پچپن میں جب ہم اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو اُدھر بورڈ اور دیواروں پر لکھا ہوتا تھا کہ "آزادی کی قدر کرو یہ بہت بڑی نعمت ہے” آپ یقین مانیے اُس وقت ہمارا سوچ اُسی چار دیواری تک محدود تھا ہم سمجھتے تھے کہ اس چار دیواری کے باہر آزادی ہے، کہتے ہیں جو سبق وقت اور حالات سکھاتا ہے وہ بڑے سے بڑا استاد بھی نہیں سیکھاتی۔

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے لفظ "حقیقی آزادی” کو تیزی سے مقبول کیا، چنانچہ یہ جملہ پڑھنے اور لکھنے میں مختصر ہے مگر اس کی گہرائی گنوائے سے بھی نیچے ہے، حقیقی آزادی کی تشریح فارم سینتالیس سے شروع ہو کر بلوچستان کے کونے کونے سے واضح ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت آگست کا مہینہ شروع ہوچکا ہے جشن آزادی کی تیاریاں عروج پر ہے جہاں اربوں روپے خرچ کرکے دنیا کو یہ دکھایا جائے گا کہ ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک ہیں، ایک طرف پاکستان کے مقبول ترین لیڈر عمران خان اڈیالہ جیل میں حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے تو دوسری طرف بلوچستان کے آئرن لیڈی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے کارواں پر ریاستی ظلم و جبر دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ یہ ایک آزاد اور جمہوری ملک نہیں ہے کیونکہ آزاد اور جمہوری ریاستوں میں لوگ اپنے فیصلوں پر آزاد ہیں اُن کے ووٹ اہمت کے حامل ہیں مگر یہاں سب فارم سینتالیس کے پیداوار ہیں۔
آزاد اور جمہوری ریاستوں میں لوگوں کو نقل و حرکت، پرُامن احتجاج، جلسے جلوس کرنے میں مکمل آزادی ہے، بلوچ راجی مُچی پر ریاستی جبر نہ صرف لفظ حقیقی آزادی کی تشریح کر رہا ہے بلکہ یہ آزاد اور جمہوری نظام کے منہ پر کھلا تماچہ ہے، آج ضرورت اس آمر کی ہے کہ ہمیں حقیقی آزادی کی لفظی معنی کو سمجھ کر متحدہ ہونا پڑے گا۔