انسان کے پاس سب سے بڑی دولت اور نعمت ”آزادی“ ہے جب تک انسان آزاد رہتا ہے اپنے تمام تر دینی و دنیاوی کام با آسانی سر انجام دے سکتا ہے اور جب اس سے یہ نعمت چھین لی جاتی ہے تو وہ نہ پورے طور پر اپنے دین پر عمل پیرا ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپنی دنیا کا لطف اٹھا سکتا ہے ۔
فطرت انسانی آزادی کی قائل ہے تو اسے کسی طرح بھی غلام بنانا اسکی فطرت کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ جیسے کہ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا ؛ ”تم لوگوں نے انسانوں کو کب سے غلام بنانا شروع کر دیا ہے حالانکہ انکی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے “ سو اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان آزاد ہی ہے اور احکام شریعت کی پابندی اس آزادی کے منافی نہیں ، (جیسا کہ ایک بیٹا باپ کی طرف سے دی گئی آزادی کا فائدہ تو ضرور اٹھاتا ہے مگر اس آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے چند اصولوں کا پابند بھی ہوتا ہے ، مثلاً غلط ماحول ، برے لوگوں کی صحبت سے اجتناب اسی طرح غیر اخلاقی عادات و اطوار سے گریز کرنا وغیرہ ، تو کوئی بھی اس بیٹے کو غلام نہیں سمجھتا بلکہ یہ پابندیاں فطرت کے عین مطابق سمجھی جاتی ہیں)۔
انسان کی آزادی چھین لینے سے بڑھ کر زیادتی کی ایک اور صورت ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنے زمینی خداؤں کی اجازت کے بِنا سانس تک نہ لے سکے چہ جائیکہ وہ اپنے حقوق یا اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو ، اور اسے یہ خاموشی ایک ایسے جبر کے نتیجے میں دیا جاتا ہے کہ اس جبر کو سوچتے ہی اس کے دل میں ایک ایسا خوف گھر جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا تو درکنار ایک مختصر سی آواز تک نہیں اٹھا سکتا ۔
آج بلوچستان کا ہر باسی اس حالت سے دو چار ہے سوائے ایک مخصوص طبقے کے جو ظالم کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور اس کے اشاروں پر ناچتے ہیں اسکی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور اسکے ہر حکم کو -نعوذباللہ- حکم خداوندی کا درجہ چکے ہیں گویا اس کی حکم عدولی لازم کفر ہے ۔
آج وہ ظالم درندہ جو ہر کس و ناکس کو ضرر رساں ہے بھوکلاہٹ کا شکار ہے اپنے زوال سے بے پنا ڈر و خوف کے پنجوں میں جکڑ لیا گیا ہے کیونکہ اسے اپنا زوال اپنے سامنے نظر آرہا ہے جسکی وجہ سے اسکو ایک تنکہ بھی شہتیر دِکھنے لگا ہے اب وہ بوڑھے خونخوار کی مانند بھیڑوں سے اپنی جان بچانے کی خاطر ہر حربہ استعمال کر رہا ہے پُر امن تحریکوں کو مسلح تنظیم ظاہر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے تاکہ انکا قتل عام کرے اور انکی آواز کو دبائے جسکا نتیجہ یہ نکلے کہ آئندہ زمانوں میں کوئی بھی ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے والا نہ ہو اور وہ ان وسائل کو ہڑپ کر جائے جن سے یہ خطہ مالامال ہے اور اس خطے کے باسی صحت ، تعلیم وغیرہ کے ساتھ ساتھ پانی کی بوند بوند کو ترسیں ، اور انکی سوچ انکی بنیادی ضروریات میں ہی مُقیَّد رہے جس میں پھنس کر وہ اپنے حقوقِ عُظمٰی ، ساحل و وسائل سے غافل ہو جائیں ،
اب اس صورت میں اس خطے کے باسی تین حصوں میں بٹ جائیں گے ، ایک حصہ اپنے ضعف اور قِلتِ قوت و اسباب مزاحمت کے نہ ہونے کا شکار ہو کر ایک طرف کو ہونگے اور اپنی زندگی کے ایّام ایک قید خانے میں موجود عمر قید کی سزا پانے والے مجرم کی مانند گزارینگے اور صبر در صبر جانبِ قبر منتقل ہوتے چلے جائیں گے ۔
دوسرا حصہ ان مادی اسباب سے قطع نظر کرکے اپنے قوّت ایمانی اور غیرت انسانی کی مدد سے اپنے محفوظ پناہ گاہوں کی جانب ایک عزم لے کر ابدی تشخص کے بقاء کے لئے ایک عارضی گمنامی اختیار کریں گے ، اور وقتاً فوقتاً اپنے دشمن کو اپنی طاقت کے مطابق ہر موڑ پر موقع پاکر دھول چٹانے لگیں گے ، اسے جانی و مالی نقصان دیتے ہوئے اسکے تسلط کو ختم کرنے اور اپنی شناخت کو باقی رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کریں گے ، اور اس گروہ کے دو بنیادی مقاصد ہونگے، پہلا مقصد ؛ اپنے دشمن کو اپنے شعورِ حرّیت کا ثبوت دینا اور دوسرا مقصد اپنی دھرتی اور اس کے باسیوں کو ظالم و غاصب کے تسلّط سے چھٹکارا دلانا یعنی اپنے مادرِ وطن کو ایک آزاد و خودمختار ملک بنانا کہ اس میں امن و سکون ، عدل و انصاف ، حقوق کی فراہمی ، یہاں کے ہر فرد کو تمام تر ضروریات کی فراہمی ، ظالم کو سزا ، مظلوم کی داد رسی ، اور ان سب سے بڑھ کر ایک ایسی آزادی کا حصول جس میں اس قوم کی روایات ، رسم و رواج، قومی تشخص اور نسل کی بقاء مضمر ہے۔
تیسرا حصہ وہ ہے جس میں ہر طبقہ کے لوگ ، ہر عمر و صنف کے افراد تمام تر تفرقات سے بالاتر ہو کر ایک ہی نظریہ کو لے کر اٹھ جاتے ہیں ، اور یہ حصہ بھی تعداد میں بہت کثیر ہوتا ہے ، مگر اس حصے میں صرف باشعور لوگ ہی حصہ لیتے ہیں جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور استحصال حقوق کو ہر طرح سے رد کرتے ہیں ، یہ حصہ مرد و زن ، بچے و بوڑھے ، ڈاکٹر و انجینئر وغیرہ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے ، یہ اپنے حقوق کی طلب پر امن طریقے سے عوام کی طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش
کرتے ہیں اور ریاست کی طرف سے اگر انکے اوپر اس راستے میں کوئی دباؤ بھی پڑے تو وہ اس کا جواب سختی ، مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے بجائے ایک پر امن احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں اور مزید ابھرتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم ان تینوں گروہوں میں سے کس گروہ کا حصہ بن سکتے ہیں ؟؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اولین ترجیح کے طور پر دوسرے گروہ کا حصہ بنیں تاکہ کل کو اپنے ان شہیدوں کے سامنے شرمندگی سے بچیں جنہوں نے اپنے خون سے اس چمن کو سیراب کیا اور اگر اس گروہ کا حصہ نہیں بن سکتے تو پھر تیسرے گروہ کا جزو بن جائیں ، تاکہ ایک پُر امن طریقے سے اپنے بنیادی حقوق اور حقِ خودارادیت کو مکمل طور پر حاصل کریں ، کیونکہ بلوچ کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ چودہ سو سال پہلے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس دھرتی کو فتح کیا تو اس دھرتی کے باسیوں نے چار مرتبہ بغاوت کی جسکی اصل وجہ یہی تھی کہ بلوچ یہ سمجھتے تھے شاید صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انکی دھرتی پر قبضہ کر کے انکو غلام بنانا چاہتے ہیں اور انکی نسل کشی کی غرض سے وہ اس دھرتی پر بارہا چڑھائی کر رہے ہیں، اور اس دوران کئی صحابہ کرام شہید بھی ہوئے جنکی قبور پُر نور آج بھی اس تاریخ کی شاہد ہیں ، لیکن جب بلوچوں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ صحابہ کرام نہ زمین کے طلبگار ہیں اور نہ ہی بلوچوں کو غلام بنانے کے غرض سے اس خطے پر چڑھائی کر رہے ہیں بلکہ وہ محض دین متین کی تعلیم و ترویج کیلیے یہاں تشریف لائے ہیں تو اس کے بعد بغاوت کا سلسلہ تھم گیا ، اور بلوچ قوم نے اپنے بہترین اوصاف و طاقت کو اپنی نسل کی بقاء اور دین اسلام کی اشاعت میں صرف کیا جسکی گواہی آج بھی تاریخ کے اوراق دیتے ہیں ۔
اب چند دہائیوں سے پھر بلوچ قوم پر ایک آزمائش کی گھڑی آن پڑی ہے کہ دوبارہ سے اس عظیم قوم کی نسل کشی اور تشخص کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے اس خطے کا امن ہجرت کر گیا ہے ، اب بلوچ قوم کو ایک بار پھر متحد ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی شناخت ، روایت اور نسل کو باقی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ قومیں اموات سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ قومیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے اور اپنی روایات و حقیقی تشخص کے ناپید ہونے کی وجہ سے ختم ہوتی ہیں۔
اس قوم کی بقاء اسی میں ہے کہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اسی سلسلے میں (بلوچ یکجہتی کمیٹی) نے ایک اجتماع (بلوچ راجی مُچی) کا انعقاد کیا ہے جو کہ 28 جولائی 2024 کو بلوچستان کے شہر گوادر میں منعقد ہوگا، لہذٰا بحیثیت بلوچ ہر شخص اس اجتماع میں شرکت کرکے اپنے زندہ ہونے اور اپنی شناخت کو باقی رکھنے کیلئے کوشاں ہونے کا ثبوت دے ، ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہماری تاریخ سے ذرہ برابر بھی واقف نہ ہونگے بلکہ تاریخ کے اوراق سے بلوچ کا نام و نشان مٹ جائے گا ، وہ عظیم دھرتی جس پر سینکڑوں سالوں سے یہ قوم آباد ہے ، اور اسکی دھرتی کے حصول و بقاء کے لئے جتنی قربانیاں دی گئی ہیں وہ سب رائگاں جائیں گی جس کی وجہ سے ہم دنیا میں بھی انکے مجرم ہونگے اور آخرت میں بھی اس بات کے جوابدہ ہونگے۔
آئیں ہم سب رنگ، نسل، و حیثیت کے فرق کو پس پشت ڈال کر ایک قوم بنیں اور اپنے یکجہتی کمیٹی کے بھائی بہنوں کا سہارا بنیں اور اس قوم کو ترقی کی جانب گامزن کریں ، کیونکہ تاریخ میں ان قوموں اور شخصیات کو یاد رکھا جاتا ہے جنہوں نے اپنی بقاء کی جنگ لڑی ہوتی ہے اور مزاحمت کا راستہ اپنایا ہوتا ہے ، اور جو لوگ دو ٹکوں کے عوض اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں تاریخ انہیں ذلت و نکبت کے سوا کچھ بھی نہیں دیتی، حال کے مختصر و عارضی سے نفع کی خاطر مستقبل کی ابدی ذلت اٹھانی پڑتی ہے اور جب تاریخ کے اوراق پلٹے جاتے ہیں تو ایسے لوگوں کو لعنت کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا ۔
ہم زندہ قوم ہیں اس بات کا ثبوت گوادر میں ہونے والے ”بلوچ قومی اجتماع“ (بلوچ راجی مُچی) میں شرکت کے ذریعے دیں شکریہ
بلوچ قوم سلامت رہے۔