پچھلے کئی برسوں سے کچھ زندہ خوابوں کی تعبیروں نے مجھے مزید کچھ زندہ یادیوں کے ساتھ وابستہ اور قید کیا ہے۔ جو زندگی کے ہر پہلو پر مجھے سنجیدیگی اور مخلصی کے ساتھ روشناس اور پر کششِ کی عکاسی کرتا ہے۔

یوں تو یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے گئی برسوں سے پہلے ایک پسماندہ گاؤں ہوا کرتا تھا۔ جو صدیوں سے غیر آباد اور بنجر زمینوں کے علاؤہ نہ وہاں پر روز مرہ زندگی کی ضروریاتی اشیاء دستیاب ہیں۔ اور نہ جو انسانی دور کے تعلیمی اداروں کی نجکاری حاصل تھی۔ لیکن یہ سلسلہ چلتا رہا اور آخر کار اس معاشرتی زندگی نے مجبوری سے دو چار کردیا۔
البتہ اس نازک دور نے ثابت کردیا کہ زندگی ایک نہایت ہی عمدہ نظم ہے۔ اور ایسی طرح مشاہدہ کیا جائے تو انسان کی وجود مچھلی کی طرح ہے جب آپ مچھلی کو پکڑ کر پانی سے باہر نکل لیں تو مچھلی کی وجود نیست ونابود ہو جاتی ہے۔ اور یقیناً یہ حقیقیت کی یقین دہائی ہے۔ کہ انسان بغیر تعلیمی سرگرمیوں کے علاؤہ اس دور کی وجود اس دنیا میں نیست و نابود کی علامت رکھتی ہے۔
چنانچہ یہ کہانی کچھ یوں ہےکہ میں کچھ برس کا تھا اور اُس وقت میں ( کلاس پنجم) میں زیرِ تعلیم تھا جو لاچاری اور غربت کی وجہ سے میں دن رات محنت کر رہا تھا۔ اور میرے دلی خواہش تھا کہ میں اعلیٰ
تعلیم حاصل کرلو اور اپنے قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لا سکوں ، اور اسی سوچ و بچار نے مجھے مزید فکر مند کردیا تھا کہ انسان امیدوں پر زندہ ہے۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا آخر کار میرے لیے وہ وقت دور نہیں تھا جو میں برسوں سے اُس وقت کا انتظار کر رہا تھا۔
اور اسی طرح کچھ دن بیت چکے تھے کہ میرے پیارے (ماما جان) اپنے گاؤں میں تشریف لے آئے اور ایک دو دن گزار جانے کے بعد اس نے مجھ سے کہا آپ کی پڑھائی کیسا چل رہا ہے؟ تو میں نے خوش مزاجی کے ساتھ جواب دیا کہ پڑھائی درست ہے۔ اور مزید کچھ سوالات اور جوابات پیدا ہوئے یہ سلسلہ کچھ لمحوں کے لئے روزانہ کی بنیاد پر روان اور دواں تھا۔
اور پھر مزید کچھ دن بیت گئے تو (ماما جان) کراچی کی طرف روانہ ہوئے تھے کیونکہ وہ وہاں پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ بلکہ وہ تعلیمی سرگرمیوں کے علاؤہ ایک خوش مزاج شخصیت کے ساتھ ، سیاسی، سماجی رشتوں کو اُس نے چٹانوں کی طرح مضبوط بنایا ہوا تھا۔ اور وہ ہر وقت اپنے قوم کی خدمت کے لئے صفحہ اول پر موجود ہوا کرتے تھے۔
اور پھر ایک دن اس نے مجھ سے ٹیلی فون پر گفتگو کیا کہ آپ ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار کر لو کہ میں نے سوچا ہے کہ آپ کو یہاں بلا کر ایک اچھی تعلیمی ادارے میں داخلہ دے کر مزید آپ کو تعلیم حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرالوں اور میں نے یہ قیمتی باتیں سن کر بہت بہت خوش ہوا کہ میرے دلی خواہشات پورے ہونے والے ہیں۔
اور اُسی دن میں نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور میں نے اپنے دل سے کہا کہ ابھی مجھے مزید کچھ فکر و عمل کرنے کی طرف گامزن ہونا ہے۔ اور جب میں یہاں (کراچی) میں آکر مختلف لوگوں کی آبادی کو دیکھ کر حیران تھا کیونکہ میرے لئے یہ جگہ اور ماحول دونوں اجنبی اور عجیب سی کیفیت تھا میرے اندر بہت سے سوالاتوں پیدا ہوئے تھے اور یہ سفر رواں دواں تھا (ماما جان) کے ساتھ ہی ساتھ میں تو بہت مایوسی کا شکار تھا کہ میرے لئے یہ سب کچھ الگ سا ماحول تھا۔
البتہ ( ماما جان) نے مجھے مزید پختگی اور استواری کے ساتھ میرا تربیت کیا گیا تھا کہ میں ہی چاہتا ہوں کہ آپ ایک نہایت تعلیم یافتہ ہونے کہ ناطے ہر وقت اپنے قوم کی بقاء کے لئے سوچ و بچار کرتے رہو کیونکہ ہمارے معاشرے میں تعلیمی اداروں کی نہ ہونے کی وجہ سے ہم ایک غیر حیاتیاتی موت کی زندگی سے گزر رہے ہیں۔
مزید یہ کہ میں نے آگے بڑھنے کی رفتار کو تیزی کے ساتھ ساتھ جاری وساری کرتے ہوئے منزل کی جانب گامزن ہو چکا تھا۔ اور میں نے اپنے امیدوں کے ساتھ اپنے منزل کو پانے کے لیے دن رات محنت کرنے کی خواہشات پر سوچ و فکر کرتا رہا، کیونکہ دنیا میں ہر شخص انہی ہی امیدوں پر زندہ ہیں۔ اور یہ اُمیدیں کی وجہ سے ہر وقت انسان اپنے انفرادی اصطلاحات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتا ہے۔
چنانچہ میرے آخری لمحات یوں ہوا کہ میرے پیارے ( ماما جان) اُس دن صبح سویرے اُٹھ کر یونیورسٹی کی طرف روانہ ہوا اور لیکن اس کو کیا پتہ تھا کہ اُس کے لیے وہ زندگی کی آخری دن ہوگیا تھا ، اور اس لئے لوگ کہتے ہیں کہ زندگی چند لمحوں کی ہے اور آخر کار ایک دن انسان کو اس فانی دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہونا ہے۔ البتہ میں نے (ماما جان) کی رخصتی کا پیغام سن کر بہت مایوسی کا شکار ہوا کہ اب مجھے مزید کچھ کرنا ہے۔ لیکن اب کون میرا حوصلہ افزائی کرے گا ؟جو مجھے راستوں سے گزرنے کی تربیت و پرورش کرتا ہے۔
لہذا میں نے امیدوں کو اپنے اندر میں قید کر دیا گیا کہ ابھی کچھ کرنے کی طرف گامزن ہونا ہے۔ لیکن (ماما جان) کی یادیوں نے میرے جزباتوں کو مزید پختگی، اور سنجیدگی سے نوازا کیا گیا تھا۔ اور (ماما جان) کے آخری رُخصتی پر بہت سارے دوست و احباب نے اس کی شخصیت پر کلام پیش کیا گیا تھا۔ اور وہ دن اُس کی ماں کے لئے کربلا کی جنگ سے کم نہیں تھا۔
لیکن ( ماما جان) آپ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے بارے میں میرے پاس لفظوں کی چناؤ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے کہ میں کیسے اور کہاں سے اس کے شخصیت کے بارے میں لکھوں اور چنانچہ وہ آج ہم سے جسمانی طور پر ضرور دور ہیں لیکن اس کے فلسفہ، پختہ نظریہ، خوش مزاجی ، سماجی اور سیاسی کردار آج بھی موجود ہیں اور ہمارے دلوں کے اندر زندہ ہیں۔ اور (اللہ جل و جلالہ) سے میری دعا ہے کہ (ماما جان) کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں صبر و جمیل کا توفیق عطا فرما ئیں آمین۔
” ھاک ءَ دراتگاں پدا ھاک ءِ تہا رواں
انچو من اَتگاں ھمے دابہ ءَ پہ رواں۔”