بلوچ قومی تحریک:ریاست کے لے بڑھتا ہوا خسارہ!شہید ڈاکٹر منان بلوچ کا بولان وائس کو دیئے گئے۔انٹریو کا متن مترجم۔ رامین بلوچ


بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابقہ سیکریٹری جنرل شہید ڈاکٹر منان نے مارچ 2012کو بولان وائس کے ایڈیٹر کو بذریعہ فون انٹریو دیتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان میں جاری تحریک آزادی ریاست کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کرچکاہے۔اپنے اس انٹریو میں وہ بلوچ قوم کو بیرونی امداد ملنے کی تردید کرتے ہوئے کہتاہے کہ بلوچ تحریک آزادی اپنی عوام پر انحصار کرتی ہے۔ان کا کہناہے کہ بلوچ قوم کی تربیت و تعلیم نیشنلزم پر مبنی ہے۔ وہ دعوے سے کہتاہے کہ بلوچ برسرزمین آزادی کی سیاسی جدوجہد ناکام نہیں ہوا البتہ ریاست کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی پر بندشیں اور پابندیاں ہیں اور برسرزمین بلوچ سیاسی جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کی ریاستی کوششیں جاری ہے لیکن پارٹی نئی حکمت عملیوں کے ساتھ ان چیلنجز سے نمٹے گی۔وہ اپنے اس انٹریومیں جاری بلوچ نسل کشی اور انسانی بحران کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قومی آزادی کے لے جدوجہدکرنے والے مسلح سیاسی و اخلاقی حمایت کرتاہے ڈاکٹر منان بلوچ نیشنل پارٹی کو ریاست کی بی ٹیم قرار دیتے ہوئے کہتاہے کہ یہ ریاست کی کاسہ لیس جماعت ہے۔جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی قیادت اور پالیسی سازوں کو شدید تنقید بناتے ہوئے کہتاہے کہ بی این پی کے کارکنوں کی فکر و نظریہ میں مثبت اور آزادی دوست پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اپنے دیئے گئے انٹریو میں جنگی محاذ پر لڑنے والے تمام آزادی پسند تنظیموں میں یکسان تصور کرتے ہوئے کسی داخلی تصادم کے ممکنہ امکان کو رد کرتاہے ان کے خیال میں مستقبل میں ان کی فکری ہم آہنگی یکجہتی اور اتحاد برقرار رہے گی۔

بولان وائس: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بلوچ جدوجہد کے نتیجے میں ریاست کمزور چکی ہے؟ اگر ہاں، تو کس حد تک؟ لیکن دوسری طرف، ہمارے سامنے بلوچ عوام کے نقصانات بھی واضح ہیں۔ اسی لیے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اب بھی طاقتور ہے اور معمول کے مطابق کام کر رہی ہے۔
ڈاکٹر منان بلوچ: دیکھیں، یہ بالکل واضح ہے کہ بلوچ جدوجہد کے باعث نہ صرف ریاست کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔بلکہ وہ اس کے نتیجہ میں اپنی بین الاقوامی حمایت بھی کھو چکاہے۔ اس بوکھلاہٹ اور شکست خوردگی میں پاکستانی فوج بلوچ عوام کی نسل کشی شروع کر دی ہے، ان کی جھونپڑیوں پر بمباری کررہی ہے، اور حتی کہ پینے کے پانیوں میں زہر تک ملایا ہے، جس کی بنیاد پر عالمی دنیا کا اس سے اعتبار اٹھ چکاہے۔ دوسری جانب، انہوں نے برطانوی حکام سے مطالبہ کیاہے کہ وہ آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے بلوچ رہنماؤں کی سرگرمیوں کو روکیں۔ اسی طرح، انہوں نے امریکہ سے بھی مطالبہ کیا کہ بلوچ مسلح تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا جائے، مگر امریکہ نے اسے مسترد کر دیا، اس طرح برطانیہ نے بھی ان کے بے معنی مطالبات کو مسترد کردیاہے۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ وہ پاکستانی مین سٹریم میڈیا کا مدد لے رہاہے، جیسے کہ حامد میر، سلیم صافی اور مجید اصغر جیسے صحافیوں کے مضامین، جو بظاہر بلوچوں کے حق میں لکھے جا رہے ہیں، درحقیقت بلوچ تحریک کو نقصان پہنچانے کی ایک خاموش سازش ہے۔
جہاں تک بلوچوں کے نقصانات کا تعلق ہے، میں انہیں نقصان نہیں سمجھتا، یہ قربانیاں ہیں، یہ قومی جدوجہد کا اٹوٹ اور ناگزیر حصہ ہے انہیں رد نہیں کیاجاسکتا یہ ممکن ہے بلکہ یہ قومی آزادی کی جدوجہد کی ایندھن کا ذریعہ ہیں۔ اگر ہم دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ قوموں نے صرف آزادی کے حصول کے لیے خون بہایا، اور بلوچ قوم بھی اسی مقصد کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔ اسی لیے میں ان قربانیوں کو نقصان نہیں کہتا۔
بولان وائس:بلوچ متحد نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بلوچ جوآزادی کے حامی ہونے کا دعویدار ہے، وہ مختلف دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ وہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ 
ڈاکٹر منان بلوچ: میں اس سوال سے مکمل اتفاق نہیں کر سکتا کہ بلوچ آزادی پسند متحد نہیں ہیں۔ فرض کریں کہ اگر وہ آپس میں جڑے نہ ہو تھے؛ تو وہ ریاست کے خلاف اس پیمانہ پر نہیں لڑ سکتے تھے۔ امریکی کانگریس میں بلوچ آزادی کے متعلق بل پیش کرنے کے بعد، پاکستانی میڈیا نے براہمداغ بگٹی، حیر بیار مری، ڈاکٹر اللہ نذر، بی این ایم کے رہنماؤں، اور بی ایس او آزاد کے رہنماؤں کے انٹرویوز لیے۔لیکن آپ سمیت کسی کو ان کے الگ الگ بیانات میں کوئی اختلافی پہلو نظر نہیں آیا، اس کا مطلب بلوچ آذادی کے نکتہ پر متحد ہیں۔
آپ کے زہن میں ہونا چاہیے کہ بلوچ آزادی پسند سیاسی اور عسکری محازوں پرمتحد ہے لیکن ہر ایک اپنی طریقہ کار پالیسی اور لائحہ عمل ہے لیکن قومی آزادی کے حوالہ سے ان کی جدوجہد مشترک اور متحد ہے۔ اس میں ابہام نہیں ہونا چاہیے، کہ بلوچ عسکری تنظیمیں اگر آپس میں مربوط اورمتحد نہ ہوتے،تو وہ ایک دوسرے کے خلاف کسی بیانیہ کا اظہار کرتے، لیکن ایسا بلکل نہیں ہے۔
جہاں تک بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)کا تعلق ہے، وہ دشمن کی مدد کرتے ہیں۔ان جماعتوں کی علیحدہ اور غیر متحدہ موقف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان جیسی جماعتوں کو دنیا کی تاریخ میں نوآبادیاتی قوتوں کی طرف سے ایسے رٹے رٹائے نعرے دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ آزادی کی تحریکوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرسکے۔ بلوچستان میں بھی یہی نوآبادیاتی طرز سیاست کا احیا ء کیاگیاہے تاکہ آزادی کی تحریک کو نام نہاد قوم پرستی کے کارڈ کے ساتھ کمزور کیاجاسکے۔
بولان وائس:اگر BNM، BRP، BSO(آزاد)، اور دیگر آزاد ی دوست جماعتیں اور گروپس خیر بخش مری کو اپنا لیڈر مانتے ہیں، تو وہ سب کو ایک جماعت میں ضم ہونے کے لئے خیر بخش مری کی راہنمائی کیوں نہیں لیتے ؟ 
ڈاکٹر منان بلوچ: جی ہاں، خیر بخش مری بلوچوں کے مشترکہ رہنما ہیں، اور وہ آزادی کے لیے جدوجہد کررہاہے۔تمام آزادی پسندوں کوان کے ساتھ بھروسہ کا رشتہ ہیں کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام پارٹیوں کا انضمام اس وقت پر منحصر ہے۔ جب سب ایک اشتراک عمل سے گزر کر اس ایک سپریم کونسل کے مرحلہ واریت پر اس نکتہ پر بھی آسکتے ہیں، لیکن اس وقت بھی ان جماعتوں کے درمیان باہمی ہم آہنگی اور رابطہ ہیں۔

بولان وائس: بلوچستان کے بارے میں امریکی کردار اور قرارداد کو آپ کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں؟ جب کہ امریکہ کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس نے کبھی مظلوم قوموں کی حمایت نہیں کی؟ اور دانشوروں کا خیال ہے کہ امریکہ اور اسرائیل بلوچوں کو دیگر مظلوم قوموں سے الگ کر کے ان کے وسائل پر قبضہ کر لیں گے۔ اس نکتے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
ڈاکٹر منان بلوچ: میں آپ کو واضح کردوں کہ ہم اپنی تحریک اپنے دست بازو اور اپنی عوامی طاقت سے چلا رہے ہیں ، اور ہم نے امریکہ سمیت کسی سے بھی کبھی مشروط مدد نہیں مانگی، کہ آزادی کے بعد ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان دنیا کی نظروں میں ہے۔ امریکہ، بھارت، چین وغیرہ تمام ممالک کے اپنے مفادات بلوچستان میں ہیں۔ ہم ان کے ساتھ نہیں جانے والے کیونکہ ہماری جدوجہد بلوچ قوم کی نشاۃ ثانیہ کے لیے ہے، نہ کہ کسی کی غلامی کے لیے۔ ہم ان کی سیاسی اور اخلاقی حمایت چاہتے ہیں، غلامی نہیں، کیونکہ غلامی غلامی ہے، چاہے پاکستان کی ہو یا امریکہ کی بہرحال غلامی ہوتی ہے۔
بولان وائس:آپ بلوچ جنگجوؤں کی موومنٹ اور خیالات کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا آزادی ملنے کے بعد وہ آپس میں نہیں لڑیں گے؟
ڈاکٹر منان: جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ بلوچ قوم ایک سیکولر قوم ہے، مختلف ماہرین بلوچستان آئے، اور ان کی تحقیق سے ثابت ہوچکاہے کہ بلوچ سیکولر ذہنیت رکھتے ہیں۔ ان کے آپس میں لڑنے کا کوئی امکان نہیں،البتہ کچھ حد تک بے قاعدگیاں ضرورہو سکتی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، ان کے درمیان کوئی بڑا تصادم نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ایک قیادت یا مرکزیت پر یقین رکھتے ہیں۔
بولان وائس: آپ بلوچستان میں چین کی موجودگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ بلوچوں کے وسائل کا بھی استحصال کر رہا ہے؟
ڈاکٹر منان: چین کی طرف سے مختلف منصوبے چلا ہے جارہے ہیں، اور یہاں تک کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر گوادر کی گہری بندرگاہ تعمیر کرنے کا مزموم ارادہ رکھتاہے، جسے بلوچ تحریک نے کسی حدتک روک دی ہیں ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادی حاصل کرنے سے پہلے بلوچ اپنی دولت کو دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار سے نہیں بچاسکتے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بلوچوں نے چین کو تنبیہ کی ہے کہ وہ بلوچ قومی وسائل کا استحصال بند کرے، بلخصوص پر سیندک سے لوٹ مار کا سلسلہ ترک کرے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے نتیجے میں مستقبل میں چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم نہیں رہ سکیں گے۔۔ 
بولان وائس: ہندوستان میں، نکسلی قوم کو سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر پر تعلیم دیاجاتاہے اوران ہی خیالات و نظریات کے حامل ارکان کو اپنی تحریک میں شامل کرتے ہیں۔اس حوالہ سے کیا آپ کی پارٹی بھی کوئی کام کر رہی ہے؟
ڈاکٹر منان: بلوچ قوم کی اپنی جغرافیائی حیثیت، تاریخ اور قومی تہذیب ہے، اور آج کی دنیامیں جو حالات واقعات پیش آرہے ہیں،وہ بلوچ عوام کو سکھائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی مرکزی کمیٹی کا رکن یا کوئی اور سینئر پارٹی کا عہدیدار مختلف علاقوں کا دورہ کرے تو ان امور پر بات چیت کی جاتی ہے اور بلوچ قوم کو ان سے آگاہ کیاجاتاہے۔ اس طرح قیادت لوگوں کو پارٹی میں شامل ہونے کے لے قائل کرتی ہے۔
دوسرا ذریعہ ادب ہے۔ اس میں، پوسٹرز، اسٹیکرز، پمفلٹس،کتابیں اور پارٹی کے ترجمان”زرمبش میگزین“ شامل ہے ہیں۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان ”سگار“ بھی بلوچ قوم کی شعوری و نظریاتی تربیت کے لئے اہم کردار ادا کرتاہے۔۔ تیسرا زریعہ بلوچ لکھاری، بی این ایم اور دیگر آزادی دوست کارکنوں کی تحریریں ہیں جو بلوچ عوام تک قومی آزادی اور پارٹی نظریات کو پہنچانے اور انہیں تحریک میں شامل ہونے کے لئے مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
بولان وائس:یک قسم کی گوریلا جنگ شروع ہو چکی ہے، جب کہ ریاست نے بلوچوں کے قتل اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، اسے کیسے روکا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر منان: اگر بلوچوں کو اغوا اور قتل کیا جا رہا ہے، تو وہ ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں اگر ریاست بلوچوں کو قتل کر رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ طاقتور ہیں، اور ریاست ان سے خوفزدہ ہے۔ اگر ریاست قتل و اغوا نہ کرے، تو ہمیں با اثر نہیں سمجھا جائے گا۔ اس حوالہ سے چیئرمین ماؤ کا ایک قول ہے:اگر دشمن انقلابیوں کے خلاف لڑتا ہے، یا ظلم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انقلابی طاقت حاصل کر چکے ہیں، اور مخالف قوت یا رد انقلابیوں نے اپنی شکست تسلیم کر رہی ہے۔”
بلوچوں کا قتل و اغوا اس وقت ختم ہوگا جب بلوچ اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔
بولان وائس: دو سال پہلے ایک رہنما نے کہا تھا کہ ” برسر زمین سیاست ناکام ہو جائے گی”۔ اور اب یہ سچ ثابت ہو رہا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر منان بلوچ: سنو، میں بی این ایم کا سیکریٹری جنرل ہوں، میں کہتا ہوں کہ اگر سرفیس سیاست ناکام ہو جائے تو ہمارا وجود ناممکن ہو جائے گا، لیکن بلوچ عوام بڑی تعداد میں ہماری پارٹی میں موجود ہیں۔ ہمارے نامور راہنما ئغلام محمد بلوچ کو شہید کیا گیا، ہمارے کئی کارکن جبری طور پر گمشدہ ہیں اور کئی کو قتل کر دیا گیا، مگر ہم حسب معمول کام کر رہے ہیں۔ اگر بی ایس او’آزاد)پر نظر ڈالیں تو اس کی قیادت اور کارکنان بڑی تعداد میں شہید کیے جاچکے ہیں، لیکن وہ تنظیم آج بھی موجود ہے اور جدوجہدکر رہی ہے۔ جس نے بھی برسر زمین سیاست کی ناکامی کی بات کی، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
بولان وائس: اس سے پہلے روس بلوچستان کے مسئلے پر سرگرم تھا، مگر فی الحال خاموش ہے۔ کیا یہ ویٹو پاور ریاست بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کرے گی؟
ڈاکٹر منان بلوچ: بین الاقوامی سطح پر کوئی کسی کا مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ سیلگ ہیریسن کی کتاب میں لکھا ہے کہ روس کہتا ہے کہ اگر وہ بلوچ تحریک کی حمایت کرے تو پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر اس کے لیے مسئلہ پیدا کر سکتا ہے، اسی لیے وہ خاموش ہے۔ جیسا کہ خیر بخش مری نے کہا تھا”روس نے بلوچوں کو انتہائی معمولی مدد دی، اتنی ہی جتنی ایک روٹی کے برابر، اس سے زیادہ نہیں۔”
تمام عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت بلوچوں کی حمایت کرتی ہیں، لیکن بلوچ اپنے قومی مفادات ان کے لیے قربان نہیں کرنا چاہتی۔
بولان وائس: ریاست اپنے مذہبی انتہا پسندوں کو بلوچوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔لبرل بلوچ اس پہلو سے کیسے نمٹیں گے؟
ڈاکٹر منان: اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو جرمن حکمرانوں نے چرچ کو حکمرانی کے لے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا۔ بعد میں گاندھی نے مسلمانوں کو اپنے حق میں کرنے کے لیے خلافت تحریک کی حمایت کی۔یقیناً، یہاں بھی اسلام کے نام پر بلوچ تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 1948 میں کئی بلوچ علماء نے بلوچ آزادی کے حق میں فتویٰ دیا تھا۔آج بھی بلوچ علماء آزادی کی تحریک کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور بلوچ شہداء کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بہت سے علماء عملی طور پر تحریک میں شامل ہیں، جن میں ایک نمایاں نام عبد الخالق بلوچ کا ہے، جو تحریک کا سرگرم حصہ رہے ہیں۔
بولان وائس: کیا بلوچ عوام کو غیر ملکی امداد حاصل ہے؟
ڈاکٹر منان بلوچ: میں آپ کو بتا دوں کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ اگر بلوچوں کو غیر ملکی امداد حاصل ہوتی تو بلوچستان کی صورتحال بدل چکی ہوتی۔ بلوچ تحریک کو بلوچ خود سپورٹ کرتے ہیں، کوئی اور نہیں۔ زیادہ تر پنجابی ریاست بھارت اور دیگر ممالک پر الزام لگاتے ہیں، لیکن ان ممالک کے پاس جدید ترین اسلحہ اور ہتھیار ہیں، جبکہ بلوچوں کے پاس ایسا کچھ نہیں۔ امیر اور مال دار بلوچوں کی مدد اور مالی وسائل ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی امداد کا الزام غلط ہے۔
بولان وائس:پارٹی کے مالی وسائل کے حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟ کئی بلوچ لوگ تحریک سے الگ ہو گئے ہیں۔ اور بعض نے اپنے مفادات کے لیے دوسروں کا ساتھ دے دیا ہے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ دور میں بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر منان: اگر پارٹی ممبران کو مسائل درپیش ہوں تو قیادت ان کے حل کی کوشش کرتی ہے۔ جو شہید ہو چکے ہیں، یا جبری گمشدگی کا شکار ہو گئے ہیں، پارٹی ان کے گھریلو معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے، اور پارٹی اپنے کارکنوں کو بے سہارا نہیں چھوڑتی۔ لیکن جو لوگ لالچی ہیں۔ اور دولت کے پجاری ہیں، انہیں کوئی بھی قابو نہیں کر سکتا۔ وہ سرمایہ کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اور مادر وطن کی محبت یا کسی بھی اصول کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔
بولان وائس:براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری قبائلی رہنما ہیں۔ آپ ان کا موازنہ سیاسی رہنماؤں سے کیسے کریں گے؟
ڈاکٹر مناں: براہمداغ بگٹی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں، لیکن وہ قبائلی راہنماء بننے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ حیربیار مری پوری بلوچ قوم کی بات کرتے ہیں، وہ صرف اپنے قبیلے کی بات نہیں کرتے۔ دونوں رہنما بلوچ قوم کی بات کرتے ہیں، اور یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مری اور بگٹی قبائل کا تحریک میں شمولیت یا کردار دیگر بلوچ قبائل کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اگر وہاں قبائلیت ہوتا تو بگٹی قبیلہ طلال بگٹی کا ساتھ دیتے ور مری قبیلہ جنگیز خان مری کے ساتھ ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ دونوں بلوچ عوام کی فلاح وآزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
بولان وائس اگر پارٹی کے اندرونی انتخابات کے ذریعے کوئی عام آدمی قیادت کے لیے منتخب ہو جائے تو کیا براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری اسے قبول کریں گے؟
ڈاکٹر منان بلوچ: جیسا کہ آپ جانتے ہیں، حیربیار مری نے ہماری پارٹی کے حق میں بیان دیا ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ میں اور خلیل بلوچ
دونوں کا تعلق ایک متوسط طبقے کے خاندان سے ہے۔ اگر حیربیار مری کو عام لوگوں سے کوئی اختلاف ہوتا تو وہ ہماری پارٹی کو حقیقی بلوچ پارٹی نہ کہتے۔ جہاں تک براہمداغ بگٹی کا تعلق ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ بھی ایک عام آدمی کو اپنی پارٹی کا صدر تسلیم کر سکتے ہیں۔
بولان وائس: طبقاتی تفریق ختم کرنے کے لیے آپ کی پارٹی کیا اقدامات کر رہی ہے؟
ڈاکٹر منان: اگر کوئی سردار، غیر قبائلی، مزدور، کسان وغیرہ ہمارے ساتھ آزادی کی جدوجہد میں شامل ہیں، تو آزاد بلوچستان میں کوئی عدم مساوات نہیں ہوگی۔
بولان وائس:آپ کے خیال میں مستقبل قریب میں بلوچستان کی صورتحال کیا ہوگی؟
ڈاکٹر منان: میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا، میں صرف جدوجہد کر سکتا ہوں۔ نام نہاد جمہوری رہنما، خاص طور پر آصف علی زرداری، معافی مانگتے ہیں، لیکن ہمیں ان کی معافی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم کبھی ان کا حصہ نہیں رہے۔
بولان وائس:آپ کی پارٹی کا بی این پی (مینگل) اور نیشنل پارٹی سے کیا اختلاف ہے؟
ڈاکٹر مناں: ہم ہر پہلو سے ان دونوں پارٹیوں سے اختلاف رکھتے ہیں، کیونکہ بی این پی (مینگل) خود ارادیت کے نام پر ریاست اور آزادی دوست قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نیشنل پارٹی اسلام آباد میں بیٹھی ہے۔ جب امریکی کانگریس میں بلوچستان کے بارے میں بل پیش کیا گیا تو ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ یہ بل اسلام آباد کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے وہاں پہنچا۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر مالک بلوچ اس بل کے پیش ہونے پر پریشان ہیں کہ اسے امریکی کانگریس میں کیوں پیش کیا گیا؟!
بولان وائس: کیا آپ آباد کاروں بی این پی کے رہنماؤں، کارکنوں، اور نیشنل پارٹی سے منسلک افرادکے قتل کی مذمت کرتے ہیں؟
ڈاکٹر مناں: جنہیں بلوچ قومی فوج نے مارا ہے، ہم اس کی مذمت نہیں کرتے۔ لیکن جو دشمن کے ہاتھوں مارے گئے، ہم ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، خاص طور پر ایڈوکیٹ سلام اور ان کی کمسن بیٹی کے قتل کی۔ ہم بی این پی کے کارکنوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں، کیونکہ ہمیں ان سے کوئی ذاتی تنازعہ نہیں، صرف پارٹی قیادت کی پالیسیوں سے اختلاف ہے۔
بولان وائس: ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی نمائندہ اپنے دور حکومت میں پہلے بلوچوں کو قتل کرتے ہیں۔ پھر معافی بھی مانگتے ہیں،لیکن اگر کوئی بین الاقوامی طاقت بلوچ اور پاکستانی ریاست کے درمیان معاہدے کی ضمانت دے تو کیا آپ ان سے مذاکرات کریں گے؟ڈاکٹر منان بلوچ: نہیں، کبھی نہیں۔ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے، اور ہم کبھی بھی اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، چاہے کوئی بھی درمیان
میں آئے۔ لیکن اگر کوئی بین الاقوامی ہماری آزادی کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہے تو ہم پہل کریں گے لیکن اپنی آزادی پر کسی بھی قیمت پر کمپرومائز نہیں کریں گے۔
بولان وائس:کیا آزادی کے بعد تمام بلوچ قبائلی راہنماء اور عوام ایک ساتھ بیٹھیں گے، یا ان کی حالت افغانستان جیسی ہوگی جہاں احمد شاہ مسعود، حکمت یار اور دیگر نے اپنے اپنے گروپ بنائے اور مختلف علاقوں پر قبضہ کیا؟
ڈاکٹر منان: اگر ہم پہلے ہی ان ممکنہ خطرات کے بارے میں سوچیں گے تو لڑ نہیں سکیں گے۔ اگر کوئی لڑکا جنگ پر جانا چاہے اور اس کے دادا اسے پانی کی کمی اور دیگر خطر ناک راستوں یا مشکلات کا خوف دلاتے رہیں، تو وہ کبھی لڑنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ ہماری جنگ ادارہ جاتی بنیادوں پر ہے، کسی فرد یا شخصیت کے نام پر نہیں۔ ہم یہ جنگ بلوچ عوام کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، نہ کہ ان کے مسائل میں شدت پیدا کرنے کے لیے۔یہ سارے ریاستی پروپیگنڈہ اور حربے ہیں کہ وہ بلوچ قوم کوغیر متوقع خانہ جنگی سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان قبائلی سرداروں کو ریاست نے طاقت ور بنایاہے بلوچ عوام نے تو ان کو بلکل تنہاء چھوڑدیاہے یہ ریاستی پیرول پر کام کررہے ہیں جب بلوچ آزاد ہوگا اور پاکستانی ریاست کوشکست دے سکتاہے تو ان کے ایجنٹ سرداراور ان کی فرسودہ باقیات خود بخود ختم ہوں گے۔
بولان وائس:کیا آپ کے پڑوسی ممالک یا امریکہ اور روس آپ کی جغرافیائی تبدیلی کو قبول کریں گے؟
ڈاکٹر منان: آج اگر سوڈان، کوسوو اور دیگر نئے ممالک عالمی نقشے پر ابھر سکتے ہیں، اس میں نہ تو امریکہ شامل ہے۔ اس وقت ہمارا دشمن یا حریف قابض ریاست ہے اور اس نے بھی ہماری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، کسی تو ہمارے ملکیت پر دعویدار نہیں لیکن بلوچ اپنی سفارتی اور سیاسی عمل سے بلوچ جدوجہد کے زریعہ سے ان تمام ممالک کو قائل کر نے کی صلاحیت رکھتی ہے
بولان وائس:کیا موجودہ بلوچ تحریک گریٹ گیم کا حصہ ہے؟
ڈاکٹر مناں: نہیں، ایسا نہیں ہے۔ کچھ سال پہلے امریکہ نے بلوچستان کا ایک نقشہ بنایا تھا، لیکن بلوچ 1948 سے اپنی جدوجہد کر رہے ہیں۔ شہید غلام محمد بلوچ نے اپنی تقریر میں کہا تھا، "اگر امریکہ بلوچستان میں داخل ہونا چاہتا ہے، تو اسے ویتنام کی تاریخ نہیں بھولنی چاہیے“
بولان وائس:کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بی این ایم کے رہنما ذاتی شہرت یا ہیرو بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟
یہ درست نہیں ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو آپ اخبارات یا تقریروں میں بہت کم دیکھیں گے۔ جب میں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا، تو میں نے کوئی ایسی بیان بازی یا تقریر نہیں کی جو ہیرو ازم کی نشاندہی کرے۔ ہماری پارٹی کے بیانات صرف پارٹی کے ترجمان کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم شہرت کے پیچھے ہیں۔
بولان وائس:مشرقی بلوچستان میں ثقافتی استحصال اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر بلوچ ثقافت اور زبان تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ آپ کی پارٹی ثقافتی احیاء لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟
ڈاکٹر منان: کچھ سال پہلے ہمارے بچے "پاپا، آنٹی، انکل” جیسے الفاظ استعمال کرتے تھے، لیکن موجودہ بلوچ تحریک کی بدولت وہ اب اپنی بلوچی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ یہ تحریک بلوچوں میں شعور بیدار کر رہی ہے اور قومی شناخت کی محبت کو زندہ کر رہی ہے۔ صرف جنگ ہی ہماری ثقافت اور زبان کو محفوظ رکھ سکتی ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ ہم جنگ کے ذریعے اپنی ثقافت کو بچا سکتے ہیں۔
بولان وائس: بولان وائس کے زریعہ سے بلوچ عوام کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟
ڈاکٹر منان بلوچ: میں کوئی بڑی شخصیت نہیں ہوں، کہ کوئی پیغام دوں لیکن آزادی تمام بلوچوں کے لیے ہے۔ انہیں بی این ایم یا ان جماعتوں کا ساتھ دینا چاہیے جو آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، کیونکہ صرف آزادی ہی بلوچ عوام کے تمام مسائل کا حل اور بنیاد ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

میں بڑھتی ہوئی بلوچ نسل کشی سے بہت پریشان اور رنجیدہ ہوں۔ ڈاکٹر شلی بلوچ

جمعرات فروری 20 , 2025
بلوچ وومن فورم کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ وہ کیچ کے علاقے تمپ کوہاد میں نوجوان شاعر کریم بلوچ کے قتل اور روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی بلوچ نسل کشی پر انتہائی رنجیدہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ