پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ نسل کشی ، جبری گمشدگیوں اور زیر حراست افراد کے قتل کے خلاف احتجاج جمعرات کے دن 43 ویں روز بھی جاری رہا۔
جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے آکر اظہار یکجہتی کی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما اور دھرنے کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے مزید لواحقین آرہے ہیں تاہم انہیں فورسز کی طرف سے ضروری سامان لیجانے سے روکا جارہا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ سرد موسم کے باعث نیشنل پریس کلب کے باہر دھرنے میں بیٹھے بزرگ خواتین کی طبیعت مزید خراب ہو رہی ہے۔ انہیں مختلف اسپتالوں اور کیمپ میں ڈاکٹرز معائنہ کررہے ہیں۔
تاہم انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو شدید پریشانی کاسامنا ہے۔
ڈاکٹر کا مزید کہنا ہے ٹارچر سیلوں سے اپنے پیاروں کی رہائی کے ان کے جائز مطالبات کے باوجود ریاست کی طرف سے ان کے تحفظات کو دور کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ بلوچ عوام، جو مصائب کا شکار ہیں، ان کے پاس پلٹنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور ان کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ اگر انہیں کوئی نقصان پہنچا تو ریاست، حکومت اور انسانی حقوق کی مبینہ تنظیمیں ان خواتین کو مسلسل ہراساں کرنے اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی ذمہ داری اٹھائیں گی۔