نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معائدے۔تحریر۔ رامین بلوچ حصہ دوئم


2013میں ڈاکٹر مالک کی کٹھ پتلی دور حکومت کو اگر اسلم رہیسانی کٹھ پتلی حکومت سے موازنہ کیا جائے، تو ڈاکٹر مالک بلوچ قوم پرستی کے دعوے کے باوجود نہ صرف نام نہاد چین و پاکستان اقتصادی راہداری کی طاقت ور حمایت کی، بلکہ 2004 میں سی پیک کے حوالہ سے معائدوں کے پہلے مر حلے کا آغاز نیشنل پارٹی کی2013 کے کٹھ پتلی حکومتی ادوار میں ہوئی۔
جو بلوچ قومی مرکزیت، رضاء منشاء،قومی مفادات کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی تھی۔ جہاں بلوچ قومی مفادات،بلوچ خطہ کے متنازع اور حساسیت کو مکمل طور پرنظر انداز کیاگیا۔ بلکہ ان کی حکومت بیشتر پالیسیاں، اور مکروہ اقدامات نوآبادیاتی پالیسیوں کو دوام بخشنے کی مترادف رہی جو کہ نوآبادیاتی جارحانہ انداز کی عکاسی کرتے ہیں۔


اگر ایمانداری سے کہاجاسکے، تو نیشنل پارٹی کے کٹھ پتلی دور حکومت میں بلوچ شہداء کی گمنام اجتماعی قبروں کی منظر عام پر آنے والے سنگین اور دل دہلانے واقعات کے باوجود، نیشنل پارٹی حکومت اس معاملے پر تحقیقات کے بجائے،مٹی ڈال کر شفیق مینگل کو جوابدہ ٹہرانے کے برعکس، دولت جمع کرنے کے بے انت ہوس میں پنجابی امپرلسٹ کی شاہی وفاداری میں ہر حد پار کرکے شفیق مینگل سے دوستی کے لئے ہاتھ بڑھاتا رہاہے۔ان کی رفاقت کی سینکڑوں ایونٹ، اور تصاویر ان کی رابطہ، تعاون، معاونت کا مستند ثبوت ہے۔بلوچ قوم کی تذلیل،تباہی اور جبری گمشدگیوں میں شدت، سیاسی کارکنوں کی اغواء”مارو اور پھینکو“ کی پالیسیوں کو بنیاد فرائم کرنے میں نیشنل پارٹی کے مکروہ کردار ہمارے یاداشتوں کا اٹوٹ حصہ ہے،جسے بلوچ قوم کسی بھی صورت نہیں بھلا سکتا۔
اگرچہ اب بھی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہواہے۔ جو سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ جہاں بغیر کسی عدالتی یا اوپن ٹرائل کے بلوچ فرزندوں کو اغواء کیاجاتاہے۔جو روز کا معمول بن چکاہے۔ جو بلوچ قوم کے لئے ذہنی، نفسیاتی،جذباتی، اخلاقی اور سماجی تکلیف سے کم نہیں ہے۔ لیکن ریاست کے اس پیمانہ کے جارحانہ جنگی جرائم کو جواز بخشنے کے لئے نیشنل پارٹی نے بنیادیں فرائم کی۔
آج جس بے رحمانہ بربریت کی اذیت و آزمائش، خوف زدہ کرنے کے حربے، انسانی حقوق کے خلاف ورزی کے لے اٹھنے والے آوازوں کو دبانے، اور کچلنے کے المیات سے بلوچ عوام سامنا کررہاہے، اس سے نیشنل پارٹی سمیت ریاست کے ساتھ ہاتھ ملانے والے ہر فرد اور جماعت شامل ہے۔ یہاں میں غلط نہیں ہوں کہ، آج نیشنل پارٹی غداری اور بلوچ قوم کے ساتھ دغابازی کے اس نہج پر پہنچ چکاہے، جس میں سطحی اصلاحات کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بلکہ اسے بہر صورت زمہ دار اور جوابدہ ٹہراکر ان کے مکروہ اعمال کا ان سے حساب لیا جائے۔
ذکر ہے نیشنل پارٹی کے ایک وفد کا کبیر محمد شہی کے سربراہی میں گیارہ روزہ دورہ چین کے بارے میں، کہ اس دورہ کے بنیادی مقاصد وترجیحات کس نوعیت کے تھے؟ اور اس میں شامل فریقین کے مفادات کیا تھے؟جس میں ایک بار پھر نیشنل پارٹی بلوچ خونریزی کے ان
استعماری پالیسیوں میں حصہ دار،اور اتحادی بننے کے لئے خود کو سرعام نیلام کرنے پر تلاہواہے۔جو یہ ظاہر کرتاہے،کہ نیشنل پارٹی بلوچ وطن
میں جاری تشویش ناک صورتحال سے خود کو پہلے بھی لاتعلق سمجھا ہے اور اب بھی وہی پرانی پالیسی پر عمل پیراہے۔
نیشنل پارٹی کا دورہ چین کوئی تفریحی یا سیاحتی دورہ نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ایک اہم نوآبادیاتی مشن ہوتاہے، جس کا مقصد نام نہاد سی پیک اور چین و پاکستان مفادات، اور بلوچ سرزمین پر ہونے والے معائدات، چینی سامراجی مفادات کو تقویت دینا ہے۔جہاں بلوچستان میں چین کی عزائم میں شامل ”بیلٹ اینڈر وڈ انیشیٹو“پر از سر نور غور کرنے اور بلوچ قومی قوتوں کے چیلنجز سے نمٹنے، اور چین کی سرمایہ کاری اور انفرسٹکچرمنصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لے را ہموار کرنے کے”سازشی عسکری جرائم“ کا حصہ بنناہے۔ہے تاکہ کمزور پڑتے چینی استحصالی انفراسٹکچراور مجرمانہ مقاصد کی حصول میں ناکامی اور بحران کو لاجسٹک سپورٹ فرائم کرناہے۔تاکہ منہدم ہوتے غیر موثر منصوبوں کو آکسیجن دیا جاسکے جو بلوچ مزاحمت کے سبب۔”وینٹی لیٹر“ پہ ہیں انہیں دوبارہ زندہ رکھنا،جن کو بلوچ وطن میں چیلنجز کا سامناہے۔ یہ ریکارڈ پر ہے۔ بلوچ قومی مزاحمت کی پیش قدمی، غیر متزلزل ارادے اور فیصلہ کن جدوجہد کی وجہ سے چین کی معاشی و عسکری عزائم کو بلوچستان میں سخت عزیمت کا سامناہے۔
جس کی وجہ سے داخلی سیکورٹی خدشات کے باعث تیسری بار گوادر ایئر پورٹ آپریشنل نہیں ہوسکتا؟ اور اس کی افتتاحی تقریب مسلسل تعطل کا شکار ہے۔بلوچ قومی جہد آزادی کے پیش نظر، گوادر پورٹ کا ورچوئل افتتاح کا، رواں سال اسلام آباد میں مضحکہ خیز انعقاد ہے، جو بلوچ قومی تحریک کی کامیابی ہے۔ بلوچ تحریک آزادی کی فعال اور سرگرم پیش قدمیوں اور برق رفتاری کے باعث پاکستانی ریاست اور چائنا اس حد تک خوف کا شکار ہے، کہ وہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر گوادر پورٹ کا آئن لائن ڈیجیٹل طرز پر افتتاح کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ جہان چائنا نے گوادر ایئر پورٹ کی تعمیر اور دیگر انفراسٹکچر کی مد میں 55 ارب روپیہ کی مالیت کی سرمایہ کاری کرنے کے باوجود اسے آپریشنل کرنے میں ڈر محسوس کررہاہے۔جو ان کی سیاسی،نفسیاتی، اعصابی اور و زہنی تناؤ اور شکست کا پیش خیمہ ہے۔
نیشنل پارٹی کے حالیہ دورے میں بھی سرفہرست ایجنڈا نام نہاد سی پیک (Cpac) رہی ہے۔ جہاں نیشنل پارٹی کے وفدنے سی پیک منصوبوں کو موثر بنانے کے لئے مختلف نوعیت کے سازشی تجاویز اور مجرمانہ مشورہ دے چکے ہیں۔ جن میں چین و پاکستان نام نہاد اقتصادی و راہداری، جو سنکیانگ سے لے کر گوادر تک ایکسپریس سڑک کے منصوبے، اور مستقبل میں ایک ریلوے لائن بچھانے کا ڈھانچہ، گوادر پورٹ کا بطور ”بحری تجارتی راہداری“کے طور پر استعما ل،بلوچستان میں صنعتی زونز کا قیام، اور بلوچستان کے قیمتی معدنیات کی لوٹ مار کے ایجنڈے شامل ہیں۔
متذکرہ بالامنصوبوں پر گزشتہ کئی سالوں سے پنجابی کالونائزر اور چینی سامراج باہم مل کر بلوچ مرضی و منشاء کے بغیر کام کرکے بلوچ وطن کو دولت کمانے کے ٹکٹ کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اور ان دہائیوں میں چینی سامراج اور پنجابی نوآبادیاتی قوتیں بلوچ قوم کا خون بہاکر بلوچ سرزمین کا استعمال، اور بلوچ وسائل کی مجرمانہ لوٹ مار کرتے آرہے ہیں۔ ان نام نہاد معائدہ جاتی منصوبوں کا بلوچ قومی ترقی اور خوشحالی سے کوئی واسطہ نہیں۔بلکہ بلوچ وطن میں میں اس طرح کے نوآبادیاتی انفراسٹکچرکی تعمیر کے مقاصد،پراجیکٹ کا آغاز یا ترقی کے
دعووں میں پنجابی ریاست اور چین کے معاشی و اقتصادی مفادات اور منافع خوری شامل ہیں۔اور یہ چین و پاکستان کے سیاسی اقتصادی اور فوجی مفادات کو پورا کرنے کا وسیلہ ہے۔ اس سے بلوچ قوم کو کوئی معاشی و اقتصادی فوائد حاصل نہیں ہونگے۔ بلکہ یہ بلوچ قوم کی آزادی
خود مختیاری،شناخت اور بقاء کے لے سنگین خطرات کا باعث بنیں گے۔
ان معائدوں کی تکمیل کے پیش نظر، اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو دبانے کے لئے، گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں خونریزی کے
ونسل کشی کے ہزاروں واقعات کے محرک پنجابی ریاست اور چین ہے۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ چین اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ اسلحہ سپلائی کرنے والا بڑاملک ہے۔چین پاکستان کو مختلف قسم کے اسلحے،ٹیکنالوجی،فوجی وسائل،جن میں لڑاکا طیارے،میزائیل سسٹمز،فوجی گاڑیاں،اور دیگر اہم عسکری آلات فراہم کررہاہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج کو مختلف شعبوں میں تربیت، جدید جنگی حکمت عملی کے طریقہ کار اور اور مختلف نوعیت کے جدید میزائیل اور ایئر ڈیفینس سسٹمز، زیر سمندردفاعی ٹیکنالوجی مہیا کررہے ہیں۔جب کہ دونوں افواج کے درمیان مشترکہ فوجی بھی شامل ہیں، تاکہ مقبوضہ بلوچستان کو چین آسان اہداف کے ساتھ اپنی معاشی مفادات کے لئے استعمال کرسکیں۔لیکن چونکہ چین ایک نوآبادی رہاہے اور اس کو معلوم ہے کہ گوریلا جنگ اور بلوچ حربی طاقت کو کوئی بھی طاقتور شکست نہیں دے سکتا،چائے،جتنے جنگی حربے اور تکنیک استعمال کیا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ وطن مشرقی و مغربی ممالک کے درمیان جغرافیائی و اہم تذویراتی نقطہ ہے۔ اس کی سرحدیں اور پورٹ سٹریٹجک، قومی بین الاقوامی اقتصادی سیاسی اور عسکری تعلقات میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔یہ خطہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیاء اور اور مشرق وسطی کے سنگم پر واقعہ ہے جو ایک عالمی تجارتی راہداری ہے۔ قدرت نے اسے بے پناہ مال دولت سے نوازاہے۔تیل و گیس، سونا و تانبہ،لیتیھم، زنک، ملیبوڈیئم،کیلشیم کاربونیٹ،سلفر،اونیکس، آئرن فلورائیڈ، ماربل، میگنائٹ،کلسائیڈ، پلاٹینیئم سمیت سینکڑون قسم کے معدنیات کی خزائن کی سرزمین ہے۔اب تو یہاں قدرتی طور پر وائٹ گولڈ بھی دریافت ہوچکاہے۔ حالانکہ وائٹ گولڈ دنیا میں اپنی قدرتی رنگت کے ساتھ کئیں بھی موجود نہیں۔ بلکہ اسے مصنوعی طریقہ سے مختلف دھاتوں سے جیسے پلاٹینیئم، چاندی،پیلیڈیئم اور سونے کے آمیزش سے ایک خاص پروسیس کے زریعہ سفید رنگ دیاجاتاہے۔ یہ دنیا کے لئے انسان ساختہ مرکب ہے لیکن قدرت نے بلوچستان کو اس سے فطری طور پر نوازاہے۔
بلوچستان نہ صرف زیر زمین وسائل کی وجہ سے اہمیت رکھتاہے۔ بلکہ جغرافیائی و دفاعی زمینی اعتبار سے بھی یہ سنٹرل ایشیائی ریاستوں کا گیٹ وے ہے۔یہ ایک ٹرانزٹ روٹ اور جنوبی ایشیاء،وسطی ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان ہونے کی وجہ سے ایک ٹرانزٹ ہب ہے ۔
اس اہمیت کی وجہ سے یہ عالمی تجارتی نیٹ ورک، زمینی،فضائی اور بحری رابطہ کاری کے مرکزی حیثیت رکھتاہے۔ جہان بعض ملکوں میں Land,Air and Maritime Connectivity کا ایک تصور ہے لیکن بلوچستان قدرتی طور پر اپنے جغرافیائی حجم میں یہ خصوصیت رکھتاہے۔ بحر بلوچ جو عالمی دنیا کے لئے اقتصادی اور عسکری بحری گزرگاہ ہے۔ اور یہی وہ واحد راستہ ہے، جسے چین نے پاکستان ریاست کی ہمراہ داری میں اپنے”بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو“کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کررہاہے۔ جسے چین کم سے کم لاگت اور
زیادہ سے زیادہ منافع میں اپنی مصنوعات کی مشرق وسطی ،خلیجی ممالک، دبئی، یورپ اور افریقی براعظم کے منڈیوں تک ترسیل کا مختصر راستہ سمجھتی ہے۔چین جس کی مصنوعات کی فضائی اور بحری ترسیل کے لئے گوادر پورٹ اس لئے اہمیت رکھتی ہے کہ س راستے سے ان کی
مصنوعات یعنی تجارتی سامان مزکورہ بالا منڈیوں تک کم ترسیلی قیمت پر بک جاتے ہیں۔بجائے کہ چین سے اس کی فضائی ترسیل کے لئے کم از کم 2000ہزار ناٹک میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتاہے۔ جس سے اس کے مصنوعات کی قیمتیں زیادہ لاگت میں پہنچتی ہے۔ جو ان منڈیوں
میں اپنی زیادہ قیمت کی وجہ سے نہ صرف ان کی مانگ یعنی طلب کم ہوسکتی ہے،بلکہ اپنے مارکیٹ ویلیو بھی کھو دیتی ہیں۔ اور چین عالمی مارکیٹ میں اپنے مصنوعات اس پیرامیٹر میں پر فروغ نہیں دے سکتا،کہ وہ دوسرے ممالک کی اشیاء پر برتری حاصل کرسکے۔ اور ان منڈیوں میں اپنی تجارتی ترسیل کو تیز کرسکے یا اپنے لئے مناسب جگہ بناسکے۔ تو یہ بحری گزرگاہ(بحر بلوچ) اس کی تجارتی سفر کو مختصر بناسکتی ہے۔
عالمی منڈی میں ہر ملک اور کمپنی کی مصنوعات مین مقابلہ بازی ہوتی ہے، اگر کسی مصنوعہ زیادہ قیمت پر دستیاب ہے، تو خریدار دوسرے کم والے سستی متبادل کو ترجیح دیتے ہیں۔اس طرح بحر بلوچ کے ذریعہ چین نہ صرف کم فاصلوں بلکہ کم خرچہ اور زیادہ شرح منافع سے اپنے مصنوعات باہر کی منڈیوں میں پہنچاسکتی ہے۔ جو چینی مارکیٹ میکنزم کو عالمی سطع پر فروغ کے لے آسان اور مختصر راستہ ثابت ہوسکتاہے۔ ہے۔
نام نہاد سی پیک چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور سے جو سن کیانگ سے لے کر گوادر تک چین کا مشرق وسطی سے تجارتی فاصلہ 2000میل کم کرتاہے۔اس کے علاوہ چین کی نظریں،بلوچ وطن کی معدنی وسائل ہیں۔جہاں چینی کارپوریٹ کمپنیاں اور کاروباری ادارے، گدھوں کی طرح بلوچ وسائل کے لوٹ مار کے لئے سرگرداں ہیں۔(جاری ہے)

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

جھل مگسی،لورلائی، خضدار،فائرنگ کے الگ واقعات وحادثہ دوبہنوں سمیت 3 افراد ھلاک 2 زخمی

جمعرات جنوری 2 , 2025
جھل مگسی ( مانیٹرنگ ڈیسک ) گنداواہ کے علاوہ گہیلاشار میں ملزم نے فائرنگ کرکے عبدالمجید کو قتل جبکہ ان کے داماد محمد حنیف کو زخمی کردیا اور فرار ہوگئے ، نعش اور زخمی کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں نعش ضابطے کی کارروائی کے بعد ورثاء […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ