بلوچ قوم کی تاریخ جرات، استقلال اور جذبے کی داستان ہے جس میں ان گنت قربانیوں اور خونی جدوجہد کی گواہی دی جاتی ہے۔ 13 نومبر کو "یوم شہداء بلوچ” کے طور پر منایا جاتا ہے، جو ان بہادر بلوچ شہداء کی یاد میں ہے جنہوں نے اپنی زمین، اپنی ثقافت، اور اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بلوچوں نے اپنے حق کے لئے ہمیشہ کھڑے ہونے اور اپنی سرزمین کے تحفظ کی خاطر ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ یہ دن بلوچ عوام کو اس عزم کی یاد دلاتا ہے کہ ان کی زمین کے تحفظ کی خاطر خون بہانا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک مقدس فریضہ ہے، اور اس زمین کے لیے بلوچ قوم کا عزم کبھی کمزور نہیں ہوا۔

بلوچ قوم کی جدوجہد ایک طویل تاریخ پر مشتمل ہے، جس میں بے شمار رہنماؤں نے اپنی قربانیوں اور بے مثال عزم کے ساتھ اپنے لوگوں کے حقوق اور خودمختاری کے لیے جدوجہد کی ہے۔ ان کی قربانیاں آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور ان کے نظریات اور جدو جہد نے قوم کے عزم کو مستحکم کیا ہے۔ ان رہنماؤں کی قربانیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں اور ان کی کہانیاں نسل در نسل زندہ رہیں گی، کیونکہ ان کی جدوجہد آزادی، شناخت، اور حقوق کی بقا کے لئے تھی۔یہ قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں، اور ان کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔میر مہراب، نوروز خان، اکبر خان بگٹی اور بے شمار دیگر رہنماؤں نے اپنی جانوں کی قربانی دی تاکہ وہ اپنے لوگوں کو غلامی اور جبر سے بچا سکیں۔ ان رہنماؤں نے ایک ایسا راہ اختیار کیا جو بے خوفی اور غیر متزلزل عزم سے لبریز تھا۔ ان کی جدوجہد کا محور ہمیشہ سے بلوچ قوم کی آزادی اور حقوق کا حصول رہا ہے۔ ان کی قربانیاں ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ طاقتور دشمن کا مقابلہ کرنا اگرچہ مشکل ہے، مگر یہ نا ممکن نہیں۔ دشمن کی طاقت کبھی بھی بلوچ قوم کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکی۔ یہ عزم اسی استقلال کا حصہ ہے جو بلوچوں کی شناخت کا بنیادی عنصر ہے۔
بلوچستان کی تاریخ میں نہ صرف مرد جنگ کا حصہ تھا بلکہ خواتین کا کردار بھی بہت اہم رہا ہے۔ بانک کریم ہو شاری، سُمیہ، اور ماھل جیسی بہادر خواتین نے نہ صرف میدانِ جنگ میں حصہ لیا بلکہ اپنے کردار سے یہ ثابت کیا کہ قوم کی آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد میں عورتوں کا کردار بھی مردوں کے برابر ہے۔ ان کی قربانیاں اور جرات نے بلوچ تاریخ کو زندہ اور مضبوط کیا، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کی کہ حق اور آزادی کی لڑائی میں صنف کی کوئی قید نہیں ہوتی۔
بلوچ قوم نے اپنی تاریخ میں ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے اور ہر اس طاقت کے خلاف کھڑے ہونے کو اپنے لیے فخر سمجھا ہے جو کسی بھی قوم کو غلام بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان کے دلوں میں اپنی سرزمین کے لیے محبت کا جذبہ اتنا گہرا ہے کہ اس کے لیے اپنی جان دینے کو بھی وہ فخر سمجھتے ہیں۔ بلوچ رہنماؤں نے بارہا کہا ہے کہ اگر زمین کے لیے خون دینا پڑے تو وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس زمین کے لیے ان کے خلوص اور ایثار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ قربانی دینے کو فوقیت دی، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ اس لیے 13 نومبر یوم شہداء بلوچ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ زمین کا دفاع ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے نسل در نسل کو نبھانی چاہئے۔
شہداء بلوچ کی قربانیاں اس جدوجہد کا ایک لازمی حصہ ہیں جس نے بلوچ قوم کو اس مقام تک پہنچایا ہے کہ وہ اپنی آزادی اور حقوق کی جنگ میں ثابت قدم ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بلوچ شہداء نے اپنی جانوں کو اس مقصد کے لئے قربان کیا جو ان کے لئے نہایت مقدس تھا۔ میر مہراب اور نوروز خان کی مثالیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ جب بات اپنی زمین اور قوم کی عزت و احترام کی ہو تو طاقت کا خوف بے معنی ہو جاتا ہے۔ بلوچ قوم نے ہمیشہ غیرت اور ہمت کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے۔ 13 نومبر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد کی قربانیاں ہمیں ورثے میں ملی ہیں، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس ورثے کو برقرار رکھیں۔
اکبر خان بگٹی جیسے رہنماؤں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ مظلوم قوموں کو اگر اپنی آزادی اور خود مختاری کے حصول کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے تو وہ اس میں پیچھے نہیں ہٹتے۔ بگٹی صاحب کی قربانی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بلوچ قوم اپنے حق کی خاطر اپنی جان بھی دے سکتی ہے، مگر اپنی زمین یا اپنی شناخت پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ یہ مثالیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ بلوچ شہداء کی قربانیاں اس جدوجہد کا حصہ ہیں جو آج بھی جاری ہے اور بلوچ قوم کی راہ میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
بلوچ شہداء کی یاد منانا اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنا اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانیں دیں وہ محض افراد نہیں تھے بلکہ وہ اس قوم کی آزادی اور حقوق کے محافظ تھے۔ ان کی قربانیاں بلوچ قوم کے لیے ایک روشن مثال ہیں جو انہیں ہر قسم کے جبر اور استحصال کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ 13 نومبر کا دن ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی زمین اور اپنی قوم کے حقوق کے لیے متحد رہنا ہے اور ہر قسم کے ظلم کے خلاف ڈٹے رہنا ہے۔
آج بلوچ قوم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے اپنی جانیں اس لیے قربان کیں تاکہ آج کی نسلیں ایک محفوظ اور آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ ان شہیدوں کی قربانیوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ بلوچ قوم اپنی آزادی اور خود مختاری کے ساتھ جی سکے اور اپنی زمین پر اپنے حق کا دعویٰ کر سکے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بلوچ قوم کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی اور ہمیں اسی عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ یہ عزم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی شناخت، اپنی زمین اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے تیار رہیں اور ان قربانیوں کی لاج رکھیں جو ہمارے شہیدوں نے ہمارے لئے دی ہیں۔
یوم شہداء بلوچ ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہر بلوچ کے دل میں وہی عزم جگاتا ہے جو ہمارے عظیم رہنماؤں میں تھا۔ یہ دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر ہمیں اپنی زمین کے لئے قربانی دینی پڑے تو ہمیں اس میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی شناخت، اپنی ثقافت اور اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ اس دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ زمین کو بچانے کے لئے خون دینا ایک فخر کی بات ہے اور یہ کہ جب تک بلوچ قوم اپنے منزل تک نہیں پہنچ پاتی، وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔
یوم شہداء بلوچ نہ صرف بلوچ قوم کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کریں بلکہ یہ دن ہمیں اس بات کا عہد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے شہداء کے خون کی لاج رکھیں گے اور اپنی زمین و حقوق کے لئے ہر قسم کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ دن ہمیں اس عزم کی یاد دلاتا ہے کہ خون دینا ہے لیکن زمین نہیں۔