یہ 2008ء نومبر کی 12 تاریخ تھی اور شام کے 5 بج رہے تھے اور میں کراچی صدر میں پاسپورٹ آفس کے پاس ایک گلی میں ہوٹل الریان کے تیسرے فلور پر کمرہ نمبر 212 میں ٹھہرا ہوا تھا – اتنے میں میرے کمرے پر دستک ہوئی ، میں نے دینے والے سے اندر آنے کو کہا ، ایک آدمی اندر داخل ہوا- اس نے ہلکے آسمانی رنگ کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی – شلوار گھیر دار تھی اور قمیص بس گھٹنوں سے تھوڑی نیچے تھی جو بلوچ لوگوں کا مخصوص پہناوا ہے – پاوں میں اس نے ٹائروں سے بنی چپل پہنی ہوئی تھی – سامنے دل کی طرف بنی جیب میں ایک بال پوائنٹ ٹنگا تھا- خوب سیاہ رنگ جیسے مشکی گھوڑے کا ہوتا ہے ، آنکھیں گول مٹول اور ان پر ایک پرانا سا چشمہ اٹکا ہوا تھا- بال گھنگھریالے مگر چھوٹے چھوٹے تھے – کشادہ پیشانی تھی اور ہاتھ میں اس نے ایک کتاب اور لپٹا ہوا اخبار پکڑا ہوا تھا – وہ مکرانی بلوچوں کی نمائندہ شبیہ تھی – وہ میری طرف بڑھا اور اور مجھ سے گلے ملا اور اپنا ایک ہاتھ اس نے میرے بائیں طرف عین دل کے مقام پر رکھا اور گویا ہوا،
کامریڈ، میں طارق بلوچ ہوں ، آپ سے صبح بات ہوئی تھی فون پر ۔۔۔۔۔
میں بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھ گیا اور اسے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کو کہا، اور میں نے ایکسٹینشن فون اٹھایا اور کچن سروس میں فون ملا اسے دو سلیمانی چائے لانے کو بول دیا –
طارق بلوچ ان دنوں کراچی میں بلوچستان سے نکلنے والے ایک اخبار توار سے بطور اسٹاف رپورٹر وابستہ تھا اور ایوننگ میں وہ ایک یونیورسٹی سے انگریزی لسانیات میں ایم فل کر رہا تھا – اس نے کوئٹہ یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا تھا- اس کے والد کسی زمانے میں نیپ کے سرگرم رہنماء رہے تھے اور 77ء میں قلی کیمپ میں سیکورٹی فورسز کی حراست میں تشدد کی تاب نہ لاکر زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور وہ اپنے والد کی وفات کے 6 ماہ بعد پیدا ہوا تھا- اس نے 2005ء میں ایم اے کرنے کے بعد کوئٹہ سے کراچی ہجرت کی تھی – اب وہ اپنی والدہ،بیوی اور 6 بہن بھائیوں کے ساتھ لیاری میں رہتا تھا- وہ ان بلوچ جوانوں میں سے تھا جو مشرف کے زمانے میں نئے انداز سے اٹھنے والی قومی تحریک میں شامل تھے –
میری اس سے دعا سلام ایک فیس بک گروپ میں ہوئی تھی جہاں عام طور پر فلسفے کی لبریشن تھیوریز پر بحث ہوا کرتی تھی اور ظاہر ہے وہاں پر پاکستان میں قومی سوالوں پر بھی بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا- اس دن کی ملاقات میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ میرے مضامین ، تراجم اور فیچرز لیفٹ کے رسائل اور ویکلی ہم شہری لاہور میں پڑھتا رہا ہے – اس نے مجھے بتایا کہ آج کی ملاقات کا مقصد مجھے ایک اور دوست سے ملوانا ہے جو لیاری میں مقیم تھے – چائے پی کر ہم اٹھے اور ہوٹل سے نکل کر ہم نے ایک رکشا لیا اور لیاری کے ایک محلے میں پہنچ گئے اور ایک عمارت کے سامنے رک گئے جس میں فلیٹس بنے تھے-
طارق نے موبائل فون پر کسی سے بات کی ، پانچ منٹ کے بعد اس عمارت کے مرکزی داخلی گیٹ سے ایک آدمی چلتا ہوا ہماری طرف آیا- وہ قریب قریب پونے چھے فٹ لمبا تھا- دبلا پتلا، چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی ، چوڑا ماتھا اور رنگ گندمی تھا اس نے بھی مخصوص بلوچی شلوار قمیض پہن رکھی تھی – پاوں میں قینچی چپل تھی اور اس نے ہاتھ میں ایک ضخیم سا کاغذات کا پلندہ اٹھایا ہوا تھا –
وہ آتے ہی باری باری ہم سے گلے ملا اور پھر اس نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ، "عامر صاحب! معذرت خواہ ہوں، فلیٹ میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے ، فیملی کافی بڑی ہے، امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے، یہاں پاس ہی میرا ایک درزی دوست رہتا ہے ، اس کی دکان نما بیٹھک میں چلتے ہیں ، اس وقت وہاں کوئی نہیں ہوگا، وہیں چائے پیتے ہیں ، اور کہچری کرتے ہیں – ” میں نے کہا کہ آپ ذرا شرمندہ نہ ہوں ، میرے گھر میں بھی کوئی بیٹھک نہیں ہے اور جو دوست آتے ہیں ملنے انھیں میں چائے کے ہوٹل میں بٹھاتا ہوں – یہ سن کر وہ ہنسنے لگا اور اس نے مزاحیہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے عامر صاحب ! آپ کو پنجاب کی ترقی سے کچھ ہاتھ نہیں لگا، کسی کوئلے کے ٹھیکے دار یا ایرانی تیل کے بیوپاری سے یارانہ لگاتے تو بلوچستان آپ کو ایک چھوڑ دس بیٹھیکیں بنانے کے قابل بنا دیتا یا آئی ایس پی آر کے لیے بلوچستان میں سرداروں کے مظالم کی کہانیاں لکھتے اور بلوچ کی پسماندگی کی ذمہ داری بلوچوں پر ڈالتے تو زندگی کافی آسان ہوجاتی –
لیکن تمہیں تو یہ جاننے کی فکر پڑی ہے کہ بلوچ قوم کے انتہائی پڑھے لکھے نوجوان نئی قومی تحریک کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں اور وہ ڈگریاں لیکر کسی سرکاری سردار، خان ، بھتار یا بیوروکریٹ سے نوکری کی بھیک کیوں نہیں مانگ رہے؟ میں اس کے مزاح کے پیچھے چھپے گہرے طنز اور المیہ کو خوب سمجھ رہا تھا اور اسی لیے میں نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا- ہم وہاں سے قریب 8 سو قدم دوری پر ایک بازار کے وسط میں بنی ایک دکان میں داخل ہوگئے-
یہ اکرم بلوچ درزی کی دکان تھی جس کے اوپر اس کا مکان بنا ہوا تھا- اندر داخل ہوئے تو درزی اکرم بلوچ نے سلائی مشینیں گھسیٹ کر ایک طرف رکھی تھیں اور سامنے پڑے لکڑی کے ایک تخت پر وہ ہارمونیم سنبھالے بیٹھا تھا اور اس کے پاس ایک اور نوجوان طبلہ لیے ہوئے تھا- پتا چلا دن میں درزی اکرم بلوچ رات کو موسیقی کی مشق کرتا ہے – خیر دعا سلام کرکے ہم وہاں بیٹھ گئے – اس جوان نے اپنے کاغذوں کا پلندہ میرے سامنے رکھا اور چند کاغذ میرے سامنے پھیلا دیے اور پھر کہنے لگا کہ وہ فرانز فینن کی کتاب ” سیاہ جلد سفید ذہنیت” کا انگریزی سے بلوچی زبان میں ترجمہ کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات مجھ سے ڈسکس کرے اور پھر وہ انھیں بلوچی زبان میں ڈھال لے گا-
اس نے مجھے بتایا کہ وہ افریقہ ، لاطینی امریکہ ، ایشیا بھر کی قومی آزادی اور خودمختاری کی تحریکوں کے زیر اثر تخلیق ہونے والے ادبی ، سیاسی اور فلسفیانہ سرمائے کو بلوچی زبان میں منتقل کرنے کا سوچ رہا ہے – اس نے بتایا کہ وہ "انسان بڑا کیسے ہوا” کا بلوچی زبان میں ترجمہ کرچکا ہے – ہم وہاں رات دو بجے تک بیٹھے رہے اور وہ جوان اس دوران اپنا سارا فہم ، سوچ ، خیالات میرے سامنے کھول کر پیش کرتا رہا – بہت پڑھا لکھا تھا وہ اور وہ قومی مزاحمت کی ساری ساخت چاہے وہ ذہنی ہو یا عملی اس سے واقف تھا – وہ اپنے نوجوان بلوچوں کو بلوچی زبان میں ایک بہت بڑا علمی سرمایہ منتقل کرنا چاہ رہا تھا جو ویسے تو مترجمین اور مصنفین کی ایک بہت بڑی جماعت کا کام تھا- خیر میں اس سے کراچی قیام کے دوران مسلسل ملتا رہا اور اس کے توسط سے کئی اور نوجوان بلوچوں سے ملا – مجھے یقین تھا کہ ایک دن وہ بلوچ ادب کا بڑا نام ہوگا –
کچھ سال گزرے تو غالبا مارچ 2013ء میں مجھے طارق بلوچ نے میسج کیا کہ ہم جس جوان سے ملے تھے وہ لاپتہ ہوگیا ہے اور خدشہ ہے کہ اسے جبری لاپتہ کیا گیا ہے- پانچ ماہ بعد اگست 2013ء میں خبر آئی کہ اس کی لاش ایک ویرانے میں مل گئی ہے ، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسے گلے میں پھندا ڈال کر مارا گیا تھا جبکہ جسم پر تشدد کے نشان تھے – اس کی بیوی نے اس کے جسم پر چیتھڑوں کی صورت چپک گئے کپڑوں سے شناخت کیا جو اس نے اس روز پہن رکھے تھے جس دن اسے لاپتہ کیا گیا تھا کیونکہ اس کا چہرہ بالکل مسخ ہوچکا تھا جس سے شناخت ممکن نہیں رہی تھی-
وہ نوجوان عبدالرزاق سربازی تھا- اس نے نہ تو ہتھیار اٹھائے تھے ، نہ ہی وہ عرف عام میں کسی تنظیم سے وابستہ تھا- روزنامہ توار کراچی میں وہ نیوز سب ایڈیٹر اور کاپی رائٹر کی نوکری کرتا تھا جہاں سے اسے معمولی سی تنخواہ ملا کرتی تھی- وہ فری لارنس مترجم اور لکھاری تھا – اس کا خاندان ابھی لیاری میں معمولی گزر بسر کر رہا ہے – وہ اپنی قوم کی پسماندگی، کسمپرسی، محکومیت اور مظلومیت کے مقدمے کو دوسری مظلوم اقوام کے ادبی سرمائے کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور ابھی وہ کوئی خاص پروڈکشن کر بھی نہیں پایا تھا اور جن کتابوں کو اس نے چنا تھا وہ پاکستان میں ممنوعہ کتب بھی نہیں تھیں-