شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو جمعرات کے روز 5673 دن پورے ہوگئے۔
بلوچستان کے مرکزی شہر شال میں قائم یہ کیمپ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچ شہداء کو انصاف کی فراہمی کے لیے قائم کی گئی ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل جاری رہنے کی جہ سے اس وقت دنیا کا طویل ترین احتجاجی کیمپ بن چکا ہے۔
جمعرات کے روز کیمپ میں پی ٹی ایم کے مرکزی کمیٹی کے رکن زبیر شاہ آغا ، شال کے ضلعی کوارڈینیٹر رحمت اللہ ، ایوب لالہ ، جہانگير خان اور احسام کبزھی نے آ کر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجتی کیا۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا معاملہ حل ہونے کی بجائے روزافزوں سنگین سے سنگین تر بحران میں تبدیل ہو رہا ہے جس سے بلوچ معاشرہ ایک طرف گہرے رنج و غم اور دوسری طرف شدید غصے کی کیفیت میں ہے۔
وفد سے وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کر کہا بلوچستان ایک جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتا ہے جہاں ظلم کا بازار گرم کیا گیا ہے ، مظلوم کی لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور بوڑھے اپنے نوجوانوں کی میتیں کندھا دے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا اس سال کا سورج بھی بلوچستان میں فوجی کارروائیوں کے ساتھ غروب ہو رہا ہے۔ رواں سال سینکڑوں افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جس میں خواتین بھی شامل تھے۔ فوجی کارروائیوں کے تسلسل سے خدشہ ہے کہ آنے والا سال مزید خونریز ہوگا۔
ماما قدیر نے کہا بلوچستان میں ہزاروں افراد کی جبری گمشدگیاں انسانی تاریخ میں ایک بڑا المیہ ہے ، اور ریاست پاکستان کی یہ پالیسی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ پاکستان میں حکام بدل گئے ، حکومتیں مخلتف جماعتوں اور آمروں کو منتقل ہوئیں مگر بلوچوں کے بارے میں ریاستی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کرکے جبری لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے اور بلوچستان میں سلب کیے گئے انسانی حقوق بحال کرکے شہری زندگی کو پرسکون رہنے دیا جائے۔