گوادر ،خاران : بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ بی وائی سی کی جانب سے پانچویں روز بھی دھرنا پدی زِر میں جاری ہے۔ دھرنے میں ہزاروں کی تعداد میں عوام شریک ہیں۔ ریاست کی جانب سے مسلسل طاقت اور تشدد کے استعمال کے باوجود دھرنے کے شرکاء کے حوصلے بلند ہیں۔
ترجمان نے کہاہے کہ ہم شروع دن سے ریاست پر واضح کر چکے ہیں کہ طاقت اور تشدد کے استعمال سے نہ ہم کمزور ہوں گے اور نہ ہی طاقت کے آگے سر جھکانے کی ہماری عادت ہے۔ اگر ریاست اس سے بھی زیادہ طاقت استعمال کرنے کا شوق رکھتی ہے تو بیشک اپنا شوق پورا کر لے، لیکن اس عوامی مزاحمتی جدوجہد کو طاقت کے استعمال سے کسی بھی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان بلوچستان بھر میں اپنے پرامن احتجاج اور دھرنوں کو جاری رکھیں اور اس حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی کال کے بغیر کسی بھی قسم کی افواہوں پر یقین نہ کریں۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی خاران کی جانب سے جمعرات کے روز ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرے میں خواتین کی نمایاں تعداد شریک تھی۔
ترجمان نے کہاہے کہ اس وقت بلوچستان کے مختلف شہروں میں راجی مچی جلسے کے شرکاء اور منتظمین کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے۔
پولیس کی جانب سے گوادر میں بلوچ راجی مچی کے اجتماع کے شرکاء اور منتظمین پر بلوچستان کے متعدد شہروں میں مبینہ طور پر پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے اور پاکستان کے خلاف بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں پولیس نے وسیم بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر ارکان کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے ہیں- پولیس نے ان افراد پر ریاست مخالف پمفلٹ تقسیم کرنے اور گوادر میں ہونے والی تقریب کے لیے شہریوں کو متحرک کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
ادھر صنعتی شہر حب چوکی میں پولیس نے سڑکیں بلاک کرنے، دھرنا دینے اور پولیس پر فائرنگ کرنے کے الزام میں قبائلی رہنما ستار انگاریہ، عارف بلوچ سمیت دیگر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے منتظمین اور گوادر جلسے کے شرکاء مرد اور خواتین کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔
حب پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین نے گڈانی کے مقام پر مرکزی شاہراہ بلاک کرکے ٹریفک کے لئے بند کردیا تھا اور انہیں منتشر کرنے کی کوشش کے دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور فائرنگ کی جس سے پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں-
اسی طرح نوشکی میں پولیس نے شہر کو بند کرنے اور مظاہرے کے دؤران پاکستان مخالف اور آزاد بلوچستان کے نعرے لگانے پر متعدد مرد و خواتین شہریوں کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔
یاد رہے حالیہ گوادر جلسے پر ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاجوں پر اس سے قبل خضدار، کوئٹہ، بارکھان اور خاران میں مظاہرین کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں مقدمات دائر کیئے گئے ہیں-
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومت سے مذاکرات کے لئے اپنے نکات کے پیش کیئے جن کے مطابق بلوچ راجی مچی کے شرکاء کے خلاف گوادر سمیت پورے بلوچستان میں طاقت اور تشدد کا استعمال روکنا اور گرفتار تمام شرکاء کو فوری رہائی کا مطالبہ شامل ہے-
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ مذاکرات کے دوران اگر گوادر سمیت بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں بلوچ راجی مچی کے شرکاء کو ہراساں کیا گیا یا طاقت استعمال کی گئی تو ہم مذاکرات کو فوری طور پر موخر کرکے دھرنے کو جاری رکھیں گے۔