جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5588 دن ہوگئے ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں نال گریشہ سے محمد خان بلوچ ضامن چنگیزی اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے مخاطب ہو کر کہا کہ بلوچستان میں ریاستی فورسز کے جبر و استبدادیت میں جس خطرناک حد تک روز افزوں ہو رہا ہے وہ بلوچ سرزمین پر ایک سنجیدہ انسانی المیہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ریاستی فورسز کی گذشتہ تین ماہ میں مزید شدت پائی جارہی ہے ۔
اب ریاست بلوچستان میں کسی بھی عالمی قانون کو خاطر میں لانے کا فیصلہ کر چکی ہے اپنے پیش رویوں کی طرح سروں کا چنار کھڑا کرنے سے بھی نہیں چونکے گا۔ صرف گذشتہ ایک ماہ کے دوران ریاستی فورسز نے فضائی اور زمینی آپریشن کے ذریعے 50 سے زاہد بلوچ نوجوانوں کو جبری اغوا اور کئی شہید کر کے جبری اغوا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے عقوبت خانوں میں منتقل کر چکے ہیں ۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی فورسز کے اس طرز کے کارروائیوں کے تال کے پیش نظر یہ غالب امکان ہے کہ مذکورہ معنوی بلوچوں کے جان کو شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ ریاستی خفیہ ادارے تبدیل کے ساتھ اس طرح بلوچوں کو اغوا کر کے بہیمانہ اور غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنا کر اُنہیں شہید کر کے ان کلاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نشان عبرت کے لیے پھینکتے آ رہے ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ بلوچوں کو عرصہ دراز سے ریاست پاکستان اور اُس کے کسی بھی ادارے سے رحم اور انصاف کی کوئی بھی امید نہیں لیکن بطور انسان بلوچ عالمی اداروں اقوام متحدہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے علمبرداروں سے یہ توقع اور اُمید رکھتی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق سنگین پامالیوں کا نوٹس لیکر مداخلت کریں گے اور ناصرف بلوچوں جان و مال اور ننگ) ناموس چادر چار دیواری کے تقدس کو یقینی بنائیں گے ۔ پاکستانی تشدد کا یہ سلسلہ یہاں سے اُمڈ کر عالمی امن کے لیے بھی انتہائی نقصان کا پیش خمیہ ثابت ہو سکتا ہے۔