ہاں، بلوچستان ایک بار پھر خون میں نہا گیا۔ یہ سلسلہ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی غیر متوقع۔ جبری گمشدگیاں اور ٹارگٹ کلنگ، ہہ سب ایک نہ ختم ہونے والے المیے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

حیات سبزل کو 3 جولائی 2024 کو میری باغ سے اغوا کیا گیا تھا۔ ان کی بازیابی کے لیے اہل خانہ نے تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اور انتظامیہ سے رابطہ کیا، لیکن بدقسمتی سے، 10 فروری 2025 کی رات ان کی لاش پنجگور سے ملی۔ اس واقعے کے بعد، ان کی لاش کو تربت کے شہید فدا احمد چوک لایا گیا، جہاں اس قتل کے خلاف دھرنا دیا جا رہا ہے۔
جبکہ دوسری جانب آج تربت میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے معروف شخصیت شریف ذاکر کو زخمی کردیا، واضح رہے کہ شریف ذاکر کے بیٹے کامل اور ان کا ایک رشتہِ دار بھی جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں۔
یہ واقعات بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک اور مثال ہے، جو مقامی آبادی میں شدید تشویش اور غم و غصے کا باعث بن رہی ہے۔
یہ صورتحال بلوچستان میں بڑھتے ہوئے انسانی حقوق کے بحران اور جبری گمشدگیوں کے المیے کی ایک اور المناک مثال ہے۔ حیات سبزل کی جبری گمشدگی کے بعد ان کی لاش کا ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے واقعات بدستور جاری ہیں، اور حکومتی ادارے یا تو اس مسئلے کے حل میں ناکام ہیں یا اس میں ملوث سمجھے جا رہے ہیں۔
اسی دوران تربت میں شریف ذاکر پر فائرنگ کا واقعہ مزید بے چینی اور عدم تحفظ کو جنم دے رہا ہے۔ ایسے حملے نہ صرف خوف و ہراس پھیلاتے ہیں بلکہ بلوچستان میں آزادیِ اظہار اور سیاسی و سماجی شخصیات کو نشانہ بنانے کے رجحان کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
ان واقعات پر حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں کو سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے، کیونکہ جبری گمشدگیاں اور تشدد کے یہ واقعات خطے میں پہلے سے موجود عدم استحکام کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔
حیات سبزل، شریف بلوچ، ظریف بلوچ، اللہ داد بلوچ، زکریا بلوچ، نوید حمید بلوچ، افضل بلوچ اور واحد رمضان جیسے نام صرف چند مثالیں ہیں، جو اس مسلسل جبر، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے شکار ہوئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے شہید فدا چوک پر تین روزہ احتجاجی کیمپ کا آج تیسرا دن ہے، جو نہ صرف ان مظالم کے خلاف ایک مزاحمتی قدم ہے بلکہ بلوچستان میں جاری نسل کشی کو دنیا کے سامنے لانے کی ایک کوشش بھی ہے۔ لیکن دوسری طرف، بلوچ فرزندوں کی ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ڈی سی کیچ کی جانب سے یہ کہنا تھا کہ "حیات سبزل بے گناہ ہے اور جلد باحفاظت گھر آجائے گا” صرف ایک دھوکہ ثابت ہوا، کیونکہ اس یقین دھانی کے بعد بھی اس کی لاش پنجگور میں پھینکی گئی۔ یہ واقعات اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں نہ صرف ملوث ہیں بلکہ متاثرہ خاندانوں کو جھوٹے دلاسے دے کر ان کے احتجاج کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سر شریف بلوچ جیسے اساتذہ پر حملے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے۔ تعلیمی شخصیات پر حملے دراصل علم، شعور اور آزادی اظہار پر حملہ ہیں، تاکہ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھا جائے اور ان میں خوف پیدا کیا جائے۔
یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی جبر میں تیزی آئی ہے، اور بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں، اساتذہ اور سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانے کا یہ سلسلہ ایک منظم نسل کشی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں حکومتی ادارے نہ صرف بلوچوں کی آواز کو دبا رہے ہیں بلکہ ان کی شناخت کو بھی مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس ظلم کے خلاف خاموش رہنا جرم کا مترادف ہوگا کیونکہ اب
خاموشی جرم ہے!۔ اور”خاموشی گناہ ہے، خاموشی کا مطلب اپنی باری کا انتظار ہے۔” بلوچوں کے خلاف اس ظلم پر خاموشی دراصل اس جبر کو مزید بڑھاوا دے سکتی ہے۔
ایسے میں بی وائی سی جیسے سیاسی پلیٹ فارمز، بلوچ عوام کے اجتماعی احتجاج اور عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ دنیا بلوچستان میں جاری اس قتل عام کو دیکھ سکے۔