یہ جملہ شاید آپ کے لیے اتنا ہی تکلیف دہ ہو جتنا میرے لیے ہے۔ یہ جملہ سیما، زرینہ، حسیبہ اور ہزاروں ماؤں، بہنوں اور دوستوں کے لیے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ الفاظ ان کے لیے ایک زحمت ہوں گے، لیکن میں کیا کروں؟ میں اپنی "سچائی” کے سامنے بے بس ہوں، عاجز ہوں۔ اگر یہ نہ کہوں، تو اندر سے مر جاؤں گا، سو کہہ دیا۔
وجہ
آج کے بدبخت بلوچستان میں "شبیر” بہت ہیں اور "سیما” کم۔ شبیر اٹھائے جاتے ہیں، ان کے وجود چھین لیے جاتے ہیں اور سیما رہ جاتی ہیں۔ وہ چیختی ہیں، چلاتی ہیں، اپنے اپنے شبیر کو پکارتی ہیں۔ کچھ خوش قسمت اپنے شبیر کو کسی نہ کسی صورت میں پا لیتی ہیں، چاہے زندہ ہو یا۔۔۔ اور کچھ کی قسمت میں ہمیشہ کے لیے انتظار لکھ دیا جاتا ہے۔
جب کوئی سیما اپنے شبیر کو پا لیتی ہے تو وہ شکر بجا لاتی ہے اور خاموش ہو جاتی ہے، لیکن اس خاموشی سے ایک گہرا خلا پیدا ہو جاتا ہے، ایک ایسی خلاء جہاں ہزاروں "شبیروں” کی چیخیں گونجتی ہیں اور صدا نہ پا کر گم ہو جاتی ہیں۔ یہ چیخیں غلامی کے تاریک راہوں میں ڈوب جاتی ہیں اور شاید کبھی ان کو جواب نہیں ملے گا کیونکہ وہ خلاء، جو ہر سیما کی خاموشی سے بڑھتی جا رہی ہے، اس میں صرف کھو جانے کا راستہ باقی رہ جاتا ہے۔
لیکن
یہ اس مسئلے کا اختتام نہیں محض آغاز ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ جنگ ہے، ایک ایسی جنگ جس میں رحم نامی شئے کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور اس جنگ میں، پاکستان نامی درندے کے لیے "شبیر” محض خوراک ہیں۔ وہ ان شبیروں کو ہڑپ کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
نہ یہ جنگ رکے گی نہ ہی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تھمے گا۔ اس جنگ میں فتح "شبیر” کی جرات اور "سیما” کی ہمت میں ہے۔ جب تک ہم سیما کو بچانے کے بارے میں نہیں سوچیں گے، ہم خلا کے بعد خلا پیدا کرتے رہیں گے اور شبیر اٹھتے رہیں گے۔
"سیما” کو بچانا ہے
آج کے سیما کو "شبیر” تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ شبیر کی بازیابی ایک فتح ضرور ہوگی، لیکن یہ فتح بے معنی ہو جائے گی اگر ہم یہ نہ سمجھیں کہ ابھی ہزاروں شبیر اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ان کے لیے چیخے، چلائے، کوئی سیما ان کے حق میں آواز اٹھائے۔ سیما کو اپنے شبیر کی ممکنہ بازیابی کے بعد خاموش نہیں ہونا چاہیے۔ اسے اُن ہزاروں شبیروں کے لیے بھی آواز اٹھانی ہے، جن کا کوئی نہیں ہے۔ جن کے سیما ابھی چیخ نہیں سکتے، جن کے سیما ابھی صدمے سے نہیں نکل سکی ہے، غلامی کی زندگی بے مقصد، بے معانی ہوتی ہے مگر جب ہم دوسروں کے لیے جیتے ہیں، تب زندگی کو کوئی مقصد ملتا ہے، کوئی معانی ملتے ہیں۔
لہٰذا، "سیما” کو بچانا ہے
جب تک سیما خاموش رہیں گی، شبیر اٹھتے رہیں گے۔ جتنی زیادہ سیما ہوں گی، اتنے ہی کم شبیر اس وحشی درندے کی شکار بنیں گے۔ یہ درد کسی ایک سیما یا شبیر کا نہیں ہے، یہ درد ساجھا ہے، یہ ہم سب کا درد ہے اور جب تک ہم اس درد کو بانٹتے نہیں، اس کی شدت کم نہیں ہوگی، بلکہ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔
کاش
اے کاش بلوچ سیما، سندھی سیما اور پشتون سیما گلے ملیں، آنسو بہائیں، کندھے سے کندھا ملائیں اور انہی آنسوؤں کو ہتھیار بنا کر پاکستان نامی درندے کے خونخوار جبڑے توڑ کر اپنی اپنی "شبیر” واپس لائیں کیونکہ "شبیر” ہی منزل ہے، شبیر آزادی ہے۔