بلکہ اس کی ترقی، و معاشی نمو،کی بنیاد قبضہ گیریت، لوٹ مار اوراستحصالی پالیسیوں پر مشتمل ہے۔ ایک طرف چین نے نہ صرف چینی نیشنلزم کا راستہ خیرباد کیا،بلکہ سوشلزم کی نظریات کی بھی فاتحہ خوانی کی۔ اس کے علاوہ چین نے اپنی معاشی ترقی کے دوران کم قیمت ورک فورس یعنی سستے لیبر کا فائدہ اٹھاکر، دھوکہ دہی،ہیرا پھیری، اور مصنوعات کی کم قیمت، دستیابی کی خاطر غیر معیاری اور غیر پائیدار ی مصنوعات
بنانے، کاپی رائٹ اور جعل سازی جیسے حربوں سے استفادہ کیا۔جس نے اس کی صنعتوں کو عالمی مارکیٹ میں مسابقتی فائدہ دیا۔
سستی محنت کی اس دستیابی نے اس کے پیداواری اخراجات کو کم کرنے میں مددکی۔اس سے چین کی مصنوعات کی قیمتیں کم رہی۔ س کے نتیجہ میں چین نے عالمی مارکیٹ میں سستی مصنوعات فراہم کرکے بڑی مارکیٹ شیئر حاصل کی۔جو اس کی اقتصادی طاقت میں اضافہ کا باعث بنی۔چین عالمی سطع پر اپنی طاقت بڑھانے کے لئے مختلف حکمت عملیوں، اور حربوں کا استعمال کیا،جن میں افریقی اور ایشیائی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لے سرمایہ کاری،قرضوں اور تجارتی تعلقات کا استعمال کیا۔جہاں انہوں نے سڑکیں، بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور ریلوے لائنوں کی تعمیر کی۔ اور ان منصوبوں کے بدلے چین نے طویل المدتی سامراجی مفادات حاصل کئے۔اور ان ممالک پر اپنی سیاسی وا قتصادی اثرو رسوخ بڑھاکر ان کو قرضوں کے جال میں پھنسا یا، چین کی بیلٹ اور روڈ انیشی ایٹو(BRI)بھی اسی سامراجی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد ایشیا،یورپ،افریقہ کے میان اقتصادی روابط کو مضبوط کرناہے۔
چین اس منصوبہ کے ذریعہ اپنی سیاسی، مالی اور فوجی طاقت کا استعمال کررہاہے ۔چین نے کچھ ممالک میں اپنی فوجی اڈوں کی موجودگی بڑھائی ہے۔ اور اہم بندرگاہوں پر سٹریٹیجک کنٹرول حاصل کیاہے۔ (BRI)ایک اقتصادی منصوبہ نہیں بلکہ عسکری منصوبہ ہے۔
اس کے علاوہ چین ہ بلوچستان کے جیو پولیٹیکل حیثیت کاکا فائدہ اٹھاتے ہوئے گوادر بندگاہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اپنی معاشی وفوجی اثر رسوخ کو بڑھا نے ناکام کوششیں کررہی ہیں۔ جو بلوچ وطن کی آزادی اور متنازعہ حیثیت کے نہ صرف خلاف ہے۔ بلکہ اس سے جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے امن کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ چین کی یہ سامراجی حربہ ایک سنگین جیو پولیٹیکل مسئلہ ہے۔ جس کے خلاف بلوچ طویل عرصہ سے مزاحمت کررہے ہیں۔ اور اس کے سامراجی عزائم کو بلوچ وطن میں چیلنجز کا سامناہے۔، چین کی گوادر بندر گاہ پر قبضہ کا خواب غیر ملکی مداخلت اور سامراجی عزائم پر مبنی ہے۔ جسے پنجابی ریاست اور چینی حکومت بلوچ قومی قوتوں کی مرضی اور رضامندی کے بغیر آگے بڑھا رہے ہیں۔ چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر اپنی فوجی شراکت داری کو کر گوادر بندرگاہ اور سیندھک کے معدنی ذخائر کو لو ٹنے کے لئے بڑھاوا دے رہی ہے جو چین کی توسیع پسندانہ پالیسوں اور جنگی شراکت داریوں کی کھلی علامت ہے۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ 1970 کے دہائی آخر میں ”ڈینگ ژیاؤ پن“ کی قیادت میں چین ایک مکمل سامراجی روپ ا وڑھ لیاتھا۔اور اور وہی تسلسل”شی جن پنگ“ کی قیادت میں اب بھی جاری ہے۔ جسے چین کا خواب (Chinese Dream)کا نام دیا گیاہے۔

چین کی قبضہ گیرانہ پالیسیوں پر بحث کو سمیٹتے ہوئے، یہ کہاجاسکتا ہے کہ چین عالمی سطح پر اپنے اثر رسوخ کو بڑھانے کے لئے بڑے پیمانے پرسیاسی، اقتصادی اور فوجی اقدامات کررہاہے۔چین کے یہ پالیسیاں قبضہ گیری اور توسیع پسندی کی طور پر دیکھی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ چین”سن کیانگ“ پر دعویدار ہے۔ وہ چین کا کوئی فطری یا جغرافیائی حصہ نہیں، بلکہ وہ در اصل چینی سنکیانگ) Xinjiang ( نہیں ہے۔ بلکہ”مشرقی ترکستان“ہے جسے انیسویں صدی مین چین نے سنکیانگ کا نام دیا تھا۔جس پر1750 میں چنگ خاندان نے قبضہ کیا تھا۔ اور1884میں اس خطہ کا نام بدل کر سنکیا نگ رکھ دیا گیا۔ سنکیانگ کا یہ نیا نام چینی سامراجی پالیسی اور نوآبادیاتی تسلط کی علامت ہے۔ حالانکہ اس خطے کی جغرافیائی اور ثقافتی حالات چین سے بلکل مختلف ہے۔ وہ علیحدہ ثقافت، تاریخ، زبان اور شناخت رکھتے
ہیں۔وہاں ایغور قوم آباد ہے۔ اور اس وقت وہاں سیاسی اور مسلح جدوجہد کے ذریعہ آزادی کی کی تحریکیں جاری ہے۔ ترکستان اسلامک
پارٹی جو ایغور قوم کی آزادی کے لئے چین کے خلاف سیاسی اور عسکری سطح پر مسلح ہے۔
مشرقی ترکستان جسے چین نے اپنے نوآزادی کے بعداسے اپنے مکمل کنٹرول میں لیا تھاجو 16,64897مربع کلومیٹر پر مشتمل الگ ملک ہے۔ اگر یہ آزاد ہوجائے تو بلوچ وطن کی مانندجو دنیا کا آٹھواں بڑا اور یہ نوا ں ملک بن سکتاہے جسے چین اسے اپنا نام نہاد خود مختیار علاقہ Autonomous) Region) اور صوبہ ظاہر کرتاہے۔جو درست نہیں۔
بی بی سی کے ایک صحافی کیری”گریسی“ جس نے سنکیانگ کا دورہ کیا، تواس کو معلوم ہوئی کہ، چین بڑے پیمانے پر سنگیانگ میں ریاستی دہشت گردی کا زمہ دار ہے۔ جہاں مذہبی سیاسی، شہری اور اظہارے رائے کی آزادی پر مکمل پابندی ہے۔ ان کا کہناہے کہ میں نے وہاں وسیع پیمانے پر فوجی دستے، آرمڈ ٹرک، مسلح اہلکار،پولیس کی بھاری نفری اور کھوجی کتے دیکھے۔ جس سے لگتا تھاکہ چین وہاں بڑے پیمانے پر تشدد کررہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی سنکیانگ آنے سے دوروز قبل کم از کم پندرہ لوگ شہید کئے جاچکے تھے۔ جب کہ اسے معلو ہوا کہ پچھلے چھ ماہ میں کم ازکم دوسو لوگ شہید کئے جاچکے ہیں۔وہ لکھتاہے کہ جب میں نے ’کاشغر“ اور اور اس کے قریبی علاقوں میں بس پر سفر کیا، تو میں نے دیکھاکہ ہر چیک پوسٹ پر نوجوان”اویغور“اپنے آپ کو تلاشی کے لے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
ایغور انسانی حقوق کے کارکن”رحیمہ محموت“نے گزشتہ سال بی این ایم کے پانچویں بلوچستان کانفرنس میں اپنی خطاب میں کہی کہ”سی پیک ایغور نسل کشی اور بلوچستان کے استحصال کا سیا ہ منصوبہ ہے“ انہوں نے کہاکہ دونوں خطے وسائل سے مالا مال ہے۔ جسے چین فائدہ اٹھارہاہے۔ وہ مشرقی ترکستا ن پر چینی قبضہ کو بے نقاب کرتے ہوئے کہتی ہے، کہ سنکیانگ چین کا حصہ نہیں بلکہ چین اس پر بلجبر قابض ہے۔ انہوں نے اپنی خطاب میں کہاکہ، 2010 سے لے کر اب تک دس لاکھ سے زیادہ اویغورون کوحراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
انہوں نے بلوچوں، اویغوروں اور تبتیوں جیسے مقبوضہ اقوام کے مشترکہ جدوجہد پر زور دیا کہ ”ہم اپنی مشترکہ دشمن کا تعین کریں ِاور چین کی سامراجی عزائم کے خلاف بیداری پیدا کریں“
اس مندرجات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مشرقی ترکستان میں آزادی کی تحریکیں اپنی تاریخی، ثقافتی اور نسلی موجودگی
رکھتے ہوئے ”آزاد ایسٹ ترکستان“ کی قیام کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔
اویغور قوم چینی قوم سے بلکل مختلف ہے، ان کی تاریخ۔ زبان اور ثقافت الگ ہے۔حتی کہ ان کی زبان کا رسم الخط چینی زبان کے ”ہان“ رسم الخط سے بھی الگ ہے۔ وہ نسلی طور پر ترک ہے۔جہاں چین نے ”ہن چینیوں“ کو بڑے پیمانے پر آباد کرکے انہیں اقلیت میں بدلنے کی سازش کی ہے۔ ”ہن“جو مجموعی طور پرمشرقی ترکستان کی چالیس فیصد بنتی ہے۔ مقبوضہ سنکیانگ جس کے جغرافیہ اور رقبہ چین کے دوسرے صوبوں سے بہت بڑی ہے۔ اس کی سرحدین آٹھ ملکوں سے ملتی ہے۔ تاریخی طور پر سنکیانگ ایک آزاد ریاست تھی جو1944 سے 1949 تک”عوامی جمہوریہ ترکستان“ کے طور پر آزاد شناخت رکھتی تھی۔جس پر چین نے بلجبر قبضہ کرلی۔
اویغوروں کا ٹھوس موقف ہیں، کہ مشرقی ترکستان کا چین کے ساتھ رضامندانہ الحاق کی کوئی درست تا ریخی پس منظر یا ثبوت نہیں۔ بلکہ یہ
جبری الحاق ہے۔ جو فوج کشی کے زریعہ سے کی گئی۔ مشرقی ترکستان میں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے، جن میں معدنیات، توانائی کے زرائع تیل، چاندی، تانبہ، لتھیم،گیس، کوئلہ۔اور سونے کے بڑے بڑے ذخائر ہیں۔اور ”تاتار گیس فیلڈ“ بھی ان کے ملکیت ہے ۔ جو چین
کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتاہے۔ یہ زرعی حوالہ سے بھی ایک اہم خطہ ہے۔ اور اس میں آبی وسائل کی بھی بڑی مقدار موجود ہے۔ مشرقی ترکستان کا زرعی منظر نامہ، اور آبی دریائیں، چین کے معاشی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جہاں چین ان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر ان کا جابرانہ استحصال کررہاہے۔
چین کے موجودہ سامراجی عزائم سے آشکار ہوتاہے کہ، اگر چین کا عروج اس وقت ایک اہم عالمی اقتصادی حقیقت بن چکا ہے۔ لیکن یہ عالمی طاقتوں کے مقابلہ میں قلیل المدت ہوگا۔کیونکہ ان کے پاس امریکہ اور یورپ کے مقابلہ میں فیصلہ کن فوجی، یا تکنیکی برتری کی کمی اہم عنصر ہے، جنہیں نظر ا نداز نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ چین نے اپنی فوجی طاقت میں قابل ذکر اضافہ کیاہے، مگر مغربی ممالک بلخصوص امریکہ کے پاس جدید فوجی ٹیکنالوجی اور عالمی سطع پر رسائی کی طاقت موجود ہے۔ ان کے مقابلہ میں چین کی فوجی طاقت کا مرکز اپنے علاقے تک محدود ہے۔ اس کا عالمی سطح پر اتنا پھیلاؤ اور رسائی نہیں۔جتناکہ امریکہ اور نیٹو ممالک کے پاس ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چین کو بحیر ہند، بحر بلوچ یا بحر اوقیانوس تک رسائی میں سخت قسم کے چیلنجز کا سامناہے۔اس کے علاوہ چین کو عالمی سطح پر اقتصادی تعلقات، سیاسی تنازعات اور اندرونی استحکام جیسے مسائل کا سامناہے، چین کے جنوب میں جو سمند ر واقع ہے جس پر چین ناجائز طور پر دعویدار ہے ا۔ور اسے اپنے بحری ملکیت کا حصہ سمجھتاہے۔ جسے چین کے نقشہ میں نو ڈیش لائن (Nine- Dash- Line)کے طور پر شامل کیاگیاہے جو انگریزی Uکی شکل میں ظاہر کیا گیاہے ی۔ہ نشان زدہ لائن چین کے نقشہ میں اس لئے کھینچی گئی ہے، تاکہ وہ ان پانیوں او جزائر کو گھیرے رکھے۔ جو ویتنام،فلپائن، ملائیشیا، برونائی اور تائیوان کے درمیان واقع ہے۔ چین کے اس دعوے کو ویتنام، فلپائن، مالدیپ، برونائی، تائیوان اور دیگر ممالک مسترد کرچکے ہیں۔ جہاں چین نے اپنی فوجی موجودگی بڑھائی ہے۔ اور وہاں مصنوعی جزائر اور فوجی تنصیبات قائم کی ہے۔ جو عالمی سطؑح پر کشیدگی اور تنازعات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے علاہ دیگر چینی مقبوضہ جات خطوں میں، چین کی توسیع پسندانہ پالیسیوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کشیدگی بڑھائی ہے۔ جو چین کے موجودہ معاشی ابھار اور عروج کو محدود کرسکتے ہیں۔ موزمبیق میں
چینی کمپنیوں کی بند ہونے کی مثالیں اس بات کا غماز ہے،کہ چین کے سرمایہ کاری اور تجارتی پالیسیوں کو ہر جگہ چیلنجز کا سامناہے۔جس سے ایسا محسوس ہورہاہے کہ عالمی سطح پر چین کا عروج 13ویں صدی کی ”شاہراہ ریشم“ کی بنیاد پر منگول سلطنت کی طرح جلد ہی زوال کا شکار ہوگا۔
جو سوسال سے زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی، اور کرہ ارض سے اس کا نام و نشان مٹ گیا۔جو ایشیاء یورپ اور مشرق وسطی کے درمیان تجارت کا اہم راستہ تھا،لیکن اپنی توسیع پسندانہ اور سامراجی پالیسیوں کے باعث زوال کا شکار ہوگئی۔
چین کا عالمی عروج منگولوں کی سلطنت کی طرح ایک”محدود دورانیہ“ ثابت ہونے کے”قوی امکان“ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ تاریخ میں کئی بڑی سلطنتیں عروج حاصل کرنے کے بعد زوال کا شکا ہوچکے ہیں۔جن کی بنیاد امپرلسٹ پالیسیوں کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی۔
یہ تاریخ کا سبق ہے،کہ سامراجی طاقتیں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتے۔اور ان کی طویل المدت استحکام کی ضمانتیں نہیں ہوتی۔بلکہ وہ اپنے غیر انسانی پالیسیوں کی وجہ سے اپنے لئے خود گورکن پیدا کرتے ہیں۔ اگرچین اپنے پالیسیوں میں توازن نہیں رکھا، اور اپنی سامراجی، توسیع پسندانہ، اور جارحانہ حکمت عملی کو تبدیل نہیں کیا، تو ان کے زوال میں دیر نہیں لگے گی۔یہ تجزیاتی تناظر ممکنہ طور پر درست ثابت ہوسکتی ہے، کہ عالمی سیاسیت میں تبدیلیاں، چین کی سامراجی اور جنگی جرائم پر مبنی پالیسیاں ان کے عالمی عروج کے مستقبل کے ممکنہ خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چین کے خلاف انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں،مختلف خطوں میں تسلط کی مذموم ارادے، قبضہ گیریت اور بلوچستان میں جنگی جرائم پر مبنی شراکت داری کے درست الزامات عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو متاثر کرسکتے ہیں،
۔ (جاری ہے)