بلوچستان میں موجودہ قدرتی وسائل کا استحصال صرف قیمتی معدنیات تک محدود نہیں ہے۔ حتی کہ بحر بلوچ اور دیگر علاقوں کے ریت اور بجری جیسے بنیادی قدرتی وسائل اور تعمیراتی مواد بھی چین کو فرائم کیا جارہاہے۔ بلوچستان میں چین کی کئی مائننگ کمپنیز جو مقامی دلالوں کے ساتھ خفیہ کان کنی اور ان کی پروسیسنگ کے عمل میں شریک ہے۔ اور انہیں خفیہ طریقہ سے مقامی افراد کے نام پر کان کنی کا ٹھیکہ دیا گیاہے۔ جس میں اندر طلب چین سرمایہ کاری کررہاہے۔ اور اس وسائل کو خفیہ طریقہ سے فوجی کانوائیوں کی شکل میں لے جا یا جارہاہے، ان کی متعددمستند شواہد موجود ہیں۔یہ چین کے اقتصادی،معاشی طاقت اور توانائی کے شعبوں اور صنعتوں میں نہایت اہمیت کے حامل ہے۔ اس سے چین کے اقتصادی ترقی کو بہت زیادہ سہارا مل رہاہے۔
بلوچ وسائل کے اس بیدردی سے لوٹ مار کے وسائل میں پنجابی سٹبلشمنٹ سمیت کٹھ پتلی حکومت،مقامی سیاسی پارٹیاں جن میں نیشنل پارٹی اور دیگر کئی نیٹ ورک شامل ہے۔جو بلوچ وسائل کے لوٹ اور استحصال میں حصہ دار ہے۔ اس کے علاوہ بلوچ وطن کے سمندری وسائل فشریز (مچھلی کے وسائل)کا بھی چینی کمپنیاں بڑی مقدار میں شکار کررہی ہیں۔،چینی کمپنیاں گوادر اور پسنی میں ماہی گیری کے عمل کو صنعتی سطع پر انجام دیکر گہرے چینی ٹرالرز لے کرماہی گیری کے بڑے جالوں کے زریعہ مچھلیوں کا شکار کرنے کے ساتھ ساتھ سمندر ی ماحول کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ جہاں بلوچ ماہی گیر چھوٹی کشتیوں کے زریعہ اپنے روزی روٹی کا سامان کررہے تھے۔ چینی ٹرالرز نے ان سے ان کی واحد زریعہ معاش چھین لی ہے۔جوبلوچ ماہی گیری معیشت کابڑے پیمانے کانقصان ہے۔

سمندری وسائل بحر بلوچ کے آس پاس بلوچ آبادی کی معیشت کا بنیادی زریعہ ہے۔جہاں بلوچ ماہی گیر چھوٹی کشتیوں کے زریعہ چار پانچ گھنٹے کے سفر میں سوکلو تک کی مچھلی پکڑ سکتے تھے۔ لیکن ان چینی فشنگ ٹرالز نے انہیں اس نہج پر پہنچا دیاہے کہ وہ بمشکل ڈیزل کا خرچہ پورا کر سکتے ہیں ۔
یہاں یہ نوٹ کیاجائے، کہ فشنگ ٹرالرز میں جال پھینکنے اور کھینچنے کے لے بھاری مشینری کا استعمال کیا جاتاہے۔یہ ایک مخصوص قسم کا بڑا جال
ہوتاہے،جو طاقتور انجن اور دور تک گہرے سمندر میں لمبے عرصہ تک سفرکرنے کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں مچھلیاں پکڑکر انہیں فریز کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ماحول کے بقاء کے لئے کام کرنے والے ایک عالمی ادارےworld wide fund for natureنے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ٹرالنگ کے آلات سمندر کی تہہ کو تباہ کردیتے ہیں۔جب یہ چلتے ہیں تو سمندر میں جھاڑو پھیر دیتے ہیں۔ اور سطح کو”ہل“ کی طرح کھود دیتے ہیں۔ جس سے آبی حیات کو نقصان پہنچتاہے۔ اس جال میں مچھلی اور جھینگوں کے ساتھ چھوٹی مچھلیاں، مچھلیوں کے انڈے، اور ان کی آماجگاہوں تک سب کو کھینچ لیتے ہیں جو مچھلی کی نسل کشی کا باعث ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فشنگ ٹرالرزFishing Trawlersبحر بلوچ میں سمندری حیات کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔کیونک
ہ نہ صرف بالغ مچھلیوں کو پکڑتے ہیں، بلکہ ان کے Breeding Grounds کو بھی تباہ کردیتے ہیں،بحیرہ بلوچ میں مچھلیوں کی نسل کشی ایک سنگین مسئلہ ہے،جس کی وجہ سے سمندری حیات کاتوازن بگڑ رہاہے۔
بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں انسانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔
کیا چین کی سامراجی پالیسیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے سوشلسٹ یا انسان دوست ملک کہنا انسانیت اور سوشلزم کی توہین نہیں ہے؟
جو ترقی انسانی نسل کشی،ان کی قدرتی وسائل کی لوٹ مار،زمینوں کی ضبطگی، ماحولیاتی تبائی، مزدور قوت کے استحصال، سمندر حیات کی نسل کشی اور قوموں کی آزادی،و خود مختیاریوں کو سلب کرنے پر مبنی ہوتو ایسی ترقی ہر صورت میں ایک سامراجی ترقی پر مبنی ہے کیونکہ یہ طاقت اور استحصال پر مبنی ہے۔جس سے انسانیت یا کسی قوم یا خطہ کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کے سات لاکھ سے زائدآبادی کی روزی روٹی بحر بلوچ سے جڑی ہوئی ہے۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیری اور سمندری وسائل پر انحصار کرنے والے بلوچ آبادیوں کی معیشت اسی پر مبنی ہے۔ بلکہ ان کی مجموعی زندگی کی دارو مدار انہی سمندری وسائل سے وابسطہ ہے۔
لیکن جہان اب تیس چینی فشنگ ٹرالرز ڈیپ سی پالیسی کے تحت قابض ریاست کی لائسنز پر سینکڑوں کلومیٹر دور تک ماہی گیری کرکے سمندری حیات کو نقصان دینے کے ساتھ ساتھ، بلوچ ماہی گیر جن کی معاش اور زندگی ان ہی سمندری وسائل سے منسلک ہے۔ لیکن چینی فشنگ کمپنیاں ان سے ان کی معاشی زرائع پیداوار پر قابض ہو کر نہ صرف ان سے ان کی کئی صدیوں پر مشتمل روزگار چھین رہے ہیں،بلکہ ان کے جینیاتی وسائل پر غیر متناسب اثرات ڈال رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بلوچستان کے معدنی وسائل کا چین کی صنعتی ترقی میں کلیدی رول ہے۔ یہاں کے معدنی ذخائر نہ صرف چین کوضروری خام مال فراہم کررہے ہیں،بلکہ ان ذخائر کا استعمال چین کی مختلف صنعتوں میں بھی ہورہاہے۔
جوچین کی صنعتوں میں چینی آلات کی تیاری جیسے الیکٹرانکس آلات، ٹیکنالوجی اور مینو فیکچرنگ کے شعبہ میں استعمال ہوتے ہیں جن کو کمپیوٹرز،ٹی وی،کیمرے موبائل فونز، آٹوموبائلز،سولر پینلز،مکینکل آلات،ہائبرڈ گاڑیوں اور فضائی و بحری جہازوں کے پرزے، اس کے علاوہ رنگ،پلاسٹک، کھاد، ادویات بیٹری اور ڈیجیٹل آلات تعمیرات، توانائی اور حتی کے کیمیائی ہتھیاروں میں بھی استعمال میں لائے جارہے ہیں۔
بلوچستان چین کے لے سونے کا چڑیا ہی نہیں بلکہ سونے کا ”ہمالیہ“ ثابت ہواہے۔ خاص طور پر بلوچ وطن کی معدنی وسائل، جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت چین کی اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی تجارتی نیٹ ورک کی توسیع کے لے معاون ثابت ہوچکی ہے۔
اس وقت تک چین بلوچستان کے کھربوں سے زیادہ کی مالیت پر مبنی معدنی وسائل کو پنجابی کالونائزر کی تعاون سے چوری کرچکاہے۔ اور
مزید کھربوں مالیت پر مبنی معدنیات پر چین کا نظر ہے جن کی عالمی مارکیٹ میں بہت بڑی مانگ ہے۔
چین اس وقت سیندھک سے روزانہ پندرہ ہزار ٹن خالص سونا اور کئی قسم کے کچے دھات ٹنوں کے حساب سے لوٹ رہاہے۔سیندک جو
بلوچستان کا ”سہریں ڈک“ یعنی سونے کاٹیلہ ہے۔جہاں چین اپنے بڑھتے ہوئے سامراجی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لے نظریں مرکوز کرکے گدھوں کی مانند کھڑی ہے۔
اس کے علاوہ تیل و گیس کی تلاش میں چینی کمپنیاں جن میں چائنا نیشنل پٹرولیم کارپوریشن سرگرم ہیں۔ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں بلخصوص قلات زون ہربوئی، شیخڑی ، محمد تاوہ، نیچارہ،پندران، مکھی، مرو،ڈھاڈر، سبی،کوہلو، تربت، ڈیرہ بگٹی، چاغی اور گوادر کے ساحلی علاقہ جہاں پاکستانی حکومت کے تعاون سے نہ صرف جغرافیائی سروے کیا ہے۔ بلکہ بعض علاقوں میں سالوں تک ایف سی کے سیکورٹی دستوں کے بندوبست میں رہ کر“ ڈرلنگ“اور کھدائی بھی شروع کی ہے۔جہاں ڈرلنگ رگ، ہائیڈرولک فریکچرنگ ٹیکنالوجی،گہرے سینسرز سمیت ہائی ٹیک مشینری استعمال کی جارہی ہے۔ جو بلوچ توانائی کے ذخائرکے بے رحمانہ استحصالی منصوبوں پر مشتمل ہے۔تیل و گیس کی تلاش کئے جانے والے چینی کمپنیوں کی سرگرمیاں پہلے بہت زیادہ تھے،لیکن اب بلوچ مسلح جدوجہد کی برق رفتاری سے محدود ہورہے ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھاجائے کہ چینی کمپنیاں بلوچستان میں اپنی تجارتی مفادات کے لے بلوچ قدرتی وسائل کو عالمی مارکیٹ میں ایکسپلائیٹ کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے جس بے رحمانہ اور غیر قانونی طریقہ سے ڈرلنگ کی ہے۔ اس سے ممکنہ خدشہ ہے کہ ہائی ٹیک مشینریوں کے استعمال سے زیر زمین پانی کی سطح میں تبدیلی،زمین کی ساخت اور سمندری حیات پرسنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مثلا اس سے زیر زمین پانی میں نمکین، کیمیائی اجزاء ور آلودگی شامل ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی اور زراعت کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔دوسرا غیر متوازن اور بے ضابطہ ڈرلنگ جو زمین کی ساخت کو متاثر کرکے زلزلہ،لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر قدرتی آفات کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ اور حال ہی تین ہفتہ پہلے نیچارہ ہربوئی، محمدتاوہ اور پندران میں زلزلہ کی وجہ بھی ممکنہ طور پر یہی غیر متوازن ڈرلنگ ہے۔کیونکہ ان مخصوص ایریاز میں اچانک زلزلہ کا آنا اور صرف ان ہی علاقوں کے حدود تک محدود ہونا یہ ثابت کرتاہے یہ وہی UnregulatedDrilling کے منفی اثرات ہے جو آہستہ آہستہ نمایاں ہورہے ہیں۔
ہم یہاں ایک دفعہ پھر یہ دہرانا چاہتے ہیں،کہ چین گزشتہ پچیس سالوں سے جس کرشماتی اور گلوبل ترقی کا شور مچارہاہے۔ وہ ترقی قدرتی یا اچانک واقعہ نہیں ہے ۔بلکہ چین کی معاشی اور اقتصادی طاقت کا بڑاحصہ بلوچ وطن اور کئی دیگر خطوں کے وسائل کی لوٹ مار، کمزور ممالک پر اقتصادی دباؤ اور معاشی اجارہ داری قائم کرنے کی مکروہ کوششوں پر منحصر ہے۔
یہی وسائل چین کی معیشت کو”ایندھن“ یا”آکسیجن“ فرائم کرتے ہیں۔ چین کی معاشی طاقت کا یہ ماڈل دوسرے ممالک کے قدرتی وسائل کے استحصال سے چل رہاہے۔جو خطہ میں ”نیا سامراج“کے طور پر ابھر رہاہے۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں،کہ بیجنگ اور اسلام آباد بلوچ تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لے مشترکہ جنگی شراکت دار ہے۔ اور چین بلوچستان میں اپن عسکری موجودگی کو وسعت دینے کے لئے پنجابی امپرلسٹ کے ہمراہی میں یہاں کے کا سہ لیس پارٹیوں کی حصہ داری سے بلوچ
قوم کی نسل کشی پر مبنی گوادر پورٹ کو ایک ملٹری پورٹ بنانے کی تگ دو میں ہیں۔
لیکن بلوچ مسلح اور سیاسی جدوجہد کے پیش نظر اس وقت سی پیک اور ان سے منسلک پروجیکٹس چائنا کے لے ایک ٹیسٹ کیس ثابت
ہوچکاہے۔ اور حالیہ مزاحمتی اور فدائیانہ حملوں نے چینی سرمایہ کاروں کے ان منصوبوں کو خاک میں ملادیاہے۔ اور سی پیک کا کام کسی حد تک رک گیاہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں سی پیک اور چین کے دیگر استحصالی پروجیکٹس نہ صرف بلوچستان میں حساس منصوبہ بن چکے ہیں،۔ بلکہ عالمی سطع پر بعض ممالک میں ان سامراجی منصوبوں کے خلاف شدید تحفظات اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ اور بلخصوص بلوچستان میں اسے جغرافیائی، سیاسی اور گوریلا جدوجہد جیسے سیکورٹی چیلنجز کا سامناہے۔