تاریخ کے داستانوں اور کتابوں میں ہمیں ہر جگہ یہ پڑھنے کو ملتے ہیں کہ باشعور انسانوں نے زورآور ظلم کے خلاف اپنے وطن شناخت اور قومی بقا کی خاطر بے بہا قربانیاں دی ہیں جن کو تاریخ سہری حروف سے یاد کرتی ہے ،اس انسانی جنگل میں ایسے انسانوں کی کم نہیں جو انسان بن کر انسانیت کی خاطر خود کو فنا کی ہے ۔
ھم بلوچ اپنے آپ کو اس لے خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ہمارے آنکھوں کے سامنے بلوچ فرزند اپنے لہو سے تاریخ رقم کر رہے ہیں نئی تاریخ پر اپنا نقش چھوڑ رہے ہیں اور ہمیشہ کے لیے امر (نمیران ) ہورہے ہیں۔
گمان بلوچ اپنے کام سے بے پناہ لگن اور مہارت کی وجہ سے استاد کا لا لقب پاتے ہیں ۔ جو ایک ایسے دلیر جہد کار اور گوریلہ تھا جو دشمن پر قہر بن کر پڑتا تھا خود سے اپنے قوم سے بے انتہا پیار کرتاتھا انکو پہاڑوں اورجنگلوں سے پیار تھا یہی بات ایک گوریلے کو باقی عام انسانوں کافی مختلف کرتی ہے جنگل اور پہاڑ گوریلے کے پناہ گاہ ہیں کیونکہ دشمن پر قہر بن کر یہی وہ جگہ ہے جو انکے جگہ دیتی ہے ۔
گمان جان ،دراصل گمان بلوچی میں خیال کو کہتے ہیں گمان جان مختصر سی زندگی میں خیال خیال بن کر مگر تاریخ بن گے گمان جان کو ہم نے اپنے آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتے ہو ئے دیکھا تھا جو صرف پڑھتے سیکھتےاور تکالیف اٹھاتے تھے اگر غور سے دیکھا جائے یہی فرزند ہمارےاصل ہیرو ہوتے ہیں اسلئے ہر وہ گوریلے استاد گمان جان کو اپنا آئیڈیل کہتے انکے جیسا بنناچاہتا ہے ۔
اس میں کوئی ابہام یا دو رائے نہیں کہ "کسی بھی بڑے مقصد کے لیے قربانی ہی نئی زندگی کا آغاز ہے۔
اس فلسفے کو گمان جان جیسوں نے سمجھ کر خود کو قربان کیا اور اپنے آج کو کل کے لیے قربان کی ہے۔