بلوچ نسل کشی” کو اجاگر کرنے والے نشان کی تختی جامعہ بلوچستان کے قریب نصب کیا گیا

بلوچستان کے مرکزی شہر شال میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوافر میں 28 جولائی کو منعقد ہونے والے بلوچ راجی مچی کے قافلوں کو روکنے شرکاء پر تشدد انھیں شہید اور زخمی کرنے علاوہ جبری لاپتہ اور ہزاروں افراد کی گرفتاری کیخلاف بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے جاری احتجاجی دھرنے کے دوران “بلوچ نسل کشی کی علامت” کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔

تقریب میں مقررین نے اپنی جانیں گنوانے
والوں کی یاد کو محفوظ رکھنے کی اہمیت اور ان گھناؤنے جرائم کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے مسلسل وکالت کی ضرورت پر زور دیا۔

بی وائی سی کے سرگرم کارکن بیبرگ بلوچ کے مطابق تین پنکھڑیوں پر مشتمل یہ یادگار ان ہزاروں بلوچوں کی کہانیوں کی علامت سمجھاجاتاہے جو پاکستانی ریاست کی جانب سے نسل کشی کا شکار ہوئے اور اپنے وطن کے اندر ریاستی جبر کے نشانے بنے۔

یہ علامت نہ صرف بلوچ کو درپیش مظالم کی یاددہانی کے طور پر کام کرتی ہے بلکہ عالمی برادری سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تسلیم کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک کال کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ اس یادگار کے لیے جگہ کے طور پر یونیورسٹی کا انتخاب آنے والی نسلوں کو اپنے آباؤ اجداد کی جدوجہد اور قربانیوں سے آگاہ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلے نصب کیا گیا ہے ۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

خضدار انتظامیہ اپنا وعدہ پورا کرے، ہمارے لاپتہ پیاروں کو 48 گھنٹے کےاندر نہیں لایا گیا تو دوبارہ احتجاج کا راستہ اپنائیں گے – لواحقین

ہفتہ اگست 10 , 2024
بلوچستان ضلع خضدار تحصیل نال کے علاقہ گریشہ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں ایک ہی خاندان کے چھ لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے اعلان کیا ہمارے پیارے بقیہ 3 پیاروں کو 48 گھنٹے میں نہیں لایا گیا تو دوبارہ دھرنا دینے پر مجبور ہونگے۔ انھوں نے کہا ہے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ