"بیلہ کا درخت اور خون کی سرگوشیاں”

تحریر : رامین بلوچ

31 اگست 2009ء کا دن بلوچستان کی تاریخ میں ایک اور خونچکاں باب کے طور پر درج ہے۔ اسی روز بیلہ کی سڑک سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور ایک ویرانے میں ایک درخت سے لٹکی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔ بعد ازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ نے یہ اندوہنا حقیقت آشکار کی کہ یہ جسدِ خاکی بلوچ فرزند اور بلوچ سیاسی راہشون شہید رسول بخش کا تھا۔
شہید رسول بخش کو ریاستی اداروں نے چند دن قبل، 25 اگست کی صبح اوتھل سے جبری گمشدگی کےبعد ازاں انہیں ناقابلِ بیان جسمانی اور ذہنی اذیتوں سے گزارا گیا۔ ان کے جسم پر فوجی بوٹوں کے نشانات تھے۔ سگریٹ سے جلانے کے داغ ان کی تکالیف کی عکاسی کر رہے تھے۔ ان کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ سینے پر کیلوں کے نشانات واضح تھے اور پشت پر تیز آلے سے نفرت انگیز الفاظ کندہ کیے گئے تھے:”بی ایل اے، بی این ایم مردہ باد”۔

شہید رسول بخش سے میری رفاقت محض ایک واقفیت نہیں بلکہ ایک نظریاتی وشعوری رشتہ تھی۔ شہادت سے محض ایک ماہ قبل میں اُن کے ساتھ ایک تنظیمی دورے پر شامل ہوا، مگر یہ واحد سفر نہ تھا۔ ہم نے متعدد بار ایک ساتھ راہیں طے کیں، اور ہر سفر میں اُن کی شخصیت کا ایک نیا پہلو میرے سامنے نمایاں ہوتا۔ وہ ایک باحوصلہ، نڈر اور مہربان سنگت تھے، جنہیں سنگتی کی تقدیس اور اس کی معنویت کا بھرپور ادراک تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ محض ایک سیاسی کیڈر نہیں بلکہ اپنی قوم اور سرزمین کے ساتھ عہد وفا باندھنے والے حقیقی فرزند تھے۔ شہادت سے دو سال قبل ہربوئی میں جب انہوں نے اپنے ہاتھوں میں گلزمین کی مٹی تھامی اور یہ حلف اٹھایا کہ وہ اس خاک وطن کا وفادار بیٹا ثابت ہوگا، تو یہ عہد محض الفاظ کا جامہ نہ تھا بلکہ ایک زندہ حقیقت تھی جو بعد ازاں ان کی جدوجہد اور شہادت میں پوری طرح جلوہ گر ہوئی۔

اپنی مسلسل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں شہید رسول بخش بلوچ نیشنل موومنٹ کے صفِ اول کے رہنماؤں میں شامل ہوئے۔ وہ ملیر کے پالاری باغ میں منعقدہ مرکزی کونسل سیشن میں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے پر منتخب ہوئے۔ یہ انتخاب نہ صرف اُن کی صلاحیتوں کا اعتراف تھا بلکہ اس بات کی گواہی بھی کہ وہ اپنی قوم کی جدوجہدِ آزادی کا ایک مضبوط ستون تھے۔شہید رسول بخش کی زندگی مزاحمت، وفا اور قربانی کا استعارہ تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آزادی کا راستہ آسان نہیں، لیکن اس کی دشواریوں کے باوجود اُن کا حوصلہ کبھی متزلزل نہ ہوا۔ اُن کی شہادت نے بلوچ قومی جدوجہد میں ایک نئی روح پھونکی اور اُنہیں تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش کردار بنا دیا۔آج جب ہم اُن کی یاد کو تازہ کرتے ہیں تو یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ شہید رسول بخش محض ایک فرد نہیں تھے، بلکہ ایک نظریہ، ایک عہد اور ایک تحریک تھے۔ اُن کی زندگی اور شہادت آنے والی نسلوں کے لیے پیغام ہے کہ وفاداری، مزاحمت اور قربانی ہی وہ بنیادیں ہیں جن پر آزادی اور وقار کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔

شہید رسول بخش پر ڈھائی جانے والی جسمانی و ذہنی اذیتیں محض ایک بلوچ فرزند پر کیے جانے والے مظالم نہ تھے۔ یہ کسی فردِ واحد پر جبر کی کہانی نہیں بلکہ بلوچ قومی مزاحمت کے خلاف قابض ریاستی ذہنیت کی سفاکی اور درندگی کا عریاں اظہار تھے۔ اُن پر ہونے والا تشدد دراصل اُس نوآبادیاتی سوچ کی نمائندگی کرتا تھا جو ہمیشہ مقبوضہ کو غلام رکھنے کے لیے تشدد، خوف اور جبر کا سہارا لیتی ہے۔یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ شہید رسول بخش جیسے باشعور اور مزاحمتی کارکنوں کو نشانہ بنانا اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ وہ بلوچ قومی آزادی کے علمبردار اور مزاحمت کی علامت تھے۔ اُنہیں اذیتیں دینا اور بالآخر شہید کرنا، دراصل اُن ارمانوں کو کچلنے کی ایک مکروہ کوشش تھی جو بلوچ قوم نے آزادی، وقار اور خودمختاری کی صورت میں دیکھا ہے۔

شہید رسول بخش کی قربانی بلوچ قومی جدوجہد کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اُن کے جسم پر لگنے والی ہر ضرب اور ہر زخم اس حقیقت کی گواہی ہے کہ آزادی کے راستے میں دی جانے والی قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں۔ اُن کی شہادت نے بلوچ عوام کو یہ پیغام دیا کہ غلامی کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے مزاحمت کی قندیل جلائے رکھنا ہی واحد راستہ ہے۔
کسی شہید کے جسم کو اس حد تک مسخ کرنا محض ایک قتل نہیں ہوتا، بلکہ یہ قابض قوتوں کے جنگی جرائم اور دہشت گردانہ چہرے کی عریاں تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ سفاکی دراصل ایک منصوبہ بند پیغام ہے کہ آزادی کی آرزو رکھنے والوں کا انجام کیا ہوگا۔ مگر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب استعمار اپنی اصل وحشیانہ صورت میں سامنے آتا ہے تو مقبوضہ قوموں کی خاموشی ٹوٹتی ہے اور اُن کے اندر مزاحمت کی نئی ابھار اور لہریں جنم لیتی ہیں۔

شہید رسول بخش کی مسخ شدہ جسد خاکی ایک بدن ہی نہیں تھا بلکہ اذیتوں سے لکھا ہوا ایک کھلا ہوا صحیفہ تھا۔ ایک ایسا صحیفہ جسے دنیا نے پڑھا اور سمجھا کہ طاقت کے نشے میں اندھا استعمار اپنے تمام تر جبر کے باوجود حقِ مزاحمت کو ختم نہیں کرسکتا۔ اُن کا جسم نوآبادیاتی تشدد کی زندہ شہادت تھا اور اُن کی شہادت اس بات کا اعلان کہ قربانیاں ہی مقبوضہ قوموں کو زندہ رکھتی ہیں۔قابض قوتیں جب انسانی جسم کو اذیت کا نشان بناتی ہیں تو وہ سمجھتی ہیں کہ خوف پھیل جائے گا اور مزاحمت دم توڑ دے گی۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہر زخم، ہر شکنجہ اور ہر بہایا گیا قطرۂ خون مقبوضہ قوم کے شعور کو مزید بیدار کرتا ہے۔استعمار کی سب سے بڑی شکست یہی ہے کہ وہ شریر کو تو مسخ کرسکتا ہے مگر نظریے کو ختم نہیں کرسکتا۔ شہیدرسول بخش کی قربانی اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ مقبوضہ قوموں کے فرزند جب اپنے وجود کو قربان کر دیتے ہیں تو اُن کی یاد ایک اجتماعی ضمیر میں بدل جاتی ہے، اور یہی ضمیر قابض کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔
طاقت کے نشے میں اندھے استعمار کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قومیں جبر سے نہیں مٹتیں بلکہ جبر ہی اُنہیں متحد اور زندہ رکھتا ہے۔

شہید کی پشت پر کندہ کیے گئے الفاظ "بی ایل اے، بی این ایم مردہ باد” دراصل خوف اور نفرت پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی۔ لیکن یہ الفاظ حقیقت میں شہید کے خون کے ساتھ زندہ ہو کر ایک اور بیانیہ تشکیل دیتے ہیں:وہ بلوچ ڈسکورس کہ جبر کے باوجود مقبوضہ قوم اپنے تحریک سے دستبردار نہیں ہوتی۔تشدد سے نظریات کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ہر زخمی جسم تاریخ میں ایک زندہ دستاویز بن جاتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جبر جب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو وہ خود اپنی موت کو آواز دیتا ہے۔ شہید رسول بخش کے جسم پر کندہ الفاظ قابض ریاست کی ناکامی کا اعلان تھے۔
شہید رسول بخش آج بھی زندہ ہیں، اپنی قوم کی یادداشت میں، اپنی سرزمین کی مٹی میں، اور ان کہانیوں میں جو استعمار کو شکست دے کر انسانیت کی سربلندی کی گواہی بن جاتی ہیں۔

شہید رسول بخش کی لاش سے برآمد ہونے والے فوجی بوٹوں کے نشانات اور سگریٹ سے جلائے گئے داغ محض جسم پر لگے ہوئے زخم نہیں تھے، بلکہ یہ تاریخ کے سامنے کھڑے کیے گئے سوالات تھے۔ یہ سوال کہ کیا قومیں زندہ رہنے کے لیے اپنے فرزندوں کو قربان نہیں کرتیں؟ کیا آزادی کی آرزو کو فوجی بوٹوں کے نشانوں اور سگریٹ کے داغوں سے مٹا دینا ممکن ہے؟استعمار نے سمجھا کہ اذیتوں اور تشدد کے ذریعے مزاحمت کو دبایا جا سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جبر نے کبھی کسی تحریک کو ختم نہیں کیا۔ برعکس اس کے، ہر زخم نے ایک نئی بیداری کو جنم دیا اور ہر شہید نے زندہ رہنے والوں کو اپنی زمین اور اپنی شناخت کے لیے کھڑا ہونے کا نیا حوصلہ عطا کیا۔

رسول بخش کے جسم پر ثبت ہر داغ، ہر زخم اور ہر شکنجہ ایک ایسی تحریر تھا جو دنیا کو بتا رہا تھا کہ آزادی کی تمنا کو طاقت کے بل پر دفن نہیں کیا جا سکتا۔ قابض کے بوٹ وقتی طور پر جسموں کو کچل سکتے ہیں، مگر دلوں سے اُٹھنے والی آزادی کی صدا کو کبھی ختم نہیں کر سکتے۔
شہید رسول بخش کی قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تاریخ کا دھارا ہمیشہ اُنہی کے حق میں بہتا ہے جو سچائی اور آزادی کے راستے پر ڈٹ جاتے ہیں۔ طاقتور اپنی بربریت سے وقتی خوف پیدا کرتا ہے، لیکن یہی بربریت مقبوضہ اقوام کی صفوں میں نئی تازہ دم بیداری، یکجہتی اور مزاحمت کو جنم دیتی ہے۔آج رسول بخش کے زخم ہمارے لیے چراغ ہیں۔ وہ زخم جن سے بہنے والا خون ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ آزادی کوئی خیرات نہیں، بلکہ یہ قربانیوں کے ذریعے حاصل ہونے والا حق ہے۔ یہ قربانیاں ہمیں یہ یقین دلاتی ہیں کہ قابض کے بوٹوں کے نشانات مٹ جائیں گے، سگریٹ کے داغ ماند پڑ جائیں گے، لیکن شہداء کی کہانی اور اُن کا پیغام نسل در نسل زندہ رہے گا۔ کیونکہ تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ اُن کے حق میں ہوتا ہے جو اپنی زمین اور اپنی شناخت کے لیے آخری سانس تک ڈٹے رہتے ہیں۔

شہید رسول بخش کی مسخ شدہ لاش محض ایک سانحہ نہیں بلکہ بلوچ قوم کے لیے ایک روشن تمثیل ہے۔ یہ تمثیل اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ آزادی دوست قوموں کے فرزند اپنی جانیں قربان تو کر دیتے ہیں، مگر اپنی سرزمین اور اپنی شناخت کے ساتھ غداری نہیں کرتے۔ اُن کے وجود کو تو شکنجوں میں کسا جا سکتا ہے، اُن کے جسموں پر ظلم کی داستانیں تحریر کی جا سکتی ہیں، مگر اُن کے خوابوں اور ارمانوں کو کبھی قید نہیں کیا جا سکتا۔رسول بخش کا خون محض زمین پر بہہ نہیں گیا، بلکہ درختوں کی جڑوں میں جذب ہو کر مزاحمت کی نئی کونپلوں میں ڈھل گیا۔ یہی خون آج بلوچ قوم کے اجتماعی شعور میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے اور نئی نسل کو اس بات کا یقین دلا رہا ہے کہ قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔شہید رسول بخش کی لاش بلوچ قوم کے ضمیر پر لکھی ہوئی ایک تحریر ہے، جو ہر فرد کو یہ پیغام دیتی ہے کہ غلامی کے اندھیروں کو توڑنے کے لیے حوصلہ، قربانی اور مزاحمت ناگزیر ہیں۔ اُن کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ آزادی کی مانگ کو لاشوں کے انبار سے ختم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ہر شہید ایک نئی بیداری کا نقطہ آغاز بنتا ہے۔

رسول بخش کی شہادت کا سانحہ محض ایک فرد کے خون کا قصہ نہیں تھا، بلکہ یہ قابض اور مقبوض کے درمیان جاری اُس صدیوں پرانی لڑائی کی تازہ داستان ہے جو آج بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ زندہ ہے۔ یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ مقبوضہ اقوام کے لہو سے لکھی جاتی ہے اور ہر شہید اپنے وجود سے اس جدوجہد کو دوام بخشتا ہے۔قابض قوت کے لیے یہ قتل ایک حربہ تھا، جس کے ذریعے وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ آزادی کے خواب دیکھنے والوں کا انجام یہی ہے۔ لیکن رسول بخش کی شہادت نے یہ اعلان کر دیا کہ آزادی کی جدوجہد کو کسی کے جسمانی قتل سے دبایا نہیں جا سکتا۔ رسول بخش کا خون تاریخ کے صفحات پر ایک مستقل نوٹ ہے جو آنے والی نسلوں کو یاد دلاتا رہے گا کہ غلامی اور آزادی کے بیچ کی لکیر خون سے کھینچی جاتی ہے۔ وہ اس لڑائی کی علامت ہیں جو صرف بلوچ قوم کی نہیں بلکہ دنیا کی تمام مقبوضہ اقوام کی مشترکہ جدوجہد ہے۔

بیلہ کا وہ درخت آج بھی ایک خاموش مگر بولتا ہوا گواہ ہے۔ گواہ اس حقیقت کا کہ کس طرح ایک قوم کا بہادر سپوت اذیتوں کے پہاڑ سہہ کر امر ہو گیا۔ وہ درخت تاریخ کے صفحات پر کندہ ایک علامت ہے، جو آنے والی نسلوں کو یہ یاد دلاتا رہے گا کہ آزادی محض خواب نہیں بلکہ قربانیوں کے لہو سے پروان چڑھنے والی حقیقت ہے۔یہ درخت اور یہ مٹی گواہی دیتے ہیں کہ شہید رسول بخش جیسے کردار محض فرد نہیں ہوتے، وہ پوری قوم کی روح اور اس کے اجتماعی ضمیر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اُن کی اذیت اور اُن کی قربانی بلوچ عوام کی اجتماعی یادداشت میں ایک ایسے چراغ کی صورت محفوظ ہو گئی ہے جو اندھیروں میں بھی راستہ دکھاتا ہے۔

تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ قومیں اپنے شہیدوں کے خون سے زندہ رہتی ہیں۔ وہ لہو جو درختوں کی جڑوں میں جذب ہو کر نئی کونپلیں اگاتا ہے، وہی لہو غلامی کے اندھیروں کو چیر کر آزادی کی صبح کو جنم دیتا ہے۔ رسول بخش کی شہادت اسی ابدی سچائی کی گواہی ہے کہ جبر عارضی ہوتا ہے لیکن مزاحمت دائمی۔بیلہ کا درخت اس قوم کو ہمیشہ یہ بتاتا رہے گا کہ استعمار کتنی ہی سفاکی اختیار کر لے، مزاحمت کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ وہ شاخیں جو آج خاموش دکھائی دیتی ہیں، دراصل مزاحمت کی سرگوشیاں ہیں۔ آنے والی نسلیں جب اس تاریخ کو پڑھیں گی تو یہ درخت، یہ مٹی اور یہ قربانیاں ان کے حوصلوں کو تازہ رکھیں گی۔شہید رسول بخش کی یاد ہمیں یہ سچ یاد دلاتی ہے کہ غلامی کی راتیں طویل ضرور ہوتی ہیں مگر ابدی نہیں۔ ان راتوں کو چیر کر جب آزادی کی صبح طلوع ہوتی ہے تو وہ انہی کے خون سے سرخ ہوتی ہے جنہوں نے اپنی جانیں اس مٹی پر قربان کیں۔ بیلہ کا درخت اسی صبح کا پیش خیمہ ہےایک صبح جو قربانیوں کے لہو سے جنم لیتی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس ایک بار پھر معطل، جعفر ایکسپریس جیکب آباد میں روک دی گئی

ہفتہ اگست 30 , 2025
بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے صوبائی حکومت کی درخواست پر 30 اگست سے 6 ستمبر تک موبائل فون انٹرنیٹ بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق یہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ