پھر وہ دھیرے سے یوں رخصت ہوئی ۔تحریر: بختاور فیض بلوچ

میری سہیلی جس سے میری دوستی کا آغاز اس عہدِ شباب سے ہوتا ہے! وہ پہلی لڑکی تھی جس نے اپنے حسن کے جادو سے مجھے دیوانہ کر دی تھی۔۔ وہ خود ایک ایسی حسن و جمال کا ملکہ تھی جس کے آگے ہر کسی کو، خلیل جبران کے الفاظ میں، سجدہ ریز ہونا پڑتا ہے۔۔ وہ آواران سے تو نکلی تھی لیکن ایسا شہر اور گاؤں نہیں بچ سکی جہاں وہ نہیں گئی تھی۔۔۔ تربت سے شال تک ان کی قدم کے نقش دیکھ لیتے ہو، تو۔۔۔ وہ کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں بلکہ رات میں شمع روشن کرنے والی ایک دیوی ماں تھی۔۔ کاش! وہ رخصت نہ کرتی، ہمیں۔ آواران میں احتجاجی مظاہرہ کرنے والی پہلی عورت جو سارے خواتین کو اکھٹا کرکے آج ہر کوئی ان ہی کی کمی محسوس کرتا ہے وہ کوئی ایک جیتی جاگتی بلوچ سرمچار تھی۔۔

آج کراچی کے گلیوں میں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے، مجھے۔۔ وہ کراچی پریس کلب کے سامنے فوٹو ہاتھوں سے پکڑ کر نعرہ لگاتی، میر جان کی بہن کسی سے کم نہیں تھی۔۔ وہ ایک ماں بھی تھی۔۔۔۔ ماں سے بڑ کر ہماری حوصلہ بن چکی تھی۔۔ بچپن سے جوانی تک وہ ایک انقلابی سفر سے گزری ہے، وہ اپنی بھائی کی بازیابی کیلئے روڑوں پر غمزدہ نکل آئی اور مجھے مغلوب کرتے ہوئے میری دل میں اتر گئی۔۔۔ وہ شعور و آگاہی کے دروازے پر پہلے ہی دستک دے چکی تھی، وہ گوشہ گوشہ منور ہوئی، وہ اوتھل کے جوانوں کی امید بنی، وہ حب کے احتجاجی مظاہروں کی خوبصورتی تھی، وہ آواران کے بدبودار ماحول کا پیداوار نہیں بلکہ ایک ایسی صاف و شفاف جنگی و انقلابی ماحول سے جنم لے چکی تھی کسی سے ڈر نہیں تھی، اس کو۔۔۔

میں نے اس کو ایک جنگجو عورت کی روپ میں دیکھی تھی، آج تو ہر جوان کے دل میں خوشبو چھوڑ کر چلی گئی، وہ زمین سے ہم آہنگ تھی، یہ زمین اور اس کے درمیان کا رشتہ محبت کہلاتا ہے۔۔۔ محبت اسی کو تو کہتے ہیں دو انسانوں یا دو چیزوں کے درمیان ہم آہنگی ہو۔۔ حمیدہ اور زمین ایک دوسرے میں ضم ہیں۔۔ اس کی چہرے پر زمین کا رنگ دکھتا تھا اور وہ ایک ایسی کردار تھی جس پر لکھنے کیلئے ایک قلم اور ایک دلیر انسان کا ہونا ضروری ہے، وہ مخلص اور مستقل مزاج سیاسی جہد کار تھی۔۔

میں جب بھی میدانوں اور وادیوں میں جاتی ہوں ہمیشہ ہی حمیدہ کو یاد کرتی ہوں وہ میری پیاری سی سنگت جس کی منہ سے محبت کے شبد نکلتے اور وہ پرامید پھول جیسی خوبصورت اور وہ اپنی حسن کو زمین سے پیوستہ کر چلی گئی ۔۔ چند روز میں میں تنہا روتی رہی، کبھی کتابوں کو ٹٹولنا شروع کرتی اور کبھی موبائل میں اس کی تصویر کو دیکھتی اس کی چہرے پر مسکراہٹ کا معنی ہی کچھ اور ہے۔۔ وہ اداس نسل کی بیٹی اداس نہیں تھی بلکہ اس کی مسکراہٹ کے خوشبوؤں سے مہک رہی ہے، یہ دھرتی۔۔ وہ یوں رخصت ہوئی

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ڈیرہ غازی خان پولیس  گاڑیوں کو بم حملوں میں نشانہ بنایا گیا 

جمعہ دسمبر 13 , 2024
ڈیرہ غازی خان ( مانیٹرنگ ڈیسک ) ڈیرہ غازی خان کے دو شہروں میں پولیس گاڑیوں کو دستی بم اور ریموٹ بمب حملے میں نشانہ بنایا گیا جس میں دو اہلکار زخمی ہوگئے  ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق  پولیس کی  گاڑی پر خان پور اعظم چوک کے مقام پر دستی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ