جبری گمشدگی کو جرائم کے زمرہ میں لانے کے بجائے اسے تحفظ فراہم کرنے کیلئے قانون سازی۔رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

پاکستانی میڈیا میں 05 ستمبر 2024 سے یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ حکومت پاکستان نے بلوچستان میں فوج، سول آرمڈ فورسز سمیت سیکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق کسی بھی شخص کو محض شک کی بنیاد پر حراست میں لیا جا سکے گا، قانون تک رسائی اور عدالت میں پیش کئے بغیر طویل عرصہ  تک اسے زیر تفتیش رکھا جاسکے گا۔  انٹیلی جنس ایجنسیز، قانون نافذ کرنے والوں پر مشتمل جے آئی ٹی بناکر اس شخص سے تفتیش و تحقیقات کرسکیں گی۔ اس مقصد کیلئے کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ1997 میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔ متذکرہ بالا ایکٹ میں ترمیم کےلیے قانون سازی کی جائے گی ۔

یاد رہے 23 اگست 2024 بروز جمعہ  تنظیم اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسداد نسلی امتیاز ( The UN Committee on the Elimination of Racial Discrimination ) نے جنیوا میں منعقدہ اپنے اجلاس میں پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ نسلی ( ethnic ) اور مذہبی ( religious ) اقلیتوں کے خلاف امتیاز کے خاتمہ اور جبری گمشدگیوں کے بارے میں تمام اطلاعات کی تفتیش و تحقیق اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ضروری قانون سازی اور اقدامات کرے۔ اس بارے میں اقوام متحدہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ جبری گمشدگی سے تمام افراد کے تحفظ کی اقوام متحدہ کے کنونشن

(the International Convention for the Protection of All Persons from Enforced Disappearance)
کی توثیق کرے۔

Pakistan asked to ratify law against enforced disappearances – Pakistan – DAWN.COM

اقوام متحدہ کی جانب سے جبری گمشدگی سے تحفظ کے عالمی کنونشن پر دستخط کے اس مطالبہ کو ابھی جمعہ، جمعہ دس دن نہیں ہوئے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے بلوچستان کے اندر فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کو اس طرح کے لا محدود اختیارات دینے کا اعلان دراصل جبری گمشدگی کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش ہے۔

جبری گمشدگی کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے قانون سازی کے اس اعلان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کھٹ پتلی حکومت سمیت ریاستی ادارے مقبوضہ بلوچستان میں نہ تو انسانیت اور انسانی حقوق کے احترام کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں اور نہ ریاستی دہشتگردی، جبر اور تشدد جیسے نوآبادیاتی پالیسیوں میں کسی طرح کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔

ریاست کے تمام ستون جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل جیسے نسل کش پالیسیوں کے ذریعے بلوچ قومی تحریک آزادی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور میڈیا سمیت سب ریاستی ستون ایک صف پر نظر آتے ہیں کیونکہ ریاست کے سب ستون جانتے ہیں کہ وہ اپنے بوسیدہ نوآبادیاتی قانونی، انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ کے ذریعے بلوچ قومی تحریک آزادی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے بوسیدہ آئینی، قانونی اور عدالتی ڈھانچہ میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ آزادی کیلئے بلوچ قومی شعور اور امنگوں کا مقابلہ کرسکے۔

اسی تناظر میں سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کا کڑ نے اپنے ایک بیان میں بلوچ تحریک آزادی کو شکست دینے کیلئے مقبوضہ بلوچستان میں ضرب عضب طرز کے فوجی آپریشن پر زور دیا ہے۔ ضرب عضب ان فوجی آپریشنز میں سے ایک تھا جن کے ذریعے پورے پختون خطہ بالخصوص خیبر، وزیرستان، مالا کنڈ جیسے علاقوں میں وہاں کے غیور پختونوں کی املاک، گھروں، مارکیٹس اور معیشت کو تباہ کیا گیا، 25 لاکھ سے زائد نہتے پختونوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بیدخل کرکے زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا گیاتھا۔

ضرب عضب اور دیگر فوجی آپریشنز کا مقصد امن قائم کرنا نہیں بلکہ ڈالر کمانا اور خطہ کے معدنی وسائل پر قبضہ جمانا تھا مگر ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے مکار پنجابی جرنیلوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر دو دہائیوں تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے کھرب ھا ڈالر بٹورتے رہے۔

اسی طرح مقبوضہ بلوچستان پر پاکستان کے جبری قبضہ کو طول دینے، چین اور دیگر عالمی شراکت داروں کی مدد سے بلوچستان کے سمندری اور زیر زمین قدرتی معدنی وسائل کو لوٹنے کیلئے پنجابی حکمران جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے بلوچ قوم کی آواز دبا کر نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ پختون نسل کشی اور ان کے وسائل لوٹنے کیلئے پنجابی جرنیلوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ڈالرز اور جنگی وسائل بٹورتے رہے اور بلوچ نسل کشی کیلئے چین کو چین -پاکستان اقتصادی کوریڈور  کا جھانسہ دے کر ارب ھا روپے اور فوجی وسائل حاصل کر رہے ہیں۔

انوار کاکڑ اور اس جیسے دلال دانشور اور بونے سیاستدان اس جنگ کے منافع خوروں میں سے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ طاقت کے استعمال اور  ریاستی دہشتگردی کے ذریعے کسی قوم کو غلام رکھنا ممکن نہیں ہے مگر وہ اس جنگ سے منافع کمانے کیلئے ایسے گمراہ کن مشورے دیتے رہتے ہیں۔

ریاست پاکستان اور اس کے حلیف و حمایتی  جنگی منافع خور عناصر بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ کے خلاف بلوچ تحریک آزادی کو دہشتگردی سے جوڑ کر یا امن و امان کا مسئلہ قرار دے کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور ریاستی دہشتگردی کو جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض حلقے اس ریاستی دہشتگردی کیلئے محض فوج اور سکیورٹی ایجنسیز کو ذمہ دار قرار دینے کی معصومانہ یا منافقانہ کوشش کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں بلوچ نسل کشی پر تمام ریاستی ادارے فوج اور انٹیلیجنس اداروں کی امامت میں صف باندھے کھڑے ہیں۔

ربڑ اسٹمپ پارلیمنٹ جی ایچ کیو میں ڈرافٹ کئے گئے کالے قوانین و ضوابط کو من و عن منظور کرکے بلوچ نسل کش پالیسوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے، حکومت ان پالیسیوں پر عمل درآمد کیلئے مالی اور فوجی وسائل فراہم کرتی ہے،
عدلیہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے 2011 میں بنائی گئی کمیشن اور اس طرح کے دوسرے فورمز نمائشی سماعتوں کے ذریعے انصاف اور قانونی جواب دہی کا جھوٹا تاثر بنائے رکھتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا کا بڑا حصہ ریاستی دہشتگردی کے خبروں کو دبائے رکھتی ہے اور سیاسی و مذہبی جماعتیں نیشنل سکیورٹی اور قومی مفاد کے نام پر بلوچ نسل کشی پر فوج کی کبھی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور کبھی خاموشی کی پالیسی اپناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی کارروائیوں کے خلاف سن 2000 سے بلوچستان ہائی کورٹ سمیت مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں مقدمات زیر سماعت آتے اور نبٹائے یا داخل دفتر ہوتے رہے ہیں مگر آج تک کسی عدالت نے فوج، انٹیلیجنس اور پولیس سمیت کسی ادارہ کے کسی ایک بھی آفیسر یا اہلکار کو جبری گمشدگی یا ماورائے عدالت قتل کے کسی ایک کیس میں سزا نہیں دی ہے۔

اسی طرح طرح لاپتہ افراد سے متعلق نام نہاد کمیشن مقبوضہ بلوچستان اور پاکستانی علاقوں سے دس ہزار لاپتہ افراد کے مقدمات نمٹانے کے اعداد و شمار رکھتا ہے مگر کسی ایک کیس میں ملوث ایک مجرم تک کا تعین نہیں کیا ہے۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے وقت بی این پی مینگل کی حمایت حاصل کرنے کے عوض 500 لاپتہ بلوچوں کے بازیابی کا دعویٰ اکثر سننے میں آتاہے مگر ان بلوچوں کو لاپتہ کرنے والے کسی ریاستی اہلکار کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔

ہزاروں بلوچ ریاستی عقوبت خانوں میں لاپتہ ہیں اور یہ نسل کش و انسانیت سوز کارروائیاں روز بلوچستان کے کئی علاقوں میں ہوتی ہیں لیکن پاکستان کی کسی مذہبی و سیاسی گروہ نے اس بلوچ نسل کشی کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھایا۔ البتہ جب کسی جماعت کو فوج دھکے دے کر حکومت سے نکالتی ہے تو پھر اس کے لیڈر مقبوضہ بلوچستان کے اپنے دوروں میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کا دورہ کر کے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔

میاں نواز شریف، شہباز شریف و مریم نواز ہوں یا پھر عمران خان، آصف علی زرداری، بلاول زرداری اور دوسرے پاکستانی سیاستدان، سب اپنے اپنے زمانہ حزب اختلاف میں بلوچستان کے اندر جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی پالیسوں کے خلاف بات کرتے رہے ہیں مگر جیسے ہی فوج اقتدار کی چبائی ہوئی ہڈی ان کے آگے پھینکتی ہے تو یہ پھر سے فوج کا ترجمان اور ھمنوا بن جاتے ہیں۔

جبری گمشدگی کو جرم کے زمرہ میں لانے کیلئے قانون سازی اور اس متعلق عالمی کنونشن کی توثیق کرنے کے بجائے انسانیت کے خلاف اس جرم کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے قوانین میں ترمیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست عالمی قوانین اور شرف انسانیت کے احترام کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کراچی خفیہ ایجنسیوں نے مند کے نوجوان کو ایئرپورٹ سے لاپتہ کردیا

پیر ستمبر 9 , 2024
بلوچستان ضلع کیچ مکران کے رہائشی نوجوان اسد ولد عثمان رہائش سکنہ مند کھنک کو پاکستانی فورسز خفیہ ایجنسیوں نے بندوق کے زور پر اغوا کرلیا۔ بتایا جارہاہے کہ بحرین نے 28اگست 2024 کو بغیر کسی الزام اور وضاحت کے بحرین سے نکال کر پاکستان واپس بھیج دیا۔ جب وہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ