی کا باقاعدہ اعلان کیا۔ یہ محض ایک قبائلی یا نیم خودمختار خطہ نہیں تھی، بلکہ ایک باقاعدہ سیاسی و انتظامی حیثیت رکھنے والی ریاست تھی۔ 1876ء کے معاہدۂ مستونگ، 1877ء کے معاہدۂ خان گڑھ اور دیگر برطانوی نوآبادیاتی معاہدات میں قلات کو ایک نیم خودمختار بلکہ عملی طور پر خودمختار ریاست تسلیم کیا گیا تھا۔قلات کی حکومت کو نہ صرف اندرونی خودمختاری حاصل تھی بلکہ برطانوی حکومت بھی اسے ایک آزاد فریق کے طور پر مخاطب کرتی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ 1947ء میں برطانوی انخلا کے وقت قلات کو قانونی طور پر ایک آزاد ریاست مانا گیا۔ اس کا باضابطہ اعلان خانِ قلات نے 11 اگست 1947ء کو ایک عوامی اجتماع میں کیا، اور اسی دن آل انڈیا ریڈیو سے بلوچستان کی آزادی کی خبر نشر کی گئی۔

برطانوی سامراج نے برصغیر میں تقسیمِ ہند کا جو منصوبہ ترتیب دیا، وہ دراصل اپنی نوآبادیاتی وراثت کو ایک نئی شکل میں جاری رکھنے کا حربہ تھا۔ سامراجی نقشے نے بلوچوں کی صدیوں پر پھیلی ہوئی قومی سرزمین کو ایک نو وجود میں آنے والی غیر فطری ریاست کے ماتحت کرنے کی بنیاد رکھی۔ پاکستان، جو خود نوآبادیاتی تقسیم کا پیدا کردہ ایک سیاسی ڈھانچہ تھا، نے سامراجی ورثے کے وارث کے طور پر بلوچ وطن پر قبضہ کرنے کی پالیسی اپنائی۔ یہ قبضہ نہ تو کسی عوامی رائے پر مبنی تھا اور نہ ہی کسی معاہدے یا اصولی ضابطے کے تحت انجام پایا۔مارچ 1948ء میں فوجی دباؤ اور سیاسی جبر کے نتیجے میں ریاستِ قلات کو پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ فیصلہ دراصل بلوچ قوم پر ایک جبری قبضے کی ابتدا تھا، جسے بلوچ عوام نے اپنی مرضی اور رائے سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔

ریاستِ قلات کے اس جبری انضمام کے خلاف بلوچ قوم نے خاموشی اختیار نہیں کی۔ خانِ قلات کے بھائی اور مکران کے گورنر، شہزادہ عبدالکریم نے پاکستان کے خلاف پہلا منظم مسلح اقدام اٹھایا اور بلوچ لبریشن کمیٹی قائم کی، جو پاکستانی قبضے کے خلاف مزاحمت کی ابتدائی بنیاد بنی۔ اس کے بعد ہر دہائی میں بلوچ قومی تحریک نے نئی شکلوں میں جنم لیا،چاہے وہ 1958ء کی مسلح جدوجہد ہو، 1970ء کی دہائی کی مزاحمتی تحریک ہو، یا 21ویں صدی کی سیاسی اور مسلح جدوجہد۔یوں بلوچ قومی تحریک ایک تسلسل کے ساتھ آج تک اپنی آزادی اور خودمختاری کے حصول کے لیے جاری ہے، اور ہر دور کی مزاحمت اس بات کی گواہ ہے کہ بلوچ قوم نے کبھی اپنی قومی آزادی کے اصولی حق سے دستبرداری اختیار نہیں کی۔

۔بلوچ قومی آزادی کا مقدمہ سطحی نہیں بلکہ مضبوط تاریخی اور قانونی بنیادوں پر استوار ہے۔ 1947ء میں برصغیر کی جبری تقسیم کے وقت ریاستِ قلات کا درجہ نیپال، بھوٹان اور افغانستان جیسی آزاد اور خودمختار ریاستوں کے برابر تسلیم کیا گیا تھا۔ بلوچستان کی قومی اسمبلی اور اس کے دونوں ایوانوں نے پاکستان جیسے نوآبادیاتی تقسیم کے نتیجے میں بننے والی غیر فطری ریاست میں شمولیت کو مسترد کرتے ہوئے اپنی آزادی برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔تاہم، 27 مارچ 1948ء کو پاکستان کی فوج، جو نوآبادیاتی ورثے کی علامت تھی، نے قلات پر چڑھائی کی اور بلوچستان پر بزورِ طاقت قبضہ کر لیا۔ یہ الحاق نہ کسی عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ہوا اور نہ ہی بلوچ عوام کی آزاد مرضی سے طے پایا۔ اسی لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق یہ اقدام غیر قانونی تھا اور آج بھی بلوچ قومی موقف اسی تاریخی حقیقت پر قائم ہے کہ بلوچستان کا پاکستان میں انضمام جبر اور طاقت کے بل پر مسلط کیا گیا تھا۔

پاکستان کے قبضے کے خلاف 1948ء سے لے کر آج تک بلوچ قومی تحریک ایک اٹوٹ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ یہ تحریک محض ایک وقتی ردِعمل یا وقتی جذبات کی پیداوار نہیں، بلکہ ایک مضبوط تاریخی جواز، قومی شعور اور آزادی کی لازوال تڑپ پر مبنی ہے۔ اگرچہ اپنی شدت اور نوعیت کے اعتبار سے یہ تحریک کبھی زیرِ زمین اور کبھی برسرِ زمین رہی، لیکن اس کا بنیادی نصب العین بلوچ قوم کی آزادی اور خودمختاری کبھی متزلزل نہیں ہوا۔

تاریخ کے ہر دور میں بلوچ قوم نے بے مثال قربانیاں دیں۔ ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، درجنوں بستیاں اجاڑ دی گئیں، مگر تحریک اپنی روح اور جوہر کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہی۔ یہ قربانیاں کسی وقتی مراعات کے حصول کے لیے نہیں دی گئیں، نہ ہی یہ کسی بیرونی طاقت کے ایجنڈے کا حصہ تھیں، بلکہ ایک گہرے قومی شعور اور تاریخی ذمہ داری کا مظہر تھیں۔ بلوچ قوم نے بارہا یہ ثابت کیا کہ ان کی جدوجہد کا مقصد صرف اور صرف اپنی قومی آزادی اور خودمختاری کا احیاء ہے۔بلوچ قومی مطالبہ محض ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ تاریخی اور قانونی دلائل سے مزین ایک مقدمہ ہے۔ 1947ء میں ریاستِ قلات کی حیثیت نیپال اور بھوٹان جیسی آزاد اور خودمختار ریاستوں کے مساوی تھی۔ قلات کا پاکستان میں شمولیت سے انکار اور اس کے ایوانوں کی قراردادیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ بلوچستان اپنی آزادی پر قائم تھا۔ 27 مارچ 1948ء کو جبری انضمام، طاقت کے استعمال اور عوامی رضامندی کی عدم موجودگی نے اس قبضے کو بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں غیر قانونی ثابت کر دیا۔بلوچ قومی تحریک اپنی جڑوں میں ایک زندہ حقیقت ہے، جسے نہ وقت شکست دے سکا اور نہ طاقت خاموش کر پائی۔ یہ تحریک بلوچ قوم کی اجتماعی یادداشت، قربانیوں اور آزادی کی لازوال خواہش کی عکاس ہے۔ آج بھی یہ جدوجہد اسی نصب العین پر قائم ہے: ایک آزاد اور خودمختار بلوچستان، جہاں بلوچ قوم اپنی سرزمین، وسائل اور مستقبل پر خود فیصلہ کرنے کا اختیار رکھے۔

آج، جب بلوچ تحریکِ آزادی ایک نئے اور تازہ دم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، اور جب پاکستانی قبضے کے خلاف مزاحمت سماجی، سیاسی، عسکری اور فکری ہر محاذ پر اپنی گہرائی اور وسعت میں اضافہ کر چکی ہے، تب بھی اگر کوئی فرد، گروہ یا جماعت اس جدوجہد کو مشکوک بنانے، اسے بیرونی سازش کا رنگ دینے یا اس میں ابہام اور پیچیدگی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دانستہ یا نادانستہ قابض سامراجی بیانیے کو فروغ دے رہا ہے۔ ایسے افراد یا حلقے، خواہ وہ قابض قوت کے مراکز سے تعلق رکھتے ہوں یا مقبوضہ قوم کے اندر سے ابھرتے ہوں، تاریخ کے کٹہرے میں بلوچ قوم کے سامنے جواب دہ ہیں۔
نوآبادیاتی طاقتیں ہمیشہ سے مقبوضہ اقوام کی مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے اسے "بیرونی سازش” یا "غیر فطری ایجنڈا” قرار دیتی رہی ہیں۔ یہی منطق آج پاکستان کی ریاستی بیانیے میں جھلکتی ہے، جو بلوچ تحریک کو کبھی "بھارتی سازش” اور کبھی "غیر ملکی مداخلت” سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ درحقیقت، یہ ایک پرانا سامراجی حربہ ہے جس کا مقصد مقبوضہ قوم کے حقیقی مطالبے کو مسخ کرنا اور دنیا کی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔جو افراد یا کٹھ پتلی گروہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو بیرونی سازش کا رنگ دیتے ہیں، وہ براہِ راست یا بالواسطہ اسی نوآبادیاتی بیانیے کو سہارا دے رہے ہیں جس کا مقصد بلوچ تحریک آزاد کو غیر جواز قرار دینا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قومی مطالبہ آزادی خالصتاً اندرونی، تاریخی اور قومی شعور پر مبنی ہے، جو کسی بیرونی طاقت کے مرہونِ منت نہیں۔

بلوچ تحریکِ آزادی ہزاروں شہداء کی قربانیوں، اجڑی ہوئی بستیوں، بے گھر ہونے والے خاندانوں، جعلی مقابلوں میں قتل ہونے والے بلوچ نوجوانوں، اور جبری گمشدگیوں کا شکار بلوچ فرزندوں کی لازوال اور بے لوث جدوجہد کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ قربانیاں اور بلیدان کسی وقتی مفاد یا بیرونی قوتوں کے اثرات کا نتیجہ نہیں، بلکہ قومی فرض، اجتماعی ذمہ داری اور آزادی کی اُس مقدس اور ابدی خواہش کا عملی اظہار ہیں، جو ہر دور میں بلوچ قومی شعور کا حصہ رہی ہے۔بلوچ قومی مسئلہ اس قدر واضح، شفاف اور اصولی بنیادوں پر استوار ہے کہ کسی بھی قسم کا مبہم، منافقانہ یا گمراہ کن پروپیگنڈہ اس کی صداقت اور اس کے جواز کو کمزور نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی پیچیدہ فلسفیانہ بحث یا دقیق تجزیے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ ایک سادہ مگر ناقابلِ تردید اصول ہے کہ ہر قوم کو اپنی سرزمین پر اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔ بلوچ قوم بھی اسی آفاقی اور تاریخی حقِ آزادی کی علمبردار ہے۔

عالمی قوانین، خصوصاً اقوامِ متحدہ کے منشور میں، آزادی کو ہر قوم کا بنیادی اور ناقابلِ تنسیخ حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 دسمبر 1960ء کو قرارداد 1514 (Declaration on the Granting of Independence to Colonial Countries and Peoples) منظور کی، جسے بعد ازاں "نوآبادیات کے خاتمے کا منشور” کہا گیا۔ اس میں واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ:
"تمام اقوام کو آزادی اور خودمختاری کا غیر مشروط حق حاصل ہے، اور کسی بھی قوم کو غلامی، محکومی یا غیرملکی تسلط میں رکھنا عالمی امن اور انسانی برادری کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔”
مزید برآں، 1970ء میں منظور شدہ جنرل اسمبلی کی قرارداد 2625 (Declaration on Principles of International Law concerning Friendly Relations and Co-operation among States) میں یہ اصول دہرا دیا گیا کہ آزادی ہر قوم کا بنیادی حق ہے، اور کسی بھی قوم کو اس حق سے محروم رکھنا اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی روح کے منافی ہے۔ان قراردادوں کی روشنی میں دنیا کی کئی مقبوضہ اقوام نے آزادی حاصل کی، جن میں نمیبیا، مشرقی تیمور اور اریٹیریا کی مثالیں نمایاں ہیں۔ ان تحریکات نے عالمی قانون، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی ضمیر کے سہارے اپنی آزادی کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور بالآخر کامیاب ہوئیں۔
بلوچ قومی تحریکِ آزادی بھی انہی آفاقی اصولوں پر استوار ایک تاریخی، اصولی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق ہے۔
جو محض ایک داخلی یا علاقائی تنازعہ نہیں، بلکہ ایک عالمی اور اصولی مقدمہ ہے، جو براہِ راست اقوامِ متحدہ کے چارٹر، قرارداد 1514 اور قرارداد 2625 میں درج حقِ آزادی سے جڑا ہوا ہے۔
اگر ہم تاریخ عالم پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد کسی انوکھے یا غیر معمولی تصور پر نہیں بلکہ انہی عالمی اصولوں پر مبنی ہے جن کی بنیاد پر دیگر اقوام نے اپنی آزادی حاصل کی۔ مثال کے طور پر:
مشرقی تیمور نے انڈونیشیائی قبضے کے خلاف ایک طویل اور خونریز جدوجہد کے بعد بالآخر آزادی حاصل کی، حالانکہ قابض قوت اسے ’’اندرونی مسئلہ‘‘ قرار دیتی تھی۔
اریٹیریا نے ایتھوپیا کے خلاف تیس سالہ مزاحمت کے بعد اپنے آزادی کو منوایا۔بلوچ قومی مسئلہ بھی انہی عالمی مثالوں کی ایک کڑی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں قابض قوت اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے بلوچ جدوجہد کو ’’بیرونی سازش‘‘ یا ’’ترقی کی راہ میں رکاوٹ‘‘ قرار دیتی ہے، حالانکہ تاریخ اور حقیقت اس کے برعکس ہیں۔ بلوچ عوام نے اپنی آزادی کی جدوجہد ہمیشہ اپنی قربانیوں، اپنے لہو اور اپنی زمین کی محبت سے سینچی ہے، جو عالمی تحریکاتِ آزادی کی تاریخی صف میں اپنی جگہ رکھتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے بلوچ قومی تحریک کی جڑیں محض بیسویں صدی تک محدود نہیں بلکہ اس سے کہیں پہلے بلوچ سماج کے ارتقائی عوامل اور اس کے اندر موجود مزاحمتی رویوں میں پیوست ہیں۔ بلوچ تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ بلوچ قوم نے ہر دور میں اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی وقار کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی ہے۔
سترہویں صدی میں بلوچ نظامِ حکومت کی تشکیل دراصل بلوچ قوم کے سیاسی شعور اور اجتماعی ارادے کی علامت تھی، جس نے بلوچوں کی خودمختار سیاسی وحدت کو عالمی منظرنامے پر متعارف کرایا۔ اس کے بعد جب برطانوی سامراج نے برصغیر پر اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت قبضہ کیا، تو بلوچ سرزمین بھی نوآبادیاتی یلغار کی زد میں آئی۔ تاہم بلوچ قوم نے مختلف ادوار میں انگریز سامراج کے خلاف مسلح اور سیاسی مزاحمت کی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ قوم نے اپنی سرزمین اور آزادی کے لیے کسی بھی بیرونی تسلط کو دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔
اسی تسلسل میں 20ویں صدی کے وسط میں، جب برصغیر میں سامراجی قوتیں پسپا ہو رہی تھیں، ریاستِ قلات نے اپنی تاریخی خودمختاری کا اعلان کیا اور چند ماہ تک ایک آزاد حیثیت میں قائم رہی۔ لیکن بعدازاں طاقت کے زور پر اسے پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔ یہ اقدام بلوچوں کی مرضی کے برعکس تھا اور اسی سے موجودہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کو ایک نئی اور منظم شکل ملی۔

ہر غیرت مند، باشعور اور زندہ قوم کی تاریخ میں ایک ایسا مرحلہ ضرور آتا ہے جب غلامی کی زنجیریں توڑنے اور اپنی قومی شناخت و آزادی کو بازیاب کرنے کی جدوجہد اس قوم کے اجتماعی شعور و لاشعور کا لازمی حصہ بن جاتی ہے۔ بلوچ قوم کی تحریکِ آزادی بھی اسی ناقابلِ تسخیر عزم، صبر و استقامت اور لازوال قربانیوں سے عبارت ہے، جو ایک نسل سے دوسری اور پھر تیسری نسل تک اپنے خون سے تاریخ کے اوراق پر تحریر ہو رہی ہے۔یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کی بنیاد وقتی جذبات پر نہیں بلکہ ایک گہری تاریخی حقیقت اور صدیوں پر محیط قومی شعور پر استوار ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد اس امر کا بین ثبوت ہے کہ غلامی کبھی بھی ایک باشعور قوم کے مقدر میں مستقل طور پر نہیں لکھی جا سکتی۔ بلوچ نوجوانوں، خواتین، بزرگوں اور شہداء نے اپنے لہو سے یہ اعلان کیا ہے کہ قومی آزادی محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، جو ہر قربانی کے ساتھ مزید مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔
بحیثیت لکھنے والے میرا یقین بھی، ہر قومی جہدکار کی طرح، غیر متزلزل ہے۔ یہ یقین جذباتی نہیں بلکہ اس تاریخی حقیقت پر مبنی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا جب بلوچ قوم اپنی سرزمین بلوچستان پر آزادی، خودمختاری اور خوشحالی کے ساتھ سربلند اور باوقار زندگی بسر کرے گی۔ یہی یقین بلوچ نیشنلزم کا جوہر اور قومی آزادی کی تحریک کا ابدی سرچشمہ ہے۔

بلوچ قوم نے جس استقامت اور غیر متزلزل عزم کے ساتھ قابض پاکستانی ریاست کی سفاکیت، ظلم اور جابرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت کی ہے، وہ انسانی تاریخ میں ایک درخشاں اور ناقابلِ فراموش مثال کے طور پر محفوظ ہو چکی ہے۔ بلوچ سرزمین، جو صدیوں سے بیرونی قبضے اور نوآبادیاتی جبر کا شکار رہی ہے، آج بھی اپنی تاریخ کے ایک سنگین، خونچکاں اور صبر آزما مرحلے سے گزر رہی ہے۔
تاہم اس تمام تر ظلم و بربریت، اور نسل در نسل جاری اذیتوں کے باوجود بلوچ قوم کی آزادی کی تمنا اور خواہش نہ کبھی ماند پڑی ہے اور نہ ہی ماند پڑ سکتی ہے۔ یہ خواہش بلوچ قومی شعور کا وہ زندہ سرچشمہ ہے جو ہر دور میں اپنی نئی صورتوں کے ساتھ ابھرتا رہا ہے اور مستقبل میں بھی اپنی روشنی سے آزادی کی راہ کو منور کرتا رہے گا۔

یہ حقیقت کسی صورت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ بلوچ قومی غلامی کی ذمہ داری صرف قابض ریاست پر عائد نہیں ہوتی، بلکہ اس کے کل پرزے، کٹھ پتلی جماعتیں، مخصوص گروہ اور ذاتی مفادات کے اسیر افراد و نام نہاد بلوچ نمائندہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ان عناصر نے بلوچ قومی مسئلے کو زمینی حقیقتوں کے برعکس توڑ مروڑ کر پیش کیا، اور وقتی مراعات یا اقتدار کے عارضی حصے کے حصول کے لیے بلوچ قوم کے کاز کے ساتھ بدترین تاریخی بے وفائی کی۔انہوں نے قابض ریاست کے نوآبادیاتی بیانیے کو تقویت دینے میں براہِ راست اور بلواسطہ دونوں طریقوں سے کردار ادا کیا۔ ان میں سرفراز بگٹی جیسے کٹھ پتلی کردار واضح مثال ہیں، جو قابض ریاست کے آلہ کار کے طور پر سامنے آئے۔ اسی طرح بلوچ کے نام پر بننے والی وہ جماعتیں بھی اس جرم میں شریک ہیں جو محض شراکتِ اقتدار کے لالچ میں قابض ریاست کی پارلیمنٹ کا حصہ بنیں، اور یوں بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو پسِ پشت ڈال کر بلوچ وطن کو ایک صوبہ اور پنجاب کو ’’بڑا بھائی‘‘ کہنے جیسے ناقابلِ معافی کردار ادا کیے۔یہ تمام رویے نہ صرف قومی غداری کے مترادف ہیں بلکہ بلوچ تاریخ کے صفحات پر بدنما داغ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

اس خونریزی اور مظالم کے ارتکاب کے لیے وہ لوگ کبھی بھی، اور کسی بھی شرط پر، بری الزمہ نہیں ہو سکتے جنہوں نے غلامی کی زنجیروں کو اپنی سیاسی رویوں اور عارضی مفادات کے ذریعے مضبوط کیا۔ جنہوں نے بلوچ قوم کو وسائل میں حصہ داری، کٹھ پتلی اقتدار میں شراکت، ترقی کے وعدے، اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے دھوکہ و فریب میں رکھ کر قابض ریاست سے مراعات حاصل کیں، وہ اس تاریخی جرم کے ذمہ دار ہیں۔یہ تمام عمل نہ صرف بلوچ قومی آزادی کے خلاف ایک غداری ہے بلکہ تاریخ ان کے کردار کو بدنام اور ناقابلِ معافی قرار دیتا ہے۔ تاریخ کا ایک منطقی اور آفاقی اصول یہ ہے کہ سرزمین سے خیانت اور بے ایمانی کبھی فراموش نہیں کی جاتی۔ وہ افراد اور جماعتیں جو اپنے وقتی مفاد یا ریاستی پشت پناہی کی آڑ میں قومی اصولوں کے خلاف عمل کرتے ہیں، تاریخ ضرور ان کا احتساب کرے گی، چاہے وہ آج محفوظ اور بلا خطر نظر آئیں۔

یہ یاد رکھا جائے کہ آج بلوچ جو اجتماعی سزا کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں گناہ گار اور بے گناہ میں تقسیم کرنے کے بجائے ان کی قربانیوں، مزاحمت اور جدوجہد کا اعتراف کیا جائے۔ ان جبری طور پر گمشدہ افراد کو قومی تحریک کے راہبر اور جنگی قیدی سمجھا جائے۔ ہمیں اپنے ذہن سے یہ خیال نکال دینا چاہیے کہ قابض یا اس کے ادارے کبھی منصف ہو سکتے ہیں۔ ڈاکہ ڈالنے والے اور مجرم سے انصاف طلب کرنا، انصاف اور انسانی وقار کے تقاضے نہیں، بلکہ ایک مضحکہ خیز تضاد ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ حقیقت واضح ہے کہ قابض یا سامراجی ادارے کبھی بھی منصف نہیں ہو سکتے۔ انصاف اور انسانی وقار کی بنیادیں ایسی طاقتوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتی، جو خود ظلم، جبر اور غیر انسانی اقدامات میں ملوث ہوں۔اس تناظر میں یہ واضح ہونا چاہیے کہ عدالت اور انصاف کے حقیقی تقاضے صرف وہی پورے کر سکتے ہیں جو آزاد، غیر جانبدار، اور انسانی حقوق کے عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ جب قابض طاقتیں خود ظلم اور تشدد کی بنیاد ہیں، تو ان سے انصاف کی توقع رکھنا از خود ایک تضاد ہے قابض ریاست کے انصاف پر انحصار کے تصور کو رد کرنا، تاریخ اور عالمی انسانی ضمیر کے مطابق ایک لازمی اقدام ہے۔ یہی اصول، انسانی وقار، قومی آزادی، اور بین الاقوامی قانون کی حفاظت کی ضامن ہے،

آزادی کسی رعایت، خیرات یا رحم کی اپیل کے نتیجے میں حاصل نہیں ہوتی۔ تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ آزادی ہمیشہ قربانی، ایثار اور خون کے تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی قوموں کو نصیب ہوتی ہے۔ غلامی اور محکومی کی زنجیریں کسی فاتح یا قابض کے دل میں پیدا ہونے والی نرمی سے نہیں ٹوٹتیں، بلکہ مقبوضہ اقوام اپنی قومی ارادے، سیاسی شعور اور انقلابی مزاحمت سے ان زنجیروں کو کاٹتی ہیں۔ بلوچ سرزمین کی تاریخ مزاحمت کی تاریخ ہے۔ نوآبادیاتی قوتوں اور بعد ازاں مرکزی ریاستی اداروں نے بلوچ قوم کو محکوم رکھنے کے لیے عسکری طاقت، معاشی استحصال اور سیاسی جبر کو مستقل پالیسی بنایا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلوچ اجتماعی شعور میں آزادی کی تمنا کبھی بجھ نہیں سکی۔ ہر دور میں شہداء، اور انقلابی رہنماؤں نے اپنی زندگیاں قربان کر کے یہ پیغام دیا کہ آزادی کوئی تحفہ نہیں، بلکہ اس کے لیے سخت ترین قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔آزادی کا راستہ کبھی ہموار نہیں ہوتا۔ یہ ایک پلِ صراط ہے جس پر چلنے کے لیے عزم، صبر اور استقلال درکار ہوتا ہے۔ جانی و جسمانی نقصانات اس جدوجہد کا لازمی حصہ ہیں۔ بلوچ قومی تحریک میں ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں، ہزاروں کو قید و بند کی صعوبتیں سہنی پڑیں، اور ہزاروں خاندانوں نے جلاوطنی برداشت کی۔ یہ تمام قربانیاں اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ قومی آزادی کے لیے کوئی شارٹ کٹ یا آسان راستہ موجود نہیں۔

دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بھی مقبوضہ قوم اپیل یا رحم کے ذریعے آزاد نہیں ہوئی۔ الجزائر نے ایک صدی سے زائد نوآبادیاتی قبضے کے بعد لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی۔ ویت نام نے سامراجی طاقتوں کے خلاف سخت جدوجہد کے بعد آزادی کا پرچم بلند کیا۔ اسی طرح ہندوستا کی آزادی بھی صدیوں پر محیط مزاحمت، قید و بند اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی۔ بلوچ قومی تحریک بھی اسی تسلسل میں ایک زندہ مثال ہے، جہاں قربانی کے بغیر آزادی کا کوئی تصور ممکن نہیں۔
آزادی محض جغرافیائی یا سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک فکری، تہذیبی اور وجودی سوال ہے۔ غلامی انسان سے نہ صرف زمین چھین لیتی ہے بلکہ اس کی زبان، ثقافت اور شناخت کو بھی مٹا دینے کی کوشش کرتی ہے۔ آزادی کی قیمت قربانی ہے، لیکن یہ قربانی بیکار نہیں جاتی۔ ہر شہید کا خون، ہر قیدی کی تکلیف اور ہر جلاوطن بلوچ کا صبر آنے والی نسلوں کے لیے آزادی کا چراغ روشن کرتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے، جو وقتی نشیب و فرازکے باوجود اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔

۔ تاریخ گواہ ہے کہ آزادی صرف ان اقوام کو نصیب ہوتی ہے جو اپنی تقدیر کی صورت حال کو فعال اور خود مختار انداز میں تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بلوچ قوم کے لیے یہ راہ نہایت دشوار اور چیلنجز سے بھرپور ہے، لیکن یہی مشکلات اسے اپنی قومی شناخت، سیاسی شعور اور اجتماعی یکجہتی کو مستحکم کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔قربانی کا تصور بلوچ قومی شعور میں صرف فرد کی حد تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی فکری اور عملی اصول بن چکا ہے۔ یہی استقامت، تاریخی ضابطے اور اجتماعی سوچ بلوچ قوم کو خارجی دباؤ، داخلی انتشار اور نوآبادیاتی یا سامراجی مداخلت کے باوجود اپنی منزل کی طرف بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ استقامت اور قربانی کے اصول ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ آزادی کی راہ میں قربانی، صبر اور شعور ایک مثلث کی طرح کام کرتے ہیں: قربانی اصول و اخلاق کا آئینہ ہے، استقامت عمل و عزم کی علامت، اور شعور سمت و رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد میں یہ مثلث ہر فرد، ہر خاندان اور ہر سماجی طبقے کے کردار کو مربوط کرتی ہے، تاکہ آزادی کے حصول کا سفر ایک عملی اور حقیقی تاریخ میں ڈھل جائے۔
عالمی تجربات سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ اقوام کی آزادی اور خودمختاری صرف اس وقت ممکن ہوتی ہے جب معاشرتی یکجہتی، قومی شعور اور قربانی کی روایت مضبوط ہو۔ بلوچ قومی آزادی کا حصول اسی وقت حقیقت میں بدلے گا جب بلوچ قوم اجتماعی طور پر اس راستے کی سختیوں کو قبول کرے گی اور قربانی کو اپنی سیاسی و قومی زندگی کا اصول بنائے۔ اگر بلوچ قوم اس قربانی کی روایت کو استقامت کے ساتھ آگے بڑھاتی ہے تو کوئی طاقت اسے اپنی منزل، یعنی ایک آزاد اورخودمختار ریاست کی تعمیر نو ، تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا دھرنا جاری، جبری گمشدگیوں کے عالمی دن پر کانفرنس

اتوار اگست 31 , 2025
بلوچ لاپتہ افراد اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے لواحقین کا احتجاجی دھرنا اسلام آباد میں 47 روز سے جاری ہے۔ جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کے موقع پر دھرنے کے شرکاء کی جانب سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس کا عنوان تھا: “یاد بطور شناخت، […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ