شال بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا کہ ہم گزشتہ چار دن سے آل پارٹیز کی ثالثی میں ریاست کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے دوران بار بار ریاست سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ ریاست سازگار ماحول پیدا کرے، بلوچستان بھر میں پر امن مظاہرین کے خلاف طاقت اور تشدد کا استعمال بند کرے، راستے اور انٹرنیٹ کھول دے جن کی بندش سے پورے مکران میں خوراک اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ گزشتہ 8-9 دنوں سے لوگوں کے اپنے گھروں میں کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں ہو رہا۔ لیکن ریاست ہمارے آئینی اور قانونی مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے مذاکرات کے نام پر ہمیں مسلسل ہراساں کر رہی ہے اور دھمکیاں دے رہی ہے کہ اگر دھرناختم نہیں کیاگیا تو قتل عام کر کے دھرنے کو ختم کروائیں گے۔
انھوں نے کہاہے کہ ہم چار دن سے مذاکرات کے دوران بار بار ریاست سے کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان بھر میں پر امن مظاہرین کے خلاف طاقت اور تشدد کا استعمال بند کریں تا کہ یہ مذاکرات آگے بڑھ سکیں لیکن ریاست طاقت اور تشدد کے استعمال کو بند کرنے کے بجائے اس میں شدت لا رہی ہے۔ ان چار دنوں کے جاری مذاکرات کے دوران بھی کوئٹہ اور کراچی سے پر امن مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور ان پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا ۔ جبکہ کل ریاست نے درندگی کی تمام حدیں پار کر دیں ، نوشکی میں پر امن مظاہرین پر فائرنگ کر کے ایک نو جوان کو شہید جبکہ متعدد کو زخمی کر دیا ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ریاست میں قانون اور آئین نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ۔
ترجمان نے کہاہے کہ ایک جانب ریاست نے اپنے انتظامیہ اور وزراء کو ہمارے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے بھیجا ہے، یہاں انتظامیہ اور وزراء ہمارے ساتھ وعدہ کرتے ہیں کہ اب کوئی طاقت اور تشدد کا استعمال نہیں ہوگا لیکن دوسری جانب گوادر میں جاری مذاکرات کے دوران ہی نوشکی اور کراچی میں پر امن مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ بربریت کی بدترین مثال قائم کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ ریاست پاکستان اپنے ہر قدم کے ساتھ ثابت کر رہی ہے کہ بلوچستان میں پر امن احتجاج کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پر امن احتجاج کی اجازت تو خود پاکستان کا آئین بھی دیتا ہے لیکن ریاست گوادر میں ایک پر امن دھرنے کے خلاف اپنی پوری طاقت بلوچ قوم کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ یہ کونسا قانون ہے کہ پر امن دھرنے کے بدلے پورے بلوچستان کو گزشتہ دس دنوں سے مکمل سیل رکھا جائے؟ پورے مکران میں اس وقت کرفیو نافذ ہے۔ ریاست بلوچوں کو بندوق اور بھوک دونوں سے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ ہم ریاست پر واضح کرتے ہیں کہ آپ ظلم کی تمام حدود پار کر کے پورے بلوچستان سے لاکھوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر اس بربریت اور درندگی کے خلاف لاکھوں
لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو اس عوامی سیلاب میں آپ کی طاقت اور غرور سب غرق ہو جائے گا۔
ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس وقت بلوچستان کی خطرناک صورتحال کا مکمل نوٹس لے ۔
گوادر سمیت پورے ملکر ان میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کا نوٹس لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کا سبب بن سکتا ہے۔