جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کی 5553 دن ہوگئے ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او پجار کے چیئرمین بوھیر بلوچ سمیت دیگر اور مرد خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہاہے کہ بلوچ دھرتی اور بلوچ قوم کے دکھ درد اور صورت حال کو دیکھ کر شاید ہی کوئی سنگدل انسان اپنے آنسو روک پائے لیکن یہ بلوچ قوم ہے جو دکھ سہنے کے باوجود برداشت کئے جارہی ہے اور ایس برداشت کی آڑ میں کچھ لوگ سوداگری میں لگے ہوئے ہیں۔ ظلم کو برداشت کرنا بلوچوں کی مجبوری ہے۔ کیونکہ غلام اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ تاہم بے بس اور غلام بلوچوں نے دھرتی کی خاطر پر این جدجہد کو اپنا کر دنیا کو یہ پیغام روز اول سے دے دیا کہ ہم غلامی کے طوق کو اپنی گردن سے نکالنے کے لیے ہر وقت پر امن جد جہد کرتے رہیں گے۔ اور جب بھی بہتر پوزیشن میں آئیں گے تو پھر دنیا کو دکھا کر دیں گے کہ دھرتی پر یلغار کرنے والوں کے ساتھ ٹکر لینا بلوچوں کی فطرت اور قومی روایت ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ نسل کشی پالیسیوں میں تیزی لائی ہے بلکہ اپنے پارلیمانی با گزاروں نام نہاد حکم انور اور ڈرگ فافیا کے ساتھ بلوچ تحریک کے خلاف ایک نیا پروپیگندہ محاذ کھول دیا ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کی بلوچ شہدا اسیران سے نام نہار ہمدردی در اصل بلوچستان میں جاری پاکستانی – مظالم پر پردہ ڈالنے اور عالمی برادری کی توجہ ان مظالم سے ہٹانے کی ایک نام کام کو شش ہے
انھوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں طویل عرصے سے فوجی آپریشن روز مسخ شدہ لاشیں برآمدگی کی وجہ سے بلوچ گھروں میں سوگ کا سماں ہے فضا سوگوا رہے ہر آنکھ اشک بار ہے بلوچستان جل رہ ہے۔ ہر طرف آنسووں کے دریا ہے رہے ہیں۔ مگر پاکستانی فوج ہمارے نوجوانوں کی قربانیاں کر رہے ہیں جس دیس میں آبادیوں پر گولیاں برسائی جائیں نوجوان اذیت خانوں میں ہوں قوم کی باعزت خواتین جیلوں میں انسانی کے روپ میں درندوں کے ریت کا سامنا کر رہی ہوں۔ مائیں اپنے لخت جگروں کی غم سے نڈھال ہوں نہیں پریس کلبوں کے سامنے اپنے بھائیوں کی بازیابی کی خاطر سالوں سے احتجاج کر رہی ہوں معصوم بچوں کو گولیوں سے بھوند دیا جارہ ہو خوشیوں کے بدلے سروں کی کٹائی ہوتے ہوے نے دن کی شروعات تشدد زدہ لاشوں سے کی جائیں ، تو خوشیاں اس دیس سے بہت دور چلی جاتی ہیں۔