نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معائدے۔حصہ چہارم۔  تحریر رامین بلوچ

اس وقت ہمارے آس پاس چین کی ڈرامائی ترقی کا اس قدر واویلا ہے،  جیسے کہ زمین کی ٹیکنوٹک پلیٹس کی حرکت سے زلزلہ یاآتش فشان جیسے قدرتی آفات رونما ہونے سے جو ہنگامہ برپاء ہوتاہے۔ بلکل اسی مانند پنجابی امپرلسٹ،کچھ پاکستانی دانشورزاورچینی گماشتہ اینکرز کے، ساتھ ساتھ پنجابی ساختہ بلوچ جماعتیں، چین کی ڈرامائی ترقی کا خیر مقدم کرتے ہوئے، اسے جس طرح  بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔جیسے چین کی یہ غیرمعمولی ترقی ان کی سیاسی، سماجی،تکنیکی یا انقلابی ترقی ہے۔ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ، دلالی اور کاسہ لیسی کے عوض کمیشنز، تنخواہ، یا ریوینیو کے مد میں دستر خوان کے بھچے کھچے ہڈیوں کا ملنا الگ سی بات ہے۔ لیکن سامراج نہ کھبی کسی کو ترقی دی ہے، اور نہ ہی سامراج کی یہ فطرت  میں شامل ہے وہ کسی دوسرے مقبوضہ قوم کی ترقی کے لے کوئی اقدامات کرے۔

نوآبادیاتی اور سامراجی قوتوں نے عموما ترقی کے نام پر ہمیشہ سے  اپنے سیاسی اقتصادی اور فوجی مفادات کو تحفظ اور بڑھا وادیاہے۔ مثال کے طور پر برطانوی سامراج نے ہندوستان اور بلوچستان میں اپنی قبضہ کے دوران ترقی کی جو دعوی کئے، ریلوے لائن، سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے بنانے کے مقاصد میں ان کے استحصالی پالیسیاں شامل تھیں۔ برطانیہ کے لئے ہندوستان سونے کی چڑیا تھی۔
برطانوی راج کے دوران وہ ہندوستان کے سونے، چاندی ، ریشم  چمڑے ، کپاس  اور حتی کہ تمام زرائع پیداوار، زراعت، صنعت اور تجارت کو کنٹرول  میں رکھ کر اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔وہاں کے خام مال کو سستے  داموں میں خرید کر  عالمی منڈیوں میں مہنگے داموں میں فروخت کرکے ہندوستانیوں کا سفاکانہ استحصال کیا گیا۔

برطانیہ نے ہندوستان میں ”مغلیہ حکومت“ میں سب سے پہلے ایک سفیر ٹامس کو بھیجا۔ جو ایک خاص مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد تھا کہ انگلستان کو ہندوستان میں آزادانہ تجارت کا موقع دیا جائے۔ اس وقت جہانگیر ہندوستان کا سربراہ تھا، انہوں نے اس قسم کے تجارتی معائدے کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ انگلستان جیسے چھوٹے جزیرے کو ہندوستان کے مقابلے میں، اپنا مد مقابل نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن  ٹامس نے با رہا کوشش کرتے ہوئے ہندوستان کے ولی عہد شاہجان کے دور میں 1618 میں ایک معائدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہوگئے۔جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کو آزادانہ تجارت کا با ضابطہ پروانہ ملا۔جس نے چند ہی سالوں اور مجموعی طور پر دو سوسالوں میں ہندوستان کے وسائل کو اتنا لوٹا کہ کہ وہاں کے شاہ ان کے وظیفہ خور بن گئے۔

اس سلسلے میں ایک ماہر معاشیات مہناز مرچنٹ کا کہناہے کہ ”انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والی مجموعی مالی دھچکے کی کل رقم 2015  کے زر مبادلے کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے“ سترھویں صدی میں ہندوستان تن تنہا دنیا کی 22.6  فی صد دولت پیدا کرنے والا ملک تھا۔جو تمام یورپ کے مجموعی دولت کے برابر تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانیہ راج کے ہندوستان پر اقتدار کے دوسرے جو بھیانک اثرات مرتب ہوئے، وہ بہت خوفناک تھے۔برطانوی راج کے دوران صرف قحط سے تین کروڑ ہندوستانی اور بنگالی انسانی جانوں کا  ضیاع ہوا۔ جو تاریخ کے بدترین سفاکیوں میں سب سے اول رہا۔

  ماہرین معاشیات نے ہندوستان میں ہونے والے اس قحط کو
  قدرتی آفات کے بجائے برطانوی تجارتی استحصال(commercial expolation )کی علامت قراردی۔
ہندوستان میں آنے والے قحط سے ہندوستاں میں تین کروڑ گلے، سڑے انسانی ڈھانچوں کے حوالہ سے مشہور فلاسفر ویل ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ ”ہندوستان میں آنے والی خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ برطانوی قبضہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیر متوازن درآمد، اور ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہونے والے کسان انہیں ادا نہیں کرسکتے تھے۔۔۔
برطانوی راج مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی“
ان مثالوں سے ظاہر ہوتاں کہ نوآبادیاتی قوتیں وہ جو کچھ بھی  ”ترقی“ کے نام پر کرتاہے۔وہ صرف اپنے غیر قانونی قبضہ کو مستحکم کرنے،اور اپنے نفع اور فائدہ کا سوچتاہے۔

مقبوضہ قوم اپنے ذہن سے یہ غلط فہمی نکال دے کہ سامراجی درندگی کے تحت امن، خوشحالی اور ترقی کا تصور کیاجاسکتا ہو۔ بلکہ ان کی مودجودگی میں مقبوضہ سماج میں نہ صرف انسانی حقوق کی پائمالی ہوتی ہے۔ بلکہ سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی ناہمواری بڑھ جاتی ہیں۔ سامراجی طاقتیں درندہ صفت ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے نئے شکار تلاش کرتی ہیں۔ اور یہ شکار ان کی مکروہ مقاصد اور بھو ک کو پورا کرنے کا ذریعہ ہوتاہے۔جو مقبوضہ ملک کے وسائل، زمین اور انسانی قوت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتاہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے؟ کہ بلوچستان اور بلخصوص گوادر بندرگاہ پر چین کے ممکنہ بحری اڈوں یا گوادر ایئر پورٹ کو آپریٹ کرنے، یا چین و پاکستانی اقتصادی راہداری سے، یا تیل و گیس کی تلاش اور کسی سلک روڈ یا ایکسپریس ہائی وے سے بلوچستان یا بلوچ کو کیا فائدہ ہوگا؟اور بلخصوص اس صورت حال میں جب بلوچ وطن خود مقبوضہ ہو۔ جہاں مالک سے معائدات نہیں کئے جارہے ہیں کہ اس سے مشروط طور پر ہمیں کوئی فائدہ ملے، بلکہ قابض یا کرایہ دار سے سودا کیا جارہاہے،اس وقت بھی ممکنہ طور پر گوادر بندرگاہ سے تجارتی مقاصد کی مد میں 90  فیصد چین اپنے پاس رکھے گا،اور 10فیصد پنجابی ریاست کو چوکیداری کے مد میں دیگا۔

بلوچ کے لے  اب بھی اس میں کوئی اقتصادی فوائد شامل نہیں ہے، جو کسی کٹھ پتلی حکومت کو ملے۔ ہاں اس دس فیصد سے مقامی دلالی کے لے اجرت کے طور پر نیشنل پارٹی یا اس جیسے کٹھ پتلی وزراء کو ذاتی طور پر شیئر ملے گا۔ لیکن مجموعی طورپر بلوچ کے لئے  چینی سامراجی عزائم زہر قاتل اور تریاق ثابت ہوگی۔
اس سے پہلے 2002 سے سیندھک سے نکلنے والے سونا،تانبا سلفر اور لیڈ جیسے قیمتی دھاتوں اور اس عظیم معدنی ذخائر کی لوٹ سے بلوچ قوم کو کیا فائدہ ملا؟ کہ اب سی پیک سے ملے گا چینی کمپنی چائنا نیشنل گولڈ گروپ  کارپوریشن(CNGGC)  نے بلوچ معدنی ذخائر کو لوٹنے کے علاوہ ہمیں کیا دیا؟اس سے صرف چین کے صنعتی ترقی میں گہرے اثرات مرتب ہوئے۔اور آج چین جس ترقی کے نہج پر ہے، اس میں پچاس فیصد بلوچستان کے معدنی ذخائر اور بلخصوص سیندھک کا کردارہے۔

سیندک کے آس پاس انسانی آبادی کو سونے کے اس پہاڑ سے کیا ملا؟ وہی پھٹے جوتے اور کپڑے، غربت،تنگ دستی اور سب سے بڑھ کر غلامی!جو غربت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اب نیشنل پارٹی جس سی پیک پروجیکٹ میں چین کی ساتھ تعاون کے لے معائدہ جاتی سازش میں شراکت دار بننے جارہاہے۔تو یہ بلوچ قوم کی اجتماعی خودکشی پر دستخط کی مترادف ہوگی۔ اگر نیشنل پارٹی کو بلوچ دشمن پارٹی نہ کہا جائے، تو کیااسے پھولوں کا ہار پہنائے، جو بلوچ قبضہ گیریت اور
نسل کشی کو دوام دینے کے لئے سامراجی سہولت کار کا کردارادا کررہاہے۔ جو چین کے معاشی انجن کو ہمارے زمین،جغرافیہ اور بلوچ خطے کی
تذویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھاکر ایندھن دینا چاہتے ہیں۔ اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نیشنل پارٹی بلوچ قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر چین و پاکستان جنگی شراکت داری اور سازشوں کا ایک اکائی ہے۔

معذرت کے ساتھ نیشنل پارٹی پنجابی سٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہتے ہوئے،جس طرح چینی پروجیکٹس کی حفاظت کے لئے خود کو بطور سہولت کار اس انداز میں پیش کررہاہے،  جیسے ایک شخص اپنے ملکیت یا لوٹ مار کے تحفظ کے لئے ایک وحشی کتے کو زنجیر ڈال کر رکھ دیتاہے۔
یہ مثال نیشنل پارٹی  کے کردار پر صادق آتی ہے۔ جسے زنجیروں سے باندھ کر ان کے سامنے بچھے کھچے ہڈیون کو پھینک دیا جاتاہے تاکہ وہ صرف بھونکتارہے۔

اگر چین کی ترقی کی موجودہ ترقی کے اسباب یا وعوامل پر گہرے سنجیدہ اور ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے، یا چین کے”ڈرامائی معاشی معجزات‘کا جائزہ لیں۔ تو ہمیں اندازہ ہوگا،کہ ا س کے موجودہ معاشی ابھار کے پس منظر میں کونسے نظریات کار فرماہے؟کیا چین کی موجودہ اقتصادی  ترقی نیشنلزم کے پالیسیوں سے جڑاہوائے؟ یا یہ سوشلزم کے نظریات کا رہین منت ہے؟ یا یہ سرمایہ داری نظام کی نقالی پر مبنی ہے؟یااس کے  موجودہ سٹریٹیجک پوزیشن میں لوٹ مار، قبضہ گیریت اور سامراجی عزائم شامل ہے؟

اگر ہم چین کے موجودہ معاشی پوزیشن پر نظر ڈالیں، تو بلا مبالغہ ہمارے سامنے جو حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ کہ چین کی موجودہ اقتصادی ترقی کے پیچھے اس کے قدرتی، فطری آزادی یا کوئی ارتقائی عوامل یا محنت کار فرما نہیں۔ بلکہ اس کا یہ اقتصادی ابھار ہر زاویہ سے مکمل سامراجیت اور لوٹ  مارپر مبنی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سامراجیت کیاہے؟ اور چین بیسویں صدی کا سامراج کیسے بنا؟کیا ماؤزے تنگ کے قیادت میں اور چینی نیشنلزم کی بنیاد پر آزاد ہونے والے چین کو سامراج کے القاب دینا درست ہوگا؟

اگر چین کے سامراجی ہتکھنڈوں پر نظر ثانی کیا جائے، تو اس میں کوئی مغالطہ نہیں، کہ سامراجیت کا روپ اختیار کرنے والا یہ بھوکا اژدہا نہ صرف بلوچستان پر اپنا پنجہ گاڑھنے اور بحیرہ بلوچ کو اپنے تجارتی مقاصد کے لے استعمال میں لانا چاہتاہے۔ بلکہ کئی دیگر خطے ہیں،جن پر نہ صرف اپنی ملکیت کا دعوی، کرکے اسے اپنے اکائی سمجھتاہے، بلکہ ان کا غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی استحصال کررہاہے۔  ان کے قدرتی
و سائل جیسے قیمتی معدنیات، آبی ذخائر،تیل گیس اور دیگر قدرتی ذخائر کو بے دریغ  لوٹ رہاہے۔ جس میں 50فیصد بلوچستان کے اثاثے اور50فیصد دیگر خطوں کے وسائل اور اثاثے شامل ہیں۔جو چین کے مالیاتی سرمائے کے حجم میں اضافے کا سبب ہے۔ چین کی اس معاشی مہم جوئی میں ان کی فطری محنت، صلاحیت شامل نہیں۔ بلکہ وہ پاگلوں کی طرح اپنی معیشت کی حیات نو کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں نہ صرف سرمایہ کاری کررہاہے۔ بلکہ 90فیصد ریوینیو کا مالک بن کر لانگ ٹرم اقتصادی ہتھیار کو استعمال میں لارہاہے۔ یہ ظاہر سی بات ہے کہ جن کے پاس لوٹ مار کے بے پناہ وسائل ہو تو  وہ علم و ہنر، سائنس ٹیکنالوجی میں سبقت لے سکتاہے۔ لیکن سب سے اولیت ”سرمایہ“ رکھتا ہے اور آج کے اس سرمایہ داری دنیا میں شرح منافع کے ہوس سرمایہ کے ارتکاز کو بڑھاتاہے۔ سرمایہ داری نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت انسانی سماج کو آگے بڑھانے کے بجائے منافع کی شرح کو بڑھانے اور استحصال کو نئی شکل دینے کے لئے کی
جاتی ہے۔

چین کی حالیہ معاشی شرح نمو بھی استحصال ظلم اور سفاکیت پر قائم ہیں۔جوایک غیر انسانی نظام کی شکل میں انسانیت کو بربریت میں دھکیل رہی ہے۔ حالانکہ کوئی بھی قومی سماج قومی محنت کے بنیاد پر اپنی توازن قائم رکھتاہے۔  ایک قوم یا سماج اپنی محنت، صلاحیت،  تعاون اور اورقومی یکجہتی سے ترقی کرتاہے۔ جو فطرت کو زیر استعمال لاکر خود کو آزاد اور زندھ رکھنے کے لئے پیداوار کرتاہے۔ اور ذرائع پیداوار کو ترقی دیتاہے۔ جس سے سماجی ہیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ قومی محنت سے سماج میں خود اعتمادی اور قومی فخر بڑھتاہے۔ ان میں ایک احساس کامیابی اور مشترکہ مقصد کی طرف رجحان پیدا ہوتاہے۔ ترقی کا مفہوم محض طاقت کے استعمال،توسیع پسندی، اجارہ داری یا دوسرے اقوام کے وسائل اور جغرافیہ کے استحصال پر مبنی نہیں ہوتا۔ترقی در اصل ایک سماجی عمل ہوتاہے ۔ترقی اسے نہیں کہتے، کہ ایک غیر ملکی اپنے علاقے یا اثر رسوخ کو بڑھانے کے لئے دوسرے ملکی اقوام پر طاقت کا استعمال کرے۔ چائے وہ جنگ کے زریعہ ہو،سیاسی دباؤ کے شکل میں ہو،یا تذویراتی مفادات کے لے ہو،یا کسی قوم کی نسل کشی پر مبنی ہو۔ اس سامراجی عمل کو ترقی کہنا حقیقی اور زمینی ترقی کی توہین ہے۔ جو بین الاقوامی اور انسانی قوانیں،امن، سلامتی کے خلاف ہیں۔

حقیقی ترقی وہی ہیں جو دوسرے اقوام کے آزادی ان کے انسانی حقوق،  ان کے وسائل کے لوٹ مار اور ان کی معاشی اقتصادی اور جغرافیائی استحصال پر مبنی نہ ہو۔ بعض اقوام اب بھی سمجھتے ہوں گے کہ چین امریکہ کے مقابلہ میں ان کے لئے کوئی متبادل مسیحا ثابت ہوگا،ایسا بلکل بھی نہیں ہے ، بلکہ چین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سیاسی، اقتصادی، اور فوجی طاقت اسے ایک نیا سامراجی کھلاڑی بناچکی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں،چین کی عالمی پالیسی اور ناقص اقتصادی عمل ایک سامراجی نظریہ کی عکاسی کرتی ہے۔ دوسری ممالک کی سیاست، زمین اور تحریکی پوزیشن میں مداخلت کرنا اس کی سامراجی پالیسیوں کی کھلم کھلاعلامت ہے۔چین کی  بلوچستان میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ، اور ان کے اقتصادی اور فوجی مفادات کے تناطرمیں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ چین اپنے مفادات کی تکمیل کے لے بلوچ قوم کے آزادی اور قومی خودمختیاری کو نظر انداز کرکے پاکستان کے ساتھ جنگی شراکت داری میں براہ راست حصہ دار ہے۔ چین کا بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور پاکستانی فوجی تعاون کے ذریعہ اپنے پروجیکٹس کا تحفظ بلوچ قومی آزادی اور بلوچ قومی مفادات کے ساتھ کھلا تضاد ہے ۔

1949سے پہلے چین خود ایک نوآبادی اور مقبوضہ ملک تھا۔اس وقت  چین بیک وقت  جاپان برطانیہ اور یورپ کے ستم ظریفیوں اور قبضہ کا شکار تھی۔جبکہ کہا یہ جاتاہے،کہ برطانیہ نے چین میں افیون کی اتنی زیادہ مقدار میں سپلائی کہ تاکہ چینی قوم منشیات کے لت میں رہ کر سوجائیں اور اپنی آزادی کے جدوجہد کرنے کے قابل نہ ہو ۔چین اس وقت افیون کی بہت بڑی منڈی بن چکا تھا۔ جبکہ برطانیہ جواس وقت ہندوستان پر قابض تھی۔ اس نے افیون کی پیداوار کے لے ہندوستان کے سرزمین کو چنا۔جہاں برطانیہ کا افیون کی تجارت کے لے اقتصادی مفادات تھے۔وہاں برطانیہ یہ چاہتا تھا کہ چینی افیوں میں لت ہوکر غلامی سے نہ نکلے۔ اس کے علاوہ جاپان نے چین کو کمزور کرنے کے لئے بڑی تعداد میں چینیوں کی نسل کشی کی اور اپنی قبضہ کو دوام دی۔(جاری ہے)اس وقت ہمارے آس پاس چین کی ڈرامائی ترقی کا اس قدر واویلا ہے، جیسے کہ زمین کی ٹیکنوٹک پلیٹس کی حرکت سے زلزلہ یاآتش فشان جیسے قدرتی آفات رونما ہونے سے جو ہنگامہ برپاء ہوتاہے۔ بلکل اسی مانند پنجابی امپرلسٹ،کچھ پاکستانی دانشورزاورچینی گماشتہ اینکرز کے، ساتھ ساتھ پنجابی ساختہ بلوچ جماعتیں، چین کی ڈرامائی ترقی کا خیر مقدم کرتے ہوئے، اسے جس طرح  بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔جیسے چین کی یہ غیرمعمولی ترقی ان کی سیاسی، سماجی،تکنیکی یا انقلابی ترقی ہے۔ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ، دلالی اور کاسہ لیسی کے عوض کمیشنز، تنخواہ، یا ریوینیو کے مد میں دستر خوان کے بھچے کھچے ہڈیوں کا ملنا الگ سی بات ہے۔ لیکن سامراج نہ کھبی کسی کو ترقی دی ہے، اور نہ ہی سامراج کی یہ فطرت  میں شامل ہے وہ کسی دوسرے مقبوضہ قوم کی ترقی کے لے کوئی اقدامات کرے۔

نوآبادیاتی اور سامراجی قوتوں نے عموما ترقی کے نام پر ہمیشہ سے  اپنے سیاسی اقتصادی اور فوجی مفادات کو تحفظ اور بڑھا وادیاہے۔ مثال کے طور پر برطانوی سامراج نے ہندوستان اور بلوچستان میں اپنی قبضہ کے دوران ترقی کی جو دعوی کئے، ریلوے لائن، سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے بنانے کے مقاصد میں ان کے استحصالی پالیسیاں شامل تھیں۔ برطانیہ کے لئے ہندوستان سونے کی چڑیا تھی۔
برطانوی راج کے دوران وہ ہندوستان کے سونے، چاندی ، ریشم  چمڑے ، کپاس  اور حتی کہ تمام زرائع پیداوار، زراعت، صنعت اور تجارت کو کنٹرول  میں رکھ کر اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔وہاں کے خام مال کو سستے  داموں میں خرید کر  عالمی منڈیوں میں مہنگے داموں میں فروخت کرکے ہندوستانیوں کا سفاکانہ استحصال کیا گیا۔

برطانیہ نے ہندوستان میں ”مغلیہ حکومت“ میں سب سے پہلے ایک سفیر ٹامس کو بھیجا۔ جو ایک خاص مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد تھا کہ انگلستان کو ہندوستان میں آزادانہ تجارت کا موقع دیا جائے۔ اس وقت جہانگیر ہندوستان کا سربراہ تھا، انہوں نے اس قسم کے تجارتی معائدے کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ انگلستان جیسے چھوٹے جزیرے کو ہندوستان کے مقابلے میں، اپنا مد مقابل نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن  ٹامس نے با رہا کوشش کرتے ہوئے ہندوستان کے ولی عہد شاہجان کے دور میں 1618 میں ایک معائدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہوگئے۔جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کو آزادانہ تجارت کا با ضابطہ پروانہ ملا۔جس نے چند ہی سالوں اور مجموعی طور پر دو سوسالوں میں ہندوستان کے وسائل کو اتنا لوٹا کہ کہ وہاں کے شاہ ان کے وظیفہ خور بن گئے۔

اس سلسلے میں ایک ماہر معاشیات مہناز مرچنٹ کا کہناہے کہ ”انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والی مجموعی مالی دھچکے کی کل رقم 2015  کے زر مبادلے کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے“ سترھویں صدی میں ہندوستان تن تنہا دنیا کی 22.6  فی صد دولت پیدا کرنے والا ملک تھا۔جو تمام یورپ کے مجموعی دولت کے برابر تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانیہ راج کے ہندوستان پر اقتدار کے دوسرے جو بھیانک اثرات مرتب ہوئے، وہ بہت خوفناک تھے۔برطانوی راج کے دوران صرف قحط سے تین کروڑ ہندوستانی اور بنگالی انسانی جانوں کا  ضیاع ہوا۔ جو تاریخ کے بدترین سفاکیوں میں سب سے اول رہا۔

ماہرین معاشیات نے ہندوستان میں ہونے والے اس قحط کو
  قدرتی آفات کے بجائے برطانوی تجارتی استحصال(commercial expolation )کی علامت قراردی۔
ہندوستان میں آنے والے قحط سے ہندوستاں میں تین کروڑ گلے، سڑے انسانی ڈھانچوں کے حوالہ سے مشہور فلاسفر ویل ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ ”ہندوستان میں آنے والی خوفناک قحطوں کی بنیادی وجہ برطانوی قبضہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیر متوازن درآمد، اور ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہونے والے کسان انہیں ادا نہیں کرسکتے تھے۔۔۔
برطانوی راج مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی“
ان مثالوں سے ظاہر ہوتاں کہ نوآبادیاتی قوتیں وہ جو کچھ بھی  ”ترقی“ کے نام پر کرتاہے۔وہ صرف اپنے غیر قانونی قبضہ کو مستحکم کرنے،اور اپنے نفع اور فائدہ کا سوچتاہے۔

مقبوضہ قوم اپنے ذہن سے یہ غلط فہمی نکال دے کہ سامراجی درندگی کے تحت امن، خوشحالی اور ترقی کا تصور کیاجاسکتا ہو۔ بلکہ ان کی مودجودگی میں مقبوضہ سماج میں نہ صرف انسانی حقوق کی پائمالی ہوتی ہے۔ بلکہ سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سماجی ناہمواری بڑھ جاتی ہیں۔ سامراجی طاقتیں درندہ صفت ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے نئے شکار تلاش کرتی ہیں۔ اور یہ شکار ان کی مکروہ مقاصد اور بھو ک کو پورا کرنے کا ذریعہ ہوتاہے۔جو مقبوضہ ملک کے وسائل، زمین اور انسانی قوت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتاہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے؟ کہ بلوچستان اور بلخصوص گوادر بندرگاہ پر چین کے ممکنہ بحری اڈوں یا گوادر ایئر پورٹ کو آپریٹ کرنے، یا چین و پاکستانی اقتصادی راہداری سے، یا تیل و گیس کی تلاش اور کسی سلک روڈ یا ایکسپریس ہائی وے سے بلوچستان یا بلوچ کو کیا فائدہ ہوگا؟اور بلخصوص اس صورت حال میں جب بلوچ وطن خود مقبوضہ ہو۔ جہاں مالک سے معائدات نہیں کئے جارہے ہیں کہ اس سے مشروط طور پر ہمیں کوئی فائدہ ملے، بلکہ قابض یا کرایہ دار سے سودا کیا جارہاہے،اس وقت بھی ممکنہ طور پر گوادر بندرگاہ سے تجارتی مقاصد کی مد میں 90  فیصد چین اپنے پاس رکھے گا،اور 10فیصد پنجابی ریاست کو چوکیداری کے مد میں دیگا۔  بلوچ کے لے  اب بھی اس میں کوئی اقتصادی فوائد شامل نہیں ہے، جو کسی کٹھ پتلی حکومت کو ملے۔ ہاں اس دس فیصد سے مقامی دلالی کے لے اجرت کے طور پر نیشنل پارٹی یا اس جیسے کٹھ پتلی وزراء کو ذاتی طور پر شیئر ملے گا۔ لیکن مجموعی طورپر بلوچ کے لئے  چینی سامراجی عزائم زہر قاتل اور تریاق ثابت ہوگی۔

اس سے پہلے 2002 سے سیندھک سے نکلنے والے سونا،تانبا سلفر اور لیڈ جیسے قیمتی دھاتوں اور اس عظیم معدنی ذخائر کی لوٹ سے بلوچ قوم کو کیا فائدہ ملا؟ کہ اب سی پیک سے ملے گا چینی کمپنی چائنا نیشنل گولڈ گروپ  کارپوریشن(CNGGC)  نے بلوچ معدنی ذخائر کو لوٹنے کے علاوہ ہمیں کیا دیا؟اس سے صرف چین کے صنعتی ترقی میں گہرے اثرات مرتب ہوئے۔اور آج چین جس ترقی کے نہج پر ہے، اس میں پچاس فیصد بلوچستان کے معدنی ذخائر اور بلخصوص سیندھک کا کردارہے۔ سیندھک کے آس پاس انسانی آبادی کو سونے کے اس پہاڑ سے کیا ملا؟ وہی پھٹے جوتے اور کپڑے، غربت،تنگ دستی اور سب سے بڑھ کر غلامی!جو غربت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اب نیشنل پارٹی جس سی پیک پروجیکٹ میں چین کی ساتھ تعاون کے لے معائدہ جاتی سازش میں شراکت دار بننے جارہاہے۔تو یہ بلوچ قوم کی اجتماعی خودکشی پر دستخط کی مترادف ہوگی۔ اگر نیشنل پارٹی کو بلوچ دشمن پارٹی نہ کہا جائے، تو کیااسے پھولوں کا ہار پہنائے، جو بلوچ قبضہ گیریت اور
نسل کشی کو دوام دینے کے لئے سامراجی سہولت کار کا کردارادا کررہاہے۔ جو چین کے معاشی انجن کو ہمارے زمین،جغرافیہ اور بلوچ خطے کی
تذویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھاکر ایندھن دینا چاہتے ہیں۔ اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نیشنل پارٹی بلوچ قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر چین و پاکستان جنگی شراکت داری اور سازشوں کا ایک اکائی ہے۔ معذرت کے ساتھ نیشنل پارٹی پنجابی سٹبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہتے ہوئے،جس طرح چینی پروجیکٹس کی حفاظت کے لئے خود کو بطور سہولت کار اس انداز میں پیش کررہاہے،  جیسے ایک شخص اپنے ملکیت یا لوٹ مار کے تحفظ کے لئے ایک وحشی کتے کو زنجیر ڈال کر رکھ دیتاہے۔ یہ مثال نیشنل پارٹی  کے کردار پر صادق آتی ہے۔ جسے زنجیروں سے باندھ کر ان کے سامنے بچھے کھچے ہڈیون کو پھینک دیا جاتاہے تاکہ وہ صرف بھونکتارہے۔

اگر چین کی ترقی کی موجودہ ترقی کے اسباب یا وعوامل پر گہرے سنجیدہ اور ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے، یا چین کے”ڈرامائی معاشی معجزات‘کا جائزہ لیں۔ تو ہمیں اندازہ ہوگا،کہ ا س کے موجودہ معاشی ابھار کے پس منظر میں کونسے نظریات کار فرماہے؟کیا چین کی موجودہ اقتصادی  ترقی نیشنلزم کے پالیسیوں سے جڑاہوائے؟ یا یہ سوشلزم کے نظریات کا رہین منت ہے؟ یا یہ سرمایہ داری نظام کی نقالی پر مبنی ہے؟یااس کے  موجودہ سٹریٹیجک پوزیشن میں لوٹ مار، قبضہ گیریت اور سامراجی عزائم شامل ہے؟

اگر ہم چین کے موجودہ معاشی پوزیشن پر نظر ڈالیں، تو بلا مبالغہ ہمارے سامنے جو حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ کہ چین کی موجودہ اقتصادی ترقی کے پیچھے اس کے قدرتی، فطری آزادی یا کوئی ارتقائی عوامل یا محنت کار فرما نہیں۔ بلکہ اس کا یہ اقتصادی ابھار ہر زاویہ سے مکمل سامراجیت اور لوٹ  مارپر مبنی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سامراجیت کیاہے؟ اور چین بیسویں صدی کا سامراج کیسے بنا؟کیا ماؤزے تنگ کے قیادت میں اور چینی نیشنلزم کی بنیاد پر آزاد ہونے والے چین کو سامراج کے القاب دینا درست ہوگا؟

اگر چین کے سامراجی ہتکھنڈوں پر نظر ثانی کیا جائے، تو اس میں کوئی مغالطہ نہیں، کہ سامراجیت کا روپ اختیار کرنے والا یہ بھوکا اژدہا نہ صرف بلوچستان پر اپنا پنجہ گاڑھنے اور بحیرہ بلوچ کو اپنے تجارتی مقاصد کے لے استعمال میں لانا چاہتاہے۔ بلکہ کئی دیگر خطے ہیں،جن پر نہ صرف اپنی ملکیت کا دعوی، کرکے اسے اپنے اکائی سمجھتاہے، بلکہ ان کا غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی استحصال کررہاہے۔  ان کے قدرتی
و سائل جیسے قیمتی معدنیات، آبی ذخائر،تیل گیس اور دیگر قدرتی ذخائر کو بے دریغ  لوٹ رہاہے۔ جس میں 50فیصد بلوچستان کے اثاثے اور50فیصد دیگر خطوں کے وسائل اور اثاثے شامل ہیں۔جو چین کے مالیاتی سرمائے کے حجم میں اضافے کا سبب ہے۔ چین کی اس معاشی مہم جوئی میں ان کی فطری محنت، صلاحیت شامل نہیں۔ بلکہ وہ پاگلوں کی طرح اپنی معیشت کی حیات نو کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں نہ صرف سرمایہ کاری کررہاہے۔ بلکہ 90فیصد ریوینیو کا مالک بن کر لانگ ٹرم اقتصادی ہتھیار کو استعمال میں لارہاہے۔ یہ ظاہر سی بات ہے کہ جن کے پاس لوٹ مار کے بے پناہ وسائل ہو تو  وہ علم و ہنر، سائنس ٹیکنالوجی میں سبقت لے سکتاہے۔ لیکن سب سے اولیت ”سرمایہ“ رکھتا ہے اور آج کے اس سرمایہ داری دنیا میں شرح منافع کے ہوس سرمایہ کے ارتکاز کو بڑھاتاہے۔ سرمایہ داری نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت انسانی سماج کو آگے بڑھانے کے بجائے منافع کی شرح کو بڑھانے اور استحصال کو نئی شکل دینے کے لئے کی
جاتی ہے۔

چین کی حالیہ معاشی شرح نمو بھی استحصال ظلم اور سفاکیت پر قائم ہیں۔جوایک غیر انسانی نظام کی شکل میں انسانیت کو بربریت میں دھکیل رہی ہے۔ حالانکہ کوئی بھی قومی سماج قومی محنت کے بنیاد پر اپنی توازن قائم رکھتاہے۔  ایک قوم یا سماج اپنی محنت، صلاحیت،  تعاون اور اورقومی یکجہتی سے ترقی کرتاہے۔ جو فطرت کو زیر استعمال لاکر خود کو آزاد اور زندھ رکھنے کے لئے پیداوار کرتاہے۔ اور ذرائع پیداوار کو ترقی دیتاہے۔ جس سے سماجی ہیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ قومی محنت سے سماج میں خود اعتمادی اور قومی فخر بڑھتاہے۔ ان میں ایک احساس کامیابی اور مشترکہ مقصد کی طرف رجحان پیدا ہوتاہے۔ ترقی کا مفہوم محض طاقت کے استعمال،توسیع پسندی، اجارہ داری یا دوسرے اقوام کے وسائل اور جغرافیہ کے استحصال پر مبنی نہیں ہوتا۔ترقی در اصل ایک سماجی عمل ہوتاہے ۔ترقی اسے نہیں کہتے، کہ ایک غیر ملکی اپنے علاقے یا اثر رسوخ کو بڑھانے کے لئے دوسرے ملکی اقوام پر طاقت کا استعمال کرے۔ چائے وہ جنگ کے زریعہ ہو،سیاسی دباؤ کے شکل میں ہو،یا تذویراتی مفادات کے لے ہو،یا کسی قوم کی نسل کشی پر مبنی ہو۔ اس سامراجی عمل کو ترقی کہنا حقیقی اور زمینی ترقی کی توہین ہے۔ جو بین الاقوامی اور انسانی قوانیں،امن، سلامتی کے خلاف ہیں۔

حقیقی ترقی وہی ہیں جو دوسرے اقوام کے آزادی ان کے انسانی حقوق،  ان کے وسائل کے لوٹ مار اور ان کی معاشی اقتصادی اور جغرافیائی استحصال پر مبنی نہ ہو۔ بعض اقوام اب بھی سمجھتے ہوں گے کہ چین امریکہ کے مقابلہ میں ان کے لئے کوئی متبادل مسیحا ثابت ہوگا،ایسا بلکل بھی نہیں ہے ، بلکہ چین کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی سیاسی، اقتصادی، اور فوجی طاقت اسے ایک نیا سامراجی کھلاڑی بناچکی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں،چین کی عالمی پالیسی اور ناقص اقتصادی عمل ایک سامراجی نظریہ کی عکاسی کرتی ہے۔ دوسری ممالک کی سیاست، زمین اور تحریکی پوزیشن میں مداخلت کرنا اس کی سامراجی پالیسیوں کی کھلم کھلاعلامت ہے۔چین کی  بلوچستان میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ، اور ان کے اقتصادی اور فوجی مفادات کے تناطرمیں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ چین اپنے مفادات کی تکمیل کے لے بلوچ قوم کے آزادی اور قومی خودمختیاری کو نظر انداز کرکے پاکستان کے ساتھ جنگی شراکت داری میں براہ راست حصہ دار ہے۔ چین کا بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور پاکستانی فوجی تعاون کے ذریعہ اپنے پروجیکٹس کا تحفظ بلوچ قومی آزادی اور بلوچ قومی مفادات کے ساتھ کھلا تضاد ہے ۔

1949سے پہلے چین خود ایک نوآبادی اور مقبوضہ ملک تھا۔اس وقت  چین بیک وقت  جاپان برطانیہ اور یورپ کے ستم ظریفیوں اور قبضہ کا شکار تھی۔جبکہ کہا یہ جاتاہے،کہ برطانیہ نے چین میں افیون کی اتنی زیادہ مقدار میں سپلائی کہ تاکہ چینی قوم منشیات کے لت میں رہ کر سوجائیں اور اپنی آزادی کے جدوجہد کرنے کے قابل نہ ہو ۔چین اس وقت افیون کی بہت بڑی منڈی بن چکا تھا۔ جبکہ برطانیہ جواس وقت ہندوستان پر قابض تھی۔ اس نے افیون کی پیداوار کے لے ہندوستان کے سرزمین کو چنا۔جہاں برطانیہ کا افیون کی تجارت کے لے اقتصادی مفادات تھے۔وہاں برطانی

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

دشت: قابض فوج پر حملے میں دشمن کا ایک اہلکار ہلاک دو زخمی ہوئے۔ بی ایل ایف

جمعہ جنوری 10 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے نو جنوری بروز جمعرات بوقت شام ساتھ بجے بلنگور دشت کے مقام پر قائم قابض پاکستانی فوج کے کیمپ پر حملہ کیا۔ ترجمان نے کہا ہے کہ حملے میں سرمچاروں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ