
تحریر: مہراج بلوچ
زرمبش مضمون
شال کی گلیوں، بازاروں اور تعلیمی اداروں میں آج ایک عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ شہر علم و تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ یہاں سے ایسے لوگ نکلے جنہوں نے اپنی قابلیت اور کردار سے نہ صرف اپنے علاقے بلکہ پورے ملک کا نام روشن کیا۔ مگر آج جب ہم موجودہ دور کے طلبہ پر نظر ڈالتے ہیں تو دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حالات کچھ اور ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔
تعلیم صرف کتابوں کا نام نہیں بلکہ انسان کے اخلاق، رویوں اور کردار کو سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن افسوس کہ آج اکثر طلبہ کلاس روم کے اندر اور باہر ایسی حرکات میں ملوث نظر آتے ہیں جو ایک طالب علم کے شایانِ شان نہیں ہوتیں۔ کلاسوں میں غیر سنجیدگی، شور شرابہ، استاد کی بے ادبی، اور باہر گلیوں میں وقت ضائع کرنے کی عادت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ رویے نہ صرف ان کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں بلکہ معاشرے میں بھی ایک منفی تاثر پیدا کر رہے ہیں۔
طالب علم کا اصل کردار یہ ہے کہ وہ اپنی پڑھائی میں محنت کرے، علم کو اپنی شخصیت کا زیور بنائے، اپنے رویے سے دوسروں کو متاثر کرے اور آنے والے کل کا ایک بہتر شہری بنے۔ مگر آج شال کے کئی اداروں میں اس کے برعکس منظر دکھائی دیتا ہے۔ طلبہ کی بڑی تعداد اپنی توانائیاں غلط سرگرمیوں پر ضائع کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا کی غیر ضروری مصروفیات، وقت کی بربادی اور ایک دوسرے کے ساتھ منفی مقابلہ بازی نے طلبہ کے ذہنوں کو بھٹکا دیا ہے۔
یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اگر یہی نوجوان، جو کل اس علاقے کے رہنما، ڈاکٹر، انجینئر، استاد اور افسر بننے والے ہیں، آج اپنا کردار مثبت نہیں بنائیں گے تو مستقبل کس سمت جائے گا؟ شال کی سرزمین کو اس وقت باشعور، تعلیم یافتہ اور ذمہ دار طلبہ کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ جب طلبہ اپنی ذمہ داری سمجھیں گے تو نہ صرف اپنی زندگی سنواریں گے بلکہ پورے معاشرے کو بہتر بنانے کا سبب بھی بنیں گے۔
اساتذہ کا بھی اس حوالے سے کردار نہایت اہم ہے۔ اگر استاد محض کتاب پڑھانے تک محدود رہیں اور طلبہ کی تربیت پر توجہ نہ دیں تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ نوجوان علم تو حاصل کر لیں گے لیکن کردار سے خالی ہوں گے۔ اسی طرح والدین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاق اور وقت کی قدر کرنا بھی سکھائیں۔
طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی توانائیوں کو مثبت سمت میں استعمال کریں۔ علم کو اپنا ہتھیار بنائیں، کتاب کو اپنا دوست بنائیں اور وقت کو اپنی سب سے بڑی دولت سمجھیں۔ کلاس روم کو محض وقت گزارنے کی جگہ نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنی زندگی بنانے کا ذریعہ بنائیں۔ اگر آج کے طلبہ یہ شعور حاصل کر لیں تو کل کا شال ایک روشن مثال بن سکتا ہے۔
آج شال کی سرزمین، جسے کبھی علم و تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا تھا، ایک بڑے المیے کا شکار ہے۔ یہ المیہ تعلیم کی کمی کا نہیں بلکہ تعلیم کے باوجود اخلاق کی گراوٹ کا ہے۔ طلبہ، جو کل کے معمار کہلاتے تھے، آج اپنی اصل پہچان کھو بیٹھے ہیں۔
کلاس روم کے اندر، جہاں علم کا چراغ جلنا چاہیے، وہاں شور و غوغا، استاد کی بے ادبی اور ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا عام ہو چکا ہے۔ کلاس کے باہر بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں۔ گلیوں، بازاروں اور تعلیمی اداروں کے اطراف بعض طلبہ ایسی حرکات کرتے ہیں جو شرمناک اور تکلیف دہ ہیں۔ کبھی لڑکیوں کے پیچھے جانا، کبھی ان کے راستے روکنا، کبھی نمبر لکھ کر پھینک دینا—یہ سب وہ کام ہیں جو ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو ہرگز زیب نہیں دیتے۔
سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب دوسرے شہروں کے لوگ شال کے طلبہ کے بارے میں سنتے ہیں تو یہی کہتے ہیں:”شال کے طالب علم بدتمیز ہیں، ان کا کردار درست نہیں ہے۔”
یوں چند افراد کی غلط حرکات پورے شہر کے تعلیمی ماحول کو بدنام کر دیتی ہیں۔ اس بدنامی کا بوجھ صرف ان چند افراد پر نہیں بلکہ ہر اس محنتی اور باکردار طالب علم پر بھی پڑتا ہے جو دل لگا کر پڑھائی کرتا ہے اور شال کا نام روشن کرنا چاہتا ہے۔
طلبہ کا اصل کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے علم، اخلاق اور رویے سے دوسروں کے لیے مثال قائم کریں۔ استاد کی عزت کریں، کلاس روم کو عبادت گاہ سمجھیں، اپنے وقت کو قیمتی جانیں، اور اپنی محنت سے اپنے اور اپنے علاقے کے لیے فخر کا باعث بنیں۔ لیکن آج جب یہ سب کچھ الٹا ہو رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ معاشرہ کس سمت جائے گا؟
اگر یہی روش جاری رہی تو آنے والے وقت میں شال کے طلبہ صرف مذاق کا نشانہ بنیں گے، اور یہاں سے نکلنے والا ہر نوجوان "بے کردار” کہلائے گا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب طلبہ کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنا نام کیوں مٹا رہے ہیں۔
شال کی سرزمین پر پچھلے مہینے ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں کے لوگ ہمیشہ غیرت، روایات اور عزت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ مگر اس بار ایک لڑکے نے ایسا قدم اٹھایا جو معاشرتی اقدار کے خلاف تھا۔ اس نے ایک لڑکی کے سامنے اپنا نمبر پھینک دیا، جیسے یہ کوئی کھیل یا مذاق ہو۔ یہ حرکت نہ صرف غیر ذمہ داری تھی بلکہ اس کے اخلاقی معیار کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
لیکن شال کی ایک باہمت لڑکی نے اس عمل کو برداشت کرنے کے بجائے سچائی کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے وہ نمبر عوام کے سامنے شائع کر دیا تاکہ سب کو معلوم ہو کہ اس حرکت کے پیچھے کون ہے۔ اس کے اس اقدام سے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ کسی خوف یا کمزوری کا شکار نہیں۔ وہ اتنی باحوصلہ تھی کہ کسی گھٹیا حرکت کو چھپانے یا خاموش رہنے کے بجائے اسے بے نقاب کر دیا۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ شال کی بیٹیاں کمزور نہیں ہیں۔ وہ جب چاہیں اپنی آواز بلند کر کے برائی کو بے نقاب کر سکتی ہیں۔ اس لڑکی نے یہ ثابت کر دیا کہ عزت چھپانے سے نہیں بلکہ سچائی دکھانے سے بچتی ہے۔
ایسے واقعات ہم سب کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر ایک طرف کچھ لوگ اپنی گھٹیا سوچ سے معاشرے کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف شال جیسی بیٹیاں اپنی جرات اور سچائی سے مثال قائم کر رہی ہیں۔
شال کی اس بیٹی نے یہ پیغام دیا ہے کہ اب وقت بدل چکا ہے۔ عورت اپنے حق اور عزت کے لیے آواز بلند کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ شال کا یہ واقعہ صرف ایک لڑکی اور ایک لڑکے کا معاملہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ جب کوئی انسان دوسروں کی عزت کو کھیل سمجھ کر پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دراصل وہ اپنی ہی عزت کو گراتا ہے۔ لیکن جب کوئی لڑکی غیرت اور جرات کے ساتھ کھڑی ہو کر اس برائی کو بے نقاب کرتی ہے تو وہ نہ صرف اپنی حفاظت کرتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک روشن مثال چھوڑ جاتی ہے۔