بلوچ اور پشتون طلبہ کے درمیان حالیہ تنازعہ نے بولان میڈیکل کالج کی فضا میں ایک سنگین تناؤ پیدا کردیا ہے، جس کے پس پردہ سماجی، سیاسی، اور ثقافتی عناصر پوشیدہ ہیں۔ ایسے واقعات میں اکثر بظاہر وقتی اسباب کا حوالہ دیا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ جھگڑے صدیوں پرانے نوآبادیاتی زخموں اور انکے اثرات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ بلوچ اور پشتون قومیں مظلومیت اور محکومی کی اس داستان کا حصہ ہیں جو سامراجیت کی سیاست کے ذریعے انہیں آپس میں ٹکرانے پر مجبور کرتی ہیں۔ ایسی جنگیں بظاہر معمولی نظر آتی ہیں، لیکن یہ حقیقت میں نسلوں کے دباؤ، استحصال، اور سیاسی و سماجی غیر یقینی صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں۔
مظلوم قوموں کے درمیان یہ تنازعہ، درحقیقت ایک طویل المیعاد منصوبے کا حصہ ہے جو استحصالی طبقات اور طاقتور عناصر کی جانب سے پایا جاتا ہے۔ ان استحصالی قوتوں کا مقصد مظلوموں کو آپس میں دست و گریبان کر کے اپنے تسلط کو طول دینا اور انہیں متحد ہونے سے روکنا ہے۔ اس تقسیم کا ایک بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان قوموں کو طاقت اور وسائل کی جدوجہد میں مصروف رکھ کر، انہیں بڑی تصویر سے دور کیا جائے۔ پس، نوآبادیاتی سوچ کے زیر سایہ پلنے والے معاشرتی ڈھانچوں اور متنازعہ خطوں میں ریاستی سازشیں بلوچ اور پشتون جیسی قوموں کے اتحاد کو مشکل بناتی ہیں۔
بولان میڈیکل کالج میں طلبہ کی یہ تصادم ان ہی سازشی ذہنیت کا ایک مظہر ہے۔ جب دو مظلوم قومیں ایک ہی ادارے میں تعلیمی یا معاشی مواقع کی قلت کا سامنا کرتی ہیں، تو بجائے ایک دوسرے کا سہارا بننے کے، ان میں باہمی تنازعہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہ قلت دراصل استحصالی ڈھانچوں کی مرہون منت ہے جو کہ مظلوم قوموں کو بنیادی وسائل اور سہولتوں سے دور رکھتے ہیں۔ طاقتور طبقے، سیاسی طور پر، ان مسائل کو اس انداز سے بڑھاوا دیتے ہیں کہ بلوچ اور پشتون جیسے گروہ وسائل کی تقسیم کے مسائل کو ایک دوسرے کا قصور وار سمجھنے لگتے ہیں۔
استعماریت کے اثرات بلوچ اور پشتون طلبہ کے درمیان پیدا ہونے والی اس تفریق میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ سامراجی حکمرانوں نے ہمیشہ مقبوضہ قوموں کو تقسیم کرنے اور انہیں آپس میں لڑانے کی پالیسی اختیار کی تاکہ ان کی اصل توجہ کو ہٹا کر انہیں باہمی جھگڑوں میں مصروف رکھا جا سکے۔ اسی حکمت عملی کا تسلسل آج بھی جاری ہے، جس کے تحت مظلوم قوموں کو داخلی جھگڑوں میں الجھا دیا جاتا ہے، تاکہ ان میں اتحاد کی قوت پیدا نہ ہو سکے۔
یہ بات تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جب تک بلوچ اور پشتون قومیں اپنی اپنی شناخت اور ثقافت کی پہچان کو بنیاد بنا کر متحد نہ ہوں، وہ استحصالی قوتوں کے ہاتھوں میں محض ایک آلہ ہی بنے رہیں گے۔ ان جھگڑوں کے پیچھے چھپی ہوئی سازشوں کو سمجھنا اور انکے خلاف جدوجہد کرنا ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ تعلیمی ادارے جو کہ علم اور شعور کے مراکز ہونے چاہئیں، ان میں اس قسم کی تفرقہ انگیز سیاست مظلوم قوموں کو حقیقی تعلیم سے دور کرتی ہے اور انکی ترجیحات کو بدلی ہوئی شکل میں پیش کرتی ہے۔
بلوچ اور پشتون طلبہ کی یہ لڑائی، حقیقت میں نوآبادیاتی ڈھانچوں کی اُس گہری جڑ کی ایک شاخ ہے جو کہ اس خطے میں صدیوں سے اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔ ان واقعات کا فوری نتیجہ طلبہ کے تعلیمی مستقبل اور تعلیمی اداروں کے وقار کو نقصان پہنچاتا ہے، مگر طویل مدت میں یہ طاقتور استحصالی عناصر کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ استحصالی طاقتیں معاشرتی ناانصافی کو برقرار رکھنے کے لئے مظلوم قوموں کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس تناظر میں، یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ایسے جھگڑے صرف وقتی یا عارضی عوامل کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ انکے پس پردہ ایک طویل المدتی حکمت عملی کارفرما ہوتی ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد مظلوم قوموں کو ایک دوسرے سے دور رکھنا اور انکے درمیان اس قدر بداعتمادی پیدا کرنا ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے حقوق کے لئے مشترکہ طور پر آواز بلند نہ کر سکیں۔ یہ استحصالی حکمت عملی، دراصل تعلیمی اداروں میں طلبہ کی توجہ کو انکے اصل مقصد یعنی تعلیم سے ہٹا کر انکو غیر ضروری معاملات میں الجھانے کے لئے ترتیب دی گئی ہے۔
تعلیمی اداروں میں ایسی تقسیم کی وجہ سے طلبہ اپنے تعلیمی سفر کے دوران ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ حقیقت میں انکی یہ مخالفت دراصل استحصالی طاقتوں کے لئے تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اس تناظر میں، بولان میڈیکل کالج کے طلبہ کے درمیان تنازعہ کو بھی ایک وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان استحصالی قوتوں کو بے نقاب کر سکیں جو کہ طلبہ کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کر انکی اصل ترجیحات کو دھندلا دیتے ہیں۔
ان حالات میں، بلوچ اور پشتون قوموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت کو سامنے رکھتے ہوئے آپس میں اتحاد قائم کریں اور اس بات کا ادراک کریں کہ انکی مخالفت دراصل انکی مظلومیت کو دوام بخشتی ہے۔ اس اتحاد کی ضرورت اور بھی زیادہ شدت سے محسوس کی جاتی ہے کیونکہ سامراجی طاقتیں ہمیشہ سے مظلوم قوموں کو آپس میں لڑانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ اگر بلوچ اور پشتون قومیں اس بات کو سمجھ سکیں کہ انکے مشترکہ حقوق کا حصول باہمی اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہے، تو یہ استحصالی نظام کی جڑوں کو ہلا سکتا ہے۔
ایسے حالات میں ہمیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہئے کہ ان تنازعات کی نوعیت محض وقتی یا عارضی نہیں بلکہ یہ صدیوں پرانی ناانصافیوں اور استحصالی ہتھکنڈوں کا نتیجہ ہیں۔ جب تک مظلوم قومیں اس حقیقت کو نہیں سمجھتیں، وہ یونہی ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی رہیں گی اور انکے مسائل کا حل مزید مشکل ہوتا جائے گا۔ ایسی تحریریں اور مباحثے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہمیں ان سازشوں کو سمجھنے اور انکے خلاف یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔
بالآخر، بولان میڈیکل کالج میں ہونے والے اس جھگڑے کا مطلب محض ایک وقتی حادثہ نہیں بلکہ ایک طویل المدتی استحصالی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔ بلوچ اور پشتون طلبہ کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ انکا اصل دشمن ایک دوسرے میں نہیں بلکہ وہ عناصر ہیں جو انکے حقوق کو دبانے کے لئے انہیں ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔