جیسے ہی 27جولائی کو کراچی سے پندرہ سولہ گاڑیوں پر مشتمل کاروان کے ساتھ ہم گوادر کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارے کاروان میں عورتیں بچے ، جوان اور بزرگ شامل تھے۔ دن تین بجے سے یوسف گوٹھ سے راہ میں رکاوٹوں کا آغاز ہوا۔ تمام رکاوٹوں کو دور کرتے کرتے یہ کاروان رات ایک بجے زیروپوائنٹ (مکران کوسٹل ھائی وے) پہنچا۔ شدید گرمی اور جگہ جگہ رکاوٹوں سے ذہن کو تازہ دم کرنے کے لیے ہم لوگ موجود پانی پر گزارہ کرنے لگے۔ آخر ایک ایسا وقت آیا کہ کاروان کے پاس موجود پانی کا ذخیرہ ختم ہوا۔
کاروان چلتا رہا۔ رات تین بجے کاروان جیسے ہی لیاری سے آگے بڑھا انہیں فورسز نے گھیرلیا۔ کاروان میں موجود گاڑیوں پر سیدھا فائرنگ ہوئی جس سے کئی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے اور ٹائر برسٹ ہوئے۔ کسی نہ کسی طرح دو گاڑیوں کے علاوہ باقی گاڑیوں کو سفر کے لیے کارآمد بنایا۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اگر چہ کاروان آگے بڑھنا چاہتا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ تمام لوگ پیاس کے شدت سے نڈھال تھے، خاص طورپر عورتیں اور بچے۔ ہم نے اسلحہ بردارفورس سے درخواست کی کہ قریب ایک ندی ہے جس میں پانی موجود ہے ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم وہاں سے پانی حاصل کریں لیکن ہمیں اجازت نہ ملی۔
اب 28 جولائی کا سورج اپنی روشنی پھیلا رہا تھا ۔ فیصلہ ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرنے سے بچانے کے لیے واپسی کا سفر اختیار کیا جائے۔ واپسی کا سفر شروع ہوا تو قریب ایک ھوٹل دیکھ لوگ خوش ہوئے کہ کم از کم اب پانی تو ملے گا۔ جیسے لوگ ھوٹل پر پانی کے لیے پہنچے، فورس نے فائرنگ کرکے ھوٹل بند کروادیا۔ اس کے بعد جہاں جہاں پانی ملنے کے امکانات ہوتے وہاں فورس پہنچ کر پانی کے راستے بند کردیتا۔
پیاس سے نڈھال کاروان کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد دوبارہ زیرو پوائنٹ پہنچا۔ یہاں پیاس بجانے کے لیے قلیل مقدار میں پانی ملا۔ علاقے کے معززین کو جب اس صورتحال کا علم ہوا تو وہ کھانا اور پانی لے آئے۔ ان معززین میں قابل زکر نام عبدالستار انگاریہ کا تھا جس نےکاروان کے لیے پانی کا انتظام کیا۔ تیسرے دن کاروان میں شامل لوگ بڑی مصیبتوں کے بعد اپنے اپنے گھروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ عبدالستار انگاریہ پانی پلانے کے جرم گرفتار کرلیے گئے۔