شال جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5554 دن ہوگئے ۔
اظہارِ یکجہتی کیلئے بالگتر سے نیشنل پارٹی کے کارکن محمد ایوب بلوچ، عبداللہ بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔
دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری پریس ریلیز میں کہا ہےکہ بلوچ قوم جہاں ریاستی بربریت تشدد کا شکار ہے وہاں آئے روز ان کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور گمشدگی میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے اور مقبوضہ بلوچستان کی زمینی صورت حال کسی جبر سے کم نہیں جہاں ظلم کی بے رحمیاں سورج کی تپش سے بھی زیادہ گرماتی ہوئی فرزندان وطن کی لہو کو خاک وطن میں جذب کرکے لاپتہ افراد کی بازیابی کی کرنوں کا باعث بن رہی ہیں۔
ماما قدیربلوچ نے کہا ہےکہ ہماری ماؤں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں پاکستانی جبر ظلم نے پر امن جدوجہد کو آنے والی نسلوں تک خود منتقل کردیا ہے آپریشن کے سلسلے اپنی تپش کے ساتھ پورے بلوچستان میں جاری ہے پہاڑیں بھی پاکستانی بمبوں کو اپنی سینے میں سہتے رہے ہیں۔جبری لاپتہ افراد کے لواحقین بھی سالوں سے پریس کلبوں کے دروازے کو دستک دی مگر یہاں تو سب گھونگھے اندھے ہیں جبری اغواء ہونے والے فرزندانوں کے کئی رشتہ داروں نے میڈیا کے سامنے اپنی فریاد رکھی مگر سنے گا کون ریاستی جبر ظلم کسی نہ کسی صورت بلوچوں پر اور اس کی باسیوں پر جاری ہے ۔
انھوں نے کہا ہےکہ ریاستی مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت نہتے سیاسی کارکنان ادیبوں شاعروں وکلاء ڈاکٹرز جنکا تعلق فکری اور نظریے سے رہا ہے انہیں فوج نیم فوجی ادارہ ایف سی نے جبری اغواء لاپتہ کرنے کے بعد سالوں انہیں اذیت دینے کے بعد ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پہاڑوں ویرانوں میں ملیں اور کئی دفعہ تو پانچ پانچ جبری اغواء کیےگئے بلوچوں کی لاشیں بھی لیویز پولیس نے برآمد کرچکا ہےجنکی تعداد کئی ہزاروں سے زائد آج کل نئی حکمت عملی کے تحت بلوچ نوجوان کو مقبوضہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری اغواء کیا جاتا ہے اور ان کی لاشیں ویرانوں سے مل رہی ہیں لیکن اس شمار میں وہ اپنے کئے گئے افراد شامل نہیں جنہیں شہید کرنے کے بعد دفن کردیا گیا ہے۔