استاد واحد کمبر اور پاکستان کے لیے آبرو مندانہ موقع : تحریر: دل مراد بلوچ

بلوچ قومی تحریک کے ایک سینئر اور ناقابل تسخیر رہنما، استاد واحد کمبر بلوچ، آج ایک بار پھر پاکستانی ریاست کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ ان کی زندگی بھر کی جدوجہد، نظریاتی عزم اور قربانی بلوچ عوام کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ مگر آج وہ زندان میں ہیں، اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔گوکہ ہم جانتے کہ ہمارا بزرگ رہنما کہاں اور کس حال میں ہیں،جس دن بلوچستان لبریشن فرنٹ نے ان کی اغوا کی تصدیق کردی تو غالب گمان یہی ہے کہ وہ پاکستان منتقل کیے جاچکے ہیں اور استاد ایک بار پھر زندانی ہیں، جب یہ خبر پھیل رہی تھی تو اسی اثنا ایک "دوست” نے طنزیہ میسیج بھیجا۔”ایک اور پریس کانفرنس کا انتظار کرو، یہ کانفرنس کوئی نیم پختہ، بھولا، بھٹکا نہیں بلکہ بہت سینئر رہنما کرنے والے ہیں، اس بار کیا جواب دو گے۔” معزز دوست کا اشارہ استاد واحد کمبر کے بارے میں تھا، میں نے جواب لکھا”ٹارچر، اذیت ظالم شئے ہے، بڑے بڑوں کو توڑ سکتا ہے لیکن جس استاد کمبر کو میں جانتا ہوں، وہ استاد مٹ تو سکتا ہے، لیکن پنجاپی فوج کے سامنے اپنی پچاس سالہ جدوجہد پر ندامت کا اظہار نہیں کر سکتا۔”میرا اعتقاد ہے کہ استاد کمبر ٹارچر سیل میں بھی لڑ رہا ہوگا کیوں نہ لڑے، آخر سرمچار ہے، سرمچار صرف محاذ پر نہیں لڑتا، یہ زندانوں، قید خانوں، عقوبت خانوں اور ٹارچر سیلوں میں بھی لڑتا ہے۔تمام بہی خواہوں سے ناچیز کا دست بستہ عرض ہے کہ "خدارا، استاد واحد کمبر کو یہ حقوق، وہ حقوق کے خانوں میں مت بانٹو، استاد آزادی کا سپاہی ہے، کیا آزادی کا سپاہی ہونا، آزادی کے لیے لڑنا بری بات ہے، تقدس کے باب میں پوری انسانیت کے دریافت یا تخلیق کردہ الفاظ میں "آزادی” کا لفظ سرفہرست ہے، اس پر معذرت خواہانہ رویہ اور بین السطور بات کرنا چے معنی دارد، ہم بار بار جن جنیوا کنونشنز کی بات کرتے ہیں، ان میں سرفہرست جنگی قوانین اور جنگی سپاہیوں کے حقوق ہیں۔”خاکم بدہن مجھے اس جنگ کا فی الحال کوئی انجام نظر نہیں آرہا اور اس جنگ کو ختم کرنا اب فریقین میں کسی کے بس میں نہیں رہا، پاکستان نے گزشتہ بیس سالوں میں صرف ایٹم بم نہیں چلایا ہے باقی ہر قسم کی زور آمائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا ہے،

لیکن بلوچ کے جنگ کا خاتمہ نہیں کرسکا اور نہ ہی طاقت کے بل پر ایک قوم جو مرنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے، اسے جھکایا یا مٹایا نہیں جاسکتا ہے، بے شک انسان مارے جاتے ہیں، قوم نہیں باقی رہتے ہیں۔بلوچ اور پاکستان دونوں کے لیے اس وقت آبرو مندانہ طریقہ صرف ایک ہی ہے کہ جنگی قانون کی پابندی کریں، نہتے لوگوں کو نشانہ نہ بنائیں اور گرفتار لوگوں کی سیاسی یا جنگی قیدی کا درجہ دیں۔بلوچ کے پاس باقاعدہ آرمی نہیں، گوریلا طرز سے غیر روایتی جنگ لڑ رہا ہے، غیر روایتی جنگ میں غلطی کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں لیکن چندے استثنات کے علاوہ بلوچ مسلح تنظیمیں قاعدے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں، دشمن فوج اور دشمن کے لیے سہولت کاری کرنے والوں پر حملے کرتے ہیں یا انہیں ہلاک کرتے ہیں، کھل کر ذمہ داری لیتے ہیں۔بلوچ کے مقابلے میں پاکستان کے پاس باقاعدہ آرمی ہے، باقاعدہ آرمی میں ڈسپلن ہوتا ہے، غلطیوں کا امکان کم یا منفی ہوتا ہے لیکن آج تک پاکستانی ریاست یا فوج میں یہ جرات نہ ہوئی کہ محاذ سے یا شہر، دیہات سے کسی سیاسی کارکن یا سرمچار کی گرفتاری تسلیم کرے، البتہ جب مقابلے یا حملے میں سرمچار مارا جاتا ہے تو فوج ضرور اس کا اقرار کرتا ہے لیکن اس اقرار میں کبھی شفافیت نہیں رہا، جب بھی پاکستان دو سرمچار مارتا ہے تو اپنے عقوبت خانوں سے قید چار بلوچ قیدی قتل کرکے انہیں سرمچار شمار کرتا ہے۔ بطور ریاست یہ پاکستان کے لیے شرم کا مقام ہے، ظالم، جابر اور بے رحم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خوف کا شکار ریاست ہے، پاکستان سمجھتا ہے کہ عالمی قوانین تو کجا اپنی قوانین پر عمل درآمد سے ملک ٹوٹ جائے گا۔کیا میں پاکستان کو یقین دلاؤں کہ ریاست ایسے نہیں ٹوٹتے، قاعدے، قانون پر عمل درآمد ریاست کو مضبوط بناتا ہے۔کہنے کا مقصد یہ ریاست حقیقی معنوں میں ریاست ہی نہیں ہے، ایک طاقتور فوج ہے جسے تحفے میں ایک ملک ملا ہے جسے وہ اس لیے باقی رکھنا چاہتا ہے تاکہ اسے نوچتا رہے، مقبوضہ سرزمینوں کے معدن اور قوموں کا استحصال کرتا رہے۔باقی سب باتیں ہیں۔ مانا کہ آج بلوچ اور پنجابی حریف ہیں، دشمن ہیں، ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں،

اس وقت ایک دوسرے پر رحم کی توقع حماقت ہے لیکن کسی دن تو اس مسئلے کو ختم ہونا ہے، بلوچ پنجابی قبضے سے جان چڑائے، لیکن ہمسایہ تو پھر بھی رہیں گے، جغرافیائی ہمسایہ تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں، پھر پنجاپی بطور قوم یا بطور ہمسایہ بلوچ کو کیا منہ دکھائے گا؟استاد واحد کمبر زندگی بھر لڑتا رہا، لڑنے کا مطلب یہ نہیں کہ شب و روز بندوق تھامے گولیاں برساتا رہا، وہ نظریاتی انسان ہے، لڑنے سے میرا مقصد وہ قومی آزادی کے لیے تبلیغ کرتا رہا ہے، سیاسی محاذ پر موجود رہا، کام کرتا رہا، اپنے طویل تجربے اور تجزیے سے ان کا ادراک تھا کہ مسلح جدوجہد کے بغیر سارے عمل ادھورے ہیں۔لہٰذا انہوں نے محاذ کو زیادہ وقت دیا۔استاد ایک فرد، ایک خاندان یا ایک قبیلے کے لئے نہیں لڑ رہا تھا کہ آج نہ رہا کل بھلا دیا جائے گا، استاد واحد کمبر ایک بڑے نام ہیں، زندگی کی پچاس سال بلوچ قومی تحریک کو دے چکے ہیں، پاکستان سمجھتا ہے کہ بزرگ رہنما کو سالوں زندان میں اذیت دے دے کر مار دے گا اور استاد قصہ پارینہ بن جائے گا، یہ سوچ بارہا غلط ثابت ہوچکا ہے اور استاد کے باب میں بھی غلط ہی ثابت ہوگا۔بلوچ کا جنگ قبائلی، نسلی یا گروہی نہیں قومی جدوجہد ہے، اس میں قربانی کا ناپ تول نہیں ہوتا ہے، سارے کردار یاد رہیں گے، بلوچ تو بلوچ، قیام پاکستان کے بعد ہماری بنیادی دشمن یعنی پنجاپی قوم کے چند ایک لوگ کچھ وقت ہمارے محاذ کا حصہ رہے، وہ آج تک قابل احترام ہیں، آج بھی کسی بوڑھے مری کے سامنے احمد رشید، اسد رحمن یا راشد رحمن کا نام لیں تو آنسو چھلک جاتے ہیں۔ "ارے، وہ تو ہمارے محاذ کے ساتھی تھے، کیسے اچھے، لکھے، پڑھے اور سلجھے لوگ تھے۔” دلیپ جانی داس بلوچ تھا نہ مسلمان (یہاں مذہب کے ذکر کا مطلب قطعاَ مذہبی سوچ نہیں ہے، بس اک مثال ہے) بوڑھا مری آج بھی دلیپ جانی داس کا ذکر ایسے کرتا ہے جیسا اس کا اپنا لخت جگر ہو، استاد عرشو کا مثال شامل کرنے کا جسارت ہی نہیں کر سکتا، وہ تو دیوتا ہے، گلزمین اور جدوجہد دونوں کا مالک ہے۔استاد واحد کمبر، اب محاز نہ سیاسی تبلیغ پر تھا، پیرانہ سالی، مختلف بیماریوں کے شکار ایک بزرگ رہنما کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اٹھا کر زندان میں "جبری لاپتہ” کے کھاتے میں ڈالنےکو پاکستان اگر اپنی جیت سمجھتا ہے تو ایسی جیت پر ہزار لعنت، بزرگ بلوچ رہنما کی ایسی بے توقیری بلوچ کے لیے افسوسناک سہی لیکن پاکستان کے لیے شرمناک ہے۔پاکستان میں رتی برابر ریاستی اخلاقیات ہے تو وہ استاد واحد کمبر بلوچ کو سامنے لائے، اگر پاکستان سمجھتا ہے وہ اس بوڑھے بلوچ کو توڑ دے گا تو غلطی پر ہے۔

آج کل پاکستان میں "سافٹ ویر اپڈیٹ” کی اصطلاح کافی مشہور ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ "فوج اپنے خلاف کسی لکھنے، بولنے والے کو اٹھا کر ٹارچر کرکے چند دن بعد چھوڑ دیتا ہے اور متاثرہ شخص یا تو خاموشی اختیار کرلیتا ہے یا فوج کی زبان بولنے لگتا ہے، یاد رہے یہ سہولت بلوچ کے لیے دستیاب نہیں، یہ عمل پاکستانی سوشل میڈیا زبان میں "سافٹ ویر” اپڈیٹ کہلاتا ہے، اگر پاکستان بوڑھے استاد کا بھی "سافٹ ویر اپڈیٹ کرنا چاہتا ہے تو کوئی پاکستان کو سمجھائے کہ تم جس سافٹ ویر کو اپڈیٹ کرنے میں ماہر ہو، اس کا "ہارڈ ویر” کچھ ہی سال پہلے وجود میں آیا تھا لیکن استاد واحد کمبر کے ہارڈ ویر تیری پیدائش سے بھی پہلے کا ہے، اسے اپڈیٹ کرنا تمھارے بس میں نہیں۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

لبنان فضائی حملے میں حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈر ابراہیم عاقل ہلاک

ہفتہ ستمبر 21 , 2024
لبنان کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جمعہ کو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر ابراہیم عاقل کو نشانہ بنایا جو حزب اللہ کے ایلیٹ رضوان یونٹ کے سربراہ تھے اور تقریباً ایک دہائی سے امریکی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ