وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما۔قدیر بلوچ ، جوائنٹ سکرٹری حوران بلوچ اور بلوچ وومن فورم کے سلطانہ بلوچ نے اپنے مذمتی بیان کہا ہے کہ پی۔ٹی ایم کے عظیم الشان جرگہ کو سیکورٹی فورسز کی جانب سے روکنے کی کوشش میں طاقت اور تشدد کے استمال کی شدید الفاظ کی پرزور مذمت کرتے ہیں
انھوں نے کہاہے کہ اگر منظور پشتین کو کچھ ہوا بلوچستان اور کے۔ پی۔ کے میں آگ بھڑکے۔گی اور جو پی۔ٹی۔ایم پر پابندی لگایا ہے ۔فوری طور پر ہٹاجاۓ اور یہ سب کو حق ہے کہ جمہوری ملک میں وہ کسی طرح کا تنظیم یا پارٹی بنا سکتا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا ہے ملک میں صرف دو پارٹیاں کام کرے۔باقی سب پہ پابندی ہو ۔
دریں اثناء جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5598 دن ہو گئے
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما حاجی فاروق شاہوانی بی ایس او بچار کے سابقہ چیئرمین اسلم جتک سینئر کارکن رحمت اللہ بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
وی پی ایم پی کے وائس چیئر مین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جھالاوان کا مرکز خضدار ماہ ستمبر کے مہینے میں مقتل گاہ بنا، پاکستانی ریاست کی سرپرستی میں پلنے والے جرائم پیشہ عناصر نے تحریک کے متوالوں کو چن چن کر ٹارگٹ کیا اور کئی نوجوان بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کیا اور کئی فرزند بلوچ پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ کی گولیوں کا نشانہ بنے مگر اس حسین وادی کے متوالے ہیں کے تمام تر ظلم جبر کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے تحریک کے لیے اپنی خون سے آبیاری تے ہوتے ہوئے نہیں تھکتے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بے شمار قومی غداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ قونی غداروں کو جون کے خاندانوں نے ان سے قطع تعلق کا اعلان کرتے ہوئے اُن قومی غداروں کے بارے میں تمام معلومات کٹھیوں میں عدالتوں میں اور تحریک کے بلوچوں کو فراہم کیے ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ عوام قومی غداروں کو کسی صورت بھی قبول کرنے کو تیار نہیں چاہے وہ اپنا کوئی کتنا ہی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ بلوچستان میں جاری ظلم، جبر بربریت میں تیزی لائی گئی ہے۔ قابض کی شہ پر بلوچستان میں جاری انسانی حقوق – پامالی کی عالمی ایوانوں میں گونجتی آواز کو پاکستانی آئین کی چار دیواری میں قید کرنے اور – اقتدار کے سلیکشن میں اپنا اپنا نام درج کراتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت بلوچ پشتون دونوں پاکستان کی ظلم بربریت کا شکار ہیں۔ ہمارا دشمن مشترکہ ہے ہمارا ایک کے ساتھ مشترکہ دشمن کے خلاف تعاون بھی ضروری ہے
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ موجودہ جہد اس وقت شروع ہوئی جب بلوچ صرار اور تنظیمیں پاکستانی پارلیمانی عیش عشرت مراعات اور وزارت کے حصار میں قید تھے بلوچستان میں صرف ن شناخت کو مٹانے کی حکمت عملی کو بھانپ چند ایسے محب وطن لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کی نے بلوچ قومی شد نا کیا تھا یہ لوگ پاکستان کی تمام چالاکیوں کے باوجود ایک دبھائی سے اپنے لائحہ عمل طے کر رہے تھے۔ اور تحریک کی جد جہد شروع کرنے کے لیے سازگار ماحول کے منتظر تھے۔