بلوچ راجی مچی اور ریاستی ڈسکورسز۔!!!تحریر : چاکر بلوچ

دنیا کی تاریخ میں سامراجی قوتوں نے اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی خاطر کئ ہتھکنڈے اپناۓ، کہیں پہ اس نے تشدد کا استعمال کیا تو کہیں اپنی سافٹ امیج کو برقرار رکھنے کی کوشش کی تو کہیں لوگوں کو ورغلا کر ان سے انکی آزادی چھین لی۔پرتگال نے گِنی بساؤ میں تشدد کے استعمال کو ناگزیر سمجھ کر افریقیوں کو افتادگان خاک کی طرح روندنا شروع کیا۔ الجزائر میں جب ایف ایل این کی جنگی شدت تیز ھو کے پہاڑوں سے نکال کر جنگ کو شہروں میں لائ تو فرانس نے اپنا اصلی سامراجی چُھپانے کےلۓ یکدم "پیسفیکیشن ” استعمال کی۔ انجام کا پوچھیں تو دونوں ہی ناکام ہوۓ۔ آخر کیا محرکات تھے جو انکی زوالی کا سبب بنے۔ ؟


بڑی دلائل میں جاۓ بغیر کہوں تو "قومی شعور ” کا لفظ استعمال کرنا بیجا نہ ھوگا۔

ڈسکورس کیا چیز ہے؟ اسے کس طرح معاشرےکا حصہ بنایا جاتا ہے؟ اور کس طرح یہ پھیل کر پورے قوم کی عقل کے سامنے ایک پردہ حائل کرتاہے جسکے آگے شعور، منطق، دلیل اور قومی تشکیل کاسفر ہے جبکہ اسی پردے طوق، زنجیروں کی درد بھری داستانیں ہیں۔

ڈسکورس کی اصطلاح کو سب سے پہلے میشل فوکو نے اپنے کتاب "ڈسپلن اور پنشمنٹ” میں استعمال کیا۔
فوکو نے تاریخی طور پر ایک ایسے سماجی نظام کو ظاہر کرنے کے لیے ‘ڈسکورس’ کی اصطلاح اختیار کی جو علم اور معنی پیدا کرتا ہے ‘وہ مشقیں جو منظم طریقے سے ان چیزوں کی تشکیل کرتی ہیں جن کے بارے میں وہ بولتے ہیں’۔ مباحثی منطق کی اجتماعی تفہیم اور گفتگو کو سماجی حقیقت کے طور پر قبول کرنے کے ذریعے۔ فوکلٹ کے ماطابق ڈسکورس ایک سماجی ارڈر کے اندر طاقت کے اثرات سے تیار ہوتے ہیں، اور یہ طاقت خاص اصول اور زمرہ جات کا تعین کرتی ہے جو متضاد ترتیب میں علم اور سچائی کو قانونی حیثیت دینے کے معیار کی وضاحت کرتی ہے۔

ڈرسکورس معنی کو ٹھیک کرنے کی اپنی صلاحیت اور اس کے سیاسی ارادوں دونوں کو چھپاتی ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ ایک ڈسکورس اپنے آپ کو ایک تاریخی، آفاقی اور سائنسی طور پر اپنے آپ کو معروضی اور مستحکم بنا سکتی ہے۔
اس تکراری عمل کے ذریعے ڈسکورس معاشرے میں عام ہوتی جاتی ہے اور معاشرے کاحصہ بن کے رہ جاتی ہے، اگر اسکو عام زبان میں سمجھا جاۓ تووہ علم جو معاشرے کے طاقت رکھنے والے لوگ بناکر اسکو معاشرے کے اندر اپنے بیانات کے ذریعے اسکی تشہیر کرتے ہیں اور یہی ڈسکورس لوگوں کی زندگیوں پر اثر ڈال کر اپنے آپ کو مادی روپ دیتا ہے۔ ڈسکورس بیانات کو علم کے طور پر قبول کیا جاتا ہے، ایک ڈسکورس ایک علمی حقیقت پیدا کرتی ہے اور کنٹرول اور نظم و ضبط کی ایک تکنیک بن جاتی ہے۔

کالونیل ڈسکورس کی اصطلاح سب سے پہلے ایڈورڈ سعید نے اپنی پوسٹ کالونیل شاہکار کتاب اورینٹلزم میں استعمال کی۔ ایڈورڈ سعید کے مطابق کالونیل ڈسکورس علم کا وہ مجموعہ ہے جس کے ذریعے مقامی لوگوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ وہ اس علم کے اندر آرٹ، موسیقی، لٹریچر کو شامل کرکے کہتاہے کہ اسی علم کے مجموعے سے اسی قوم کے بارے میں لوگوں کی ایک ذہنی تصویر بن جاتی ہے۔ اور قبضہ گیر کے ساتھ ساتھ مقبوضہ قوم بھی اپنے بارے میں وہی رویہ اپناتا ہے۔وہ نیپولین کا مصر کے اوپر حملے کی مثال دیتاہے، وہ کہتا ہے کہ مغربی دنیا کے لوگوں کے ذہنوں میں سامراجی قوتوں نے یہ بات انجیکٹ کردی ہے کہ مشرق ایک غیر تاریخی، غیر مہذب اقوام کاخطہ ہے، جسے مہزمذب بنانے کا کام مغربی اقوام کا ہے اور اسی بات کو جواز بنا کر یورپ نے صدیوں افریقہ اور ایشیا کے اقوام کو اپنے سرمایہ داری نظام کو توسیع کرنے کے لۓ اپنا غلام بنایا۔۔ !

اسی طرح بلوچ قوم کے اندر ریاستی ڈسکورسز کا ھونا کوئ نہیں بات نہیں ۔لوگوں میں فرقہ واریت کا رنگ ایسے چڑھ گیا کہ اتارنے کےلۓ سالوں لگ جائیں، کیونکہ ریاستی طاقت نے بلوچ معاشرے کے اندر اس کو اس قدر عام کر دیا کہ لوگ فرقہ کے نام پر اپنے بھائ کو مارنے پہ تُل جاتے ہیں اور اسی ڈسکورس کو مزید طول دینے کےلۓ کوہلو سے لے کر خضدار تک ریاستی مدارس کا جال بچھاہے جس کے متولی رائیونڈسے آۓ ہو ؤں کی خاطر داری میں لگے ھوتے ہیں ۔ سرداری اور غلامانہ سوچ کی لالچ اور پیسے کے ذریعے ایسی تشہیر کی گئ کہ لوگ تھئ سردار مئ سردار کا نعرہ لگاکر قبائلی خلفشار کو مزید ھوادے کر سرداروں کے انا کی آبیاری کرکے قومی شناخت کو پیروں تلے روندنے میں کوئ کثر نہیں چھوڑتے۔ زبان کے نام پہ ریاست نے ایسی مصنوعی شناخت بنادیے کہ لوگ بے منطق، لاشعوری طور پر اس میں ضم ہونے کی کوشش میں لگے ھوۓہیں ۔اور وہی آج بلوچ علاقوں پر دعوی کرتے نظر آتے ہیں۔علاقہ پرستی اس حد تک عام ہے کہ کوئ اپنے آپ کو مکرانی کہتا ہے تو کوئ خضداری تو کوئ گوادری اور کئ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اپنے علاقے والے طالبعلموں کے ساتھ گروہ بنا کر پھر رہے ہوتے ہیں ۔اور کہیں پہ یہ بات بھی مشہور ھوجاتی کہ جی "ھم توسندھ کے ہیں،ھم پنجاب کے ہیں،ھم امن پسند ہیں،ھمیں نہ گھسیٹو "کی باتیں سننے کو ملتی ہیں.یہ سب ڈسکورسز ریاست نے اپنے طاقت کا استعمال کرکے ایسے نارملائز کۓ ہیں کہ اب ان کو پریکٹس کرتے ہوۓ ھوۓ نہیں شرماتے کیونکہ ڈسکورس ھمارے معاشرے کے اندر سچائ بن جاتے ہیں۔

بلوچ راجی مچی اور اس سے پہلے کا بلوچ مارچ انہی ڈسکورسز کا قلعہ قما کرنے میں کافی حد تک کامیاب ھوۓہیں۔ اجتماعی سیاسی تربیت یا سیاسی موبلائیزیشن وہ عمل ہے جو ایک قوم کے لوگوں کے اندر "منطق، شعور، عشق، عقیدت , نظریہ ” کی آبیاری کرکے اس قوم کو ازسرنوتشکیل کی طرف متحرک کرتاہے۔ یہی عمل شعور کے بیج کو عمل کے تن آور درخت میں تبدیل کرتا ہے۔ یہی عمل انسان کے اخلاقی جذبات کا مرکب ہے اور یہی عمل ہے کہ جو مظلوم اور ظالم کے درمیان کے رشتے کو واضح کرتاہے۔یہی عمل ڈی کالونیل ایجوکیشن کا حصہ ہیں جس کی بدولت کا لونیل ایجوکیشن کے ذریعے پھیلنے والے ڈسکورسز کو کاؤنٹر کیا جاتا ہے۔۔

انہی تحریکوں کے ذریعے سیاسی آبیاری ،ڈسکورسز کی تشخیص کے ساتھ ساتھ ان کا علاج بھی بہ یک قت چلتاہے۔ بلوچوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ تو فرقوں میں تقسیم ہے، تو ائیں میں آپکو مثال دوں، کہ جب 2023 میں جڑانوالہ میں پنجابی شدت پسندوں کے ھاتھوں ایک بندے کو زندہ مار دیا جاتاہے تو اسی وقت بلوچ نمازی ذگری کو ایک طرف کرکے بالاچ کے جنازے کو کاندھادے کر اپنے شہید کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ وہی بلوچ قوم ہے جس کے بارے میں پنجابی کہتے تھے کہ یہ تو قدامت پسند لوگ ہیں اپنے عورتوں کو حقوق نہیں دیتے، لیکن جس دن اسلام آباد میں ایک معصوم عورت کاگینگ ریپ ھورہا ھوتا ہے ، اسی دن بلوچ سمو راج کی قیادت میں اپنے حقوق کےلۓ گھروں سے نکلتے ہیں ۔

کہا جاتا تھا کہ بلوچ غیر منظم اور جذباتی قوم ہے، جس کے پاس لیڈرشپ کی کمی ہے،لیکن آج بلوچ نے ثابت کیا کہ بلوچ جذباتی نہیں بلکہ نظریاتی ہے اور ہا ں قومی تحریک جذبے کے بغیر کچھ بھی نہیں ،اور بلوچ سب سے منظم قوم ہے اور بلوچ کی لیڈرشپ نے آج سامراج کا اصلی چہرہ بلوچ کے سامنے لاکر رکھ دیا۔آج بلوچ کونے کونے سے اٹھ کر اپنے حقوق کےلۓ آواز بلند کررہے ہیں، آج بلوچوں میں علاقہ پرستی، لسانی تضاد اور قبائل پرستی کافی حد تک کم ھوگئ ہے اور اس کا سہرا راجی تحریک اور اس سے جڑے ہوۓ اداروں کو جاتا ہے جنھوں نے انھیں بلوچ بننے کا سبق سکھایا۔۔

دراصل ھمیشہ سامراج اپنے قبضہ گیریت کو جواز بخشنے کےلۓ اس قوم کو اسی طرح کے ڈسکورسز کا شکار بنادیتاہے۔ انھیں اپنا ابجیکٹ بنا کر ان پر ایکسپیریمنٹ کرتا ہے لیکن جونہی ڈی کالونائیزیشن کا عمل شروع ہوتا ہے تو اس کو اپنے وجود کے لالے پڑ جاتے ہیں کیونکہ فیڈریشن استعمار کی سٹیبلٹی کا انحصار اس فیڈریشن کے اندر قوموں کے "نیشنلزم ” پر ہوتا ہے اور جونہی وہ دیکھتا ہے کہ ایسا کچھ ھورہا ہے تو وہ کاٹنے کو دوڑتا ہے، جیسے باولا کُتا۔۔!

اس راجی مچی نے بلوچ کے اوپر تو عیاں کردیا کہ سامراجی نظام میں ریاست کے نمائندے، پولیس اور گولیاں ھوتی ہیں اور غلام کا استقبال پھول سے نہیں گولیوں سے ہوتا ہے،اور اسکا چہرہ دیکھ کر سامراج اپنی انا کو تسکین دینے کےلۓ،انکی وجود کو نا مانتے ہوۓ گالیاں دے کر انکے ماؤں،بچوں پر سٹریٹ فائر کرتاہے۔اس مچی نے سامراج کویہ ثابت کروادیا کہ آپ ھزاروں خرچ کو بلوچ کو تقسیم کرو، وہ آپکے مصنوعی رکاوٹوں کو توڑنے کی صلااحیت رکھتا ہے۔آج راجی مچی نے ثابت کردیا کہ بلوچ ایک ذی شعور قوم جس کو اپنے قیادت چُننے پر ادراک حاصل ہے اور آج اسکی قیادت سرکاری سردار نہیں بلکہ مڈل کلاس طبقے سسے تعلق رکھنے والے سمو راج کررہی ہے ۔اس راجی مچی نے ریاست کے ساتھ اسکے ایلائ کو بھی یہ ثابت کردیا کہ بلوچ کی بغیر بلوچ سرزمین پر کوئ میگا پراجیکٹ قبول نہیں۔ ایک سفید ریش کے ساتھ تین دوختر اپنے قوم کا بوجھ اٹھاۓ نظر آتے ہیں۔آج اسی قیادت نے بلوچ کو جینے کی وجہ دی ہے، مزاحمت کا سبق سکھایا ہے، مایوسی سے نکال امید کی کرن دی ہے۔ان تحریک پر بات کرنے سے پہلے اسکو اس زاویے سے دیکھنا ھوگا کہ جہدمسلسل کی ایک کڑی ہے جو اگلی نسل کو یہ باور کبلوچ کی قیادت کرنے والوں کو ریاستی ھتکنڈوں کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کی نفسیات کو پڑھنا ھوگا کیونکہ قوم ہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔!

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچ راجی مچی کا مرکزی دھرنا گوادر میں جاری ہے ۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

بدھ اگست 7 , 2024
گوادر: بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان کے جاری بیان میں کہاہے کہ بلوچ راجی مچی پر ریاستی بربریت کے خلاف مرکزی دھرنا اس وقت گوادر میں جاری ہے۔ گوادر دھرنے کو دس روز مکمل ہوچکے ہیں اور آج دھرنے میں عوامی دیوان منعقد کیا گیا جس میں بلوچ یکجہتی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ