بلوچ راجی مچی۔تحریرعزیز سنگھور

اٹھائیس جولائی 2024 کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ہونے والا "بلوچ راجی مچی” یعنی "بلوچ قومی اجتماع” ریاستی ہتھکنڈوں کے باعث مقررہ تاریخ سے قبل کامیاب ہوگیا۔ ریاستی اداروں کی "بوکھلاہٹ” اور "کم عقلی” نے منعقد ہونے سے پہلے "بلوچ راجی مچی” کو کامیابی سے ہمکنار کردیا۔

خصوصاً پاکستان بالخصوص بلوچستان میں زبردستی قائم کردہ "غیرسیاسی حکومت” نے اپنی "بچکانہ” حرکات کی وجہ سے بلوچ سیاسی تحریک کو مزید ایندھن فراہم کیا۔ حکومتی "طفلانہ” حکمت عملی سیاسی شعور رکھنے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے سامنے ڈھیرہوگئی۔

اگردیکھا جائے "بلوچ راجی مچی” کے خلاف ریاست نے طاقت کا استعمال پہلے سے ہی شروع کردیا تھا۔ کراچی سے لےکر کوہ سلیمان، شال سے لےکر مکران تک، رخشان سے لے کر ساروان اور جھالاوان سے لے کر شاشان تک تین سو سے زائد بلوچ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ جبکہ دیگر کارکنوں اور ہمدردوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ان کی فیملی کو حراساں کیا جارہا ہے۔ "بلوچ راجی مچی” کے لئے چندہ جمع کرنے سے روکا جارہا ہے۔ ٹرانسپورٹروں کو "بلوچ راجی مچی” کے لئے گاڑیاں فراہم کرنے پر انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ گوادر اور کیچ میں انٹرنیٹ سروس کو معطل کردیا ہے۔ گوادر جانے والی سڑکوں اور شاہراؤں پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں ہیں تاکہ "بلوچ راجی مچی” میں شرکت کی تعداد کم سے کم ہوسکے۔

حکومت کی جانب سے ان سارے "بےوقوفانہ” عمل نے "بلوچ راجی مچی” کی اہمیت اور افادیت کو مزید تقویت دی۔ ان تمام ریاستی ہتکھنڈوں کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ گوادر پہنچ گئیں۔ اتنی رکاوٹوں کے باوجود ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گوادر موجودگی حکومتی اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، کامریڈ بیبگر بلوچ، کامریڈ وسیم سفر، واجہ صبغت اللہ بلوچ، فوزیہ شاشانی، کامریڈ بیبو، لالہ وہاب، بلوچ وائس فارمسنگ پرسنز کی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ، بلوچ وومن فورم کی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ سمیت دیگر رہنما اپنے اپنے قافلوں کی صورت میں غیر معروف راستوں سے گوادر کی جانب رواں دواں ہیں۔ بلوچ اپنی سرزمین پر کہیں بھی جاسکتا ہے۔ اور کہیں بھی جمہوری طریقے سے جلسہ و جلوس کرسکتا ہے۔ یہ ان کا آئینی و قانونی حق ہے۔ یہ حق پاکستان کے آئین و قانون میں موجود ہے۔ اور یہ آئین اور قانون "پاکستانیوں” نے بنایا ہے۔ بلوچوں نے یہ قانون و آئین نہیں بنایا ہے۔ پاکستانی ادارے اپنے قانون و آئین کی پاسداری نہیں کریں گے تو وہ ماورائے قانون آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ پھر بلوچ کو بھی "بلوچی روایات” کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی دفاع کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔ ابھی بھی ریاست ہوش کے ناخن لے اور غیر جمہوری ہتکھنڈوں سے باز آجائے۔

یہ "بلوچ راجی مچی” ریاستی طاقت کے استعمال کے باوجود بھی منعقد ہوگی۔ یہ ایک "عوامی ریفرنڈم” ہے۔ جس نے دنیا میں ثابت کردیا کہ بلوچ ایک الگ سرزمین رکھتا ہے۔ ان کی ایک جداگانہ شناخت، زبان و ثقافت ہے۔ اور بلوچ اپنی سرزمین پر اپنی خواہش اور مرضی کی بنیاد پر جینا چاہتا ہے۔ ان پر کوئی بھی "غیر” اپنی مرضی اور منشا مسلط نہیں کرسکتا ہے۔ اگر حکومت نے مزید "کم عقلی” کا مظاہرہ کیا تو "بلوچ راجی مچی” ان کے ارادوں کو "پدی زر” میں سمندر برد کردیگا۔
ایسی صورتحال کی پیش نظر ریاستی اداروں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہوکہ یہ جنگ کوئٹہ کے "ریڈ زون” تک پہنچ جائے۔ پھر یہ جنگ حتمی ہوگی۔

اٹھائیس جولائی کو منعقد ہونے والا "بلوچ قومی اجتماع” کو روکا گیا تو پورے بلوچستان کی شاہراؤں پر دھرنے کی صورت میں اجتماعات منعقد ہوںگے۔ اور عوام بے قابو بھی ہوسکتی ہے۔ ہر طرف آگ ہی آگ لگے گی۔ ہر جانب شعلے ہی شعلے ہوں گے۔ جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوں گی۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مستونگ میں فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کے نام سامنے آگئے ، ہیلی کاپٹروں کی گشت جاری

ہفتہ جولائی 27 , 2024
مستونگ میں پاکستانی فورسز کے فائرنگ سے بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے کیلے جانے والے قافلہ میں شامل زخمی ہونے والوں کی شناخت سمیع اللہ، طالبعلم سریاب شال،محمد جاوید، مستونگ ،شبیر مینگل مغربی بائی پاس شال، محمد آصف چاغی ، ولی محمد چاغی،میاں خان کانک مستونگ،محمد زمان، کانک مستونگ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ